پنجاب کے وزیر ملک اسد کھوکھر نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ دوسری خبر یہ ہے کہ عمران خان نے ان سے استعفیٰ لے لیا ہے۔ تیسری خبر یہ ہے کہ انھیں استعفیٰ دینے کی مہلت بھی ایک رعایت کے طور پر ملی ہے ورنہ انھیں وزارت سے ہٹانے کا فیصلہ بھی ہوگیا تھا۔
تاہم بعد میں پنجاب کے سیاسی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے انھیں استعفیٰ دینے کی اجازت دے دی گئی۔ بات صرف اتنی نہیں ہے بلکہ عمران خان نے پنجاب کے متعدد وزراء اور دو ممبران صوبائی اسمبلی کو بھی ملاقات کے لیے اسلام آباد بلا لیا ہے۔ عمران خان نے پنجاب کے وزراء سے براہ راست ملاقاتوں کا فیصلہ کیا ہے۔ دو بیوروکریٹس کی آدھی رات کو پنجاب سے فراغت کی خبریں بھی ان سب خبروں کے ساتھ ہی جڑی ہوئی ہیں۔ لوگ ساری کہانی کو اکٹھے ہی دیکھ رہے ہیں۔ حالانکہ یہ ساری کہانی ایک نہیں ہے۔
جہاں تک ملک اسد کھوکھر کا تعلق ہے تو ان کے ساتھ تحریک انصاف میں پہلے دن سے ہی سوتیلے بھائی والا سلوک ہو رہا ہے۔ وہ ایک دن بہت اہم ہو جاتے اور دوسرے ہی دن بہت غیر اہم ہو جاتے تھے۔ ایک دن لگتا تھا کہ وہ اب اگلی صفوں میں کھلیں گے دوسرے دن ان کی ٹیم میں شمولیت ہی مشکوک ہو جاتی تھی۔ ملک اسد کھوکھر نے ضمنی انتخاب میں کامیابی حا صل کی تھی۔ یہ لاہور کی وہی سیٹ تھی جس پر خواجہ سعد رفیق نے کامیابی حاصل کی تھی تا ہم بعد میں ن لیگ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ پنجاب اسمبلی میں نہ رہیں بلکہ قومی اسمبلی کا ضمنی انتخاب لڑیں۔
اس طرح عمران خان نے جس سیٹ پر کامیابی حاصل کی تھی وہ ضمنی میں ن لیگ نے جیت لی اور خواجہ سعد رفیق کامیا ب ہو گئے۔ جب کہ جس سیٹ پر خواجہ سعد رفیق نے بطور ممبر پنجاب اسمبلی کامیابی حاصل کی تھی وہ تحریک انصاف کی طرف سے ملک اسد کھوکر نے جیت لی۔ اس طرح ملک اسد کھوکھر ن لیگ کی سیٹ جیت کر آئے تھے۔ یہ ایک اہم ضمنی انتخاب تھا۔ اس میں ملک اسد کھوکھر کی کامیابی سب کے لیے حیران کن تھی۔ ان کی جیت بلا شبہ ایک سیاسی اپ سیٹ تھی۔ لیکن ساتھ ساتھ ملک اسد کھوکھر کے بارے میں یہ بھی مشہور ہو گیا کہ انھیں طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل ہے۔ اسی لیے وہ یہ سیٹ جیت سکے ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ انھوں نے صرف 687ووٹوں سے جیت حا صل کی تھی۔
ملک اسد کھوکھر کے جیتنے کے بعد ان کی پنجاب کابینہ میں شمولیت کی خبریں گرم ہو گئیں۔ تا ہم پہلے مرحلہ میں انھیں کابینہ میں شامل نہیں کیا گیا بلکہ فروری 2019میں انھیں وزیر اعلیٰ شکایت سیل کا انچار ج بنایا گیا۔ تاہم بعد میں اگست 2019میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے یہ سیل ہی ختم کر دیا اور وہاں سے سب کو ٹرانسفر کر دیا۔ ملک اسد کھوکھر نے بھی شکایات کی وجہ سے وہاں سے استعفیٰ دے دیا۔ کہا جاتا ہے تب بھی ان سے استعفیٰ لیا ہی گیا تھا، انھوں نے دیا نہیں تھا۔
لیکن اسد کھوکھر بھی ایک کمال شخصیت ہیں وہ ادھر ڈوبے ادھر نکلے کی مصداق ہر وقت اپنا راستہ بنانے کا فن جانتے ہیں۔ اگست 2019میں وزیر اعلیٰ شکایت سیل سے فارغ ہونے کے بعد بھی انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور تمام تر مخالفت کے باوجود 13 ستمبر 2019کو انھوں نے پنجاب کے وزیر کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا۔ ان کی سفارش اتنی طاقتور تھی کہ ان سے قائم مقام گورنر چوہدری پرویز الٰہی نے اکیلے ہی حلف لیا۔ حلانکہ تب بھی پنجاب کابینہ میں توسیع کی بہت خبریں گرم تھیں لیکن اسد کھوکھر اکیلے ہی حلف لینے میں کامیاب ہوئے۔ صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ ان کا حلف بہت مجبوری میں کرایا جا رہا ہے کیونکہ وزیر اعلیٰ پنجاب بھی ان کی تقریب حلف بردرای میں شریک نہیں تھے۔
سیاسی روایت کے مطابق حلف برداری کے ساتھ ہی یا پھر اس کے اگلے دن وزیر کو محکمہ الاٹ کر دیا جاتا ہے لیکن جس تیزی سے اسد کھوکھر کا حلف ہوا تھا، ان کو وزارت الاٹ کرنے کا عمل رک گیا۔ بتایا جاتا ہے نہ عمران خان او رنہ ہی عثمان بزدار ان کے حلف کے حق میں تھے۔ اس لیے مجبوری میں حلف برداری تو ہو گئی لیکن محکمہ الاٹ نہیں کیا گیا۔ وہ تین ماہ تک وزیر بے محکمہ رہے۔
نہ کوئی محکمہ نہ کوئی دفتر نہ کوئی اسٹاف۔ وزیر تھے بھی اور نہیں بھی۔ اسد کھوکھر اپنے قریبی حلقوں کو یہی بتاتے تھے کہ وہ داخلہ کا محکمہ چاہتے ہیں، یہی تنازعہ ہے۔ میں اس سے کم پر نہیں مان رہا لیکن تین ماہ وزیر بے محکمہ رہنے کے بعد اسد کھوکھر کو جنگلی حیات اور ماہی پروری کا محکمہ الاٹ ہو گیا۔ پنجاب میں اس کو غیر اہم وزارت سمجھاجاتا ہے۔ اس میں کوئی خاص کام نہیں ہے۔ بس نام کی ہی وزارت ہے۔ لیکن تین ماہ وزیر بے محکمہ رہنے کے بعد اسد کھوکھر نے اس کو بھی غنیمت ہی جانا۔ بتایا جاتا ہے کہ عمران خان نے انھیں محکمہ نہ دینے کی ہدایت کی ہوئی تھی، بڑی مشکل سے بعد میں عمران خان مانے۔
یہ ساری کہانی بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اسد کھوکھر پہلے دن سے عمران خان اور عثمان بزدار کو پسند نہیں تھے لیکن ان کی پرچی بہت زور دار تھی۔ اس لیے وہ نا پسندیدگی کے باوجود اپنا راستہ بنا لیتے تھے لیکن کہا جاتا ہے کہ چند ماہ پہلے سفارش ختم ہو گئی تو اسد کھوکھر کی طاقت بھی ختم ہو گئی۔ اب سوال یہ ہے کہ اسد کھوکھر کیوں تبدیل ہو ئے ہیں۔
یہ تو سب جانتے ہیں کہ کمشنر لاہور بلال لودھی کو کیوں ہٹایا گیا۔ رنگ روڈ کی کہانی سب جگہ شائع ہو گئی ہے۔ یہ بات بھی کھل کر سامنے آگئی ہے کہ اسد کھوکھر ان کے سفارشی تھے۔ لیکن ایک کمشنر کی سفارش کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ وزارت سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ یقینا اسد کھوکھر کو وزارت سے ہٹانے میں رنگ روڈ اور کمشنر کی سفارش کے علاوہ بھی عوامل ہیں۔ مبینہ طور پر کہا جاتا ہے کہ راوی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی کہانی بھی اہم ہے۔ اس کہانی نے بھی برج الٹنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بالخصوص اسد کھوکھر کوہٹانے میں اس کہانی کی بہت اہمیت ہے۔
عمران خان نے پنجاب کے متعدد وزراء کو ملاقات کے لیے بلایا ہے۔ ان میں صمصام بخاری، نعمان لنگڑیال، رائے تیمور سمیت دیگروزرا شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ کو فارغ کرنے کی افواہیں ہیں۔ کچھ کے محکمہ تبدیلی کرنے کی افواہیں ہیں۔ وزرا کی کارکردگی کی رپورٹس عمران خان کو عثما ن بزدار نے بھی بھجوائی ہیں اور عمران خان نے اپنے ذرائع سے بھی حاصل کی ہیں۔
ویسے عمران خان نے سمیع اللہ چوہدری کو بھی بلایا ہے۔ جنھیں چینی سکینڈل کے وقت وزارت سے ہٹایا گیا تھا۔ اب شنید یہ ہے کہ انھیں دوبارہ وزارت ملنے کی بھی امید ہے۔ اس لیے اگلے تین دن عمران خان پنجاب کے وزیروں کو مل رہے ہیں۔ انھوں نے سب کو خود ملنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک خبر تو یہ بھی ہے کہ انھوں نے ملک اسد کھوکھر کو بھی بلایا ہے۔ انھیں بھی بتایا جائے گا کہ انھیں کیوں ہٹایا گیا۔ ان کی بات بھی سنی جائے گی، ایک افواہ ہے انھیں چپ رہنے کا بھی مشورہ دیا جائے گا۔
پنجاب میں عددی کھیل اتنا نازک ہے کہ زیادہ ارکان کی ناراضی کا بوجھ برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ اسد کھوکھر کی قربانی کے بعد باقی قربانیاں ٹل جائیں گے۔ اب شاید مزید وزیر فارغ نہیں ہوں گے۔ محکموں میں رد و بدل ممکن ہے لیکن کسی کو کابینہ سے نکالا نہیں جائے گا۔ آگے راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔