پاکستان کے سیاسی منظر نامہ میں اس وقت شہباز شریف کے آسیب نے بہت مسائل پیدا کیے ہوئے ہیں۔ ان کا یہ آسیب حکومتی ٹیم کو کوئی کام کرنے دے رہا ہے اور نہ ہی ملک کو چلنے دے رہا ہے۔ اس آسیب کے حوالے سے حکومت کو بتایا گیا ہے کہ جب تک شہباز شریف ملک سے باہر رہیں گے ان کا آسیب حکومت کی جان کھائے رکھے گا۔
میں نے سوال کیا کہ کیا جب شہباز شریف واپس آ جائیں گے تو یہ آسیب حکومت کی جان چھوڑ دے گا؟ تو اس نے کہ نہیں، جان تو تب بھی نہیں چھوڑتا لیکن تب شہباز شریف اس کو پھر بھی کنٹرول کر لیتے ہیں۔ لیکن جب وہ ملک سے باہر چلے جاتے ہیں تو یہ کسی کے کنٹرول میں نہیں رہتا اور ہر کام خراب کر دیتا ہے۔ اب دیکھیں ملک میں آٹے اور چینی کا بحران بھی یہی آسیب لے کر آیا ہے۔ آپ یقین کریں اس آسیب نے حکومت کو ایسا جکڑ لیا تھا۔ کہ کسی کو کچھ سمجھ ہی نہیں آیا۔
شہباز شریف کے اس آسیب کے کمالات حیران کن ہیں۔ ایک طرف تو شہباز شریف9نومبر سے ملک سے باہر ہیں۔ وہ نواز شریف کے ساتھ لندن گئے تھے۔ ان کے بقول ابھی تک بھائی کا علاج چل رہا ہے۔ اسی لیے وہ لندن میں ہیں۔ جب کہ حکومتی وزراء نے یہ شور مچانا شروع کر دیا ہے کہ وہ ملک سے فرار ہو گئے ہیں اور واپس نہیں آ رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی شہباز شریف گزشتہ سال 9 اپریل کو اپنے علاج کی غرض سے لندن گئے تھے اور 9 جون کو بجٹ اجلاس سے قبل واپس آ گئے تھے۔
اس دوران اپنے لندن قیام کے دوران ہی شہباز شریف نے قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین کے عہدے سے بھی استعفیٰ دے دیا تھا۔ جس کے بعد حکومتی وزرا نے تب بھی یہ شور مچانا شروع کر دیا تھا کہ شہباز شریف ملک سے فرار ہو گئے ہیں۔ انھوں نے سیاست سے کنارہ کشی کا فیصلہ کر دیا ہے۔ اسی لیے انھوں نے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین کا عہدہ چھوڑ دیا ہے۔ اب وہ قائد حزب اختلاف کا عہدہ بھی چھوڑ دیں گے۔ لیکن پھر وہ دو ماہ بعد واپس آ گئے۔ اب بھی انھیں ملک سے گئے تین ماہ ہو گئے ہیں۔ تب بھی وہ جب ملک سے باہر گئے تھے تو اپنا آسیب ملک میں چھوڑ گئے تھے جس نے ان گنت مسائل پیدا کر دیے تھے اور اب بھی وہ جاتی دفعہ اپنا آسیب ملک میں چھوڑ گئے ہیں۔
آپ دیکھیں شہباز شریف کے آسیب نے حکومتی اتحاد میں ایسے اختلافات پیدا کر دیے ہیں جو حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں۔ اس آسیب نے پہلے ایم کیو ایم کو ناراض کیا۔ ایک دن ایم کیو ایم مانتی ہے دوسرے دن آسیب پھر معلاملات خراب کر دیتا ہے۔ آپ چوہدری برادران کا معاملہ ہی دیکھ لیں۔ ایک دن حمایت کرتے ہیں دوسرے دن بیان دے دیتے ہیں کہ وزیر اعظم کو چاپلوسوں نے گھیرا ہوا ہے۔
ایک بیان کی وضاحت دیتے ہیں دوسرے دن نہ جانے کہاں سے یہ رپورٹ منظر پر آ جاتی ہے کہ مولانا کے دھرنے کو حکومتی اتحادی کھانا فراہم کرتے رہے ہیں۔ ورنہ حکومت کی طرف سے ایسی رپورٹ کیسے لیک ہو سکتی ہے۔ ابھی اتنی مشکل سے تو چوہدریوں کو منایا گیا تھا۔ اب کوئی پاگل حکومت ہی ایسی رپورٹیں لیک کر کے دوبارہ حالات خراب کرے گی۔ لیکن شہباز شریف کا یہ آسیب حکومت سے ایسا کروا دیتا ہے۔
حکومت شہباز شریف کے منصوبوں کے دوبارہ افتتاح کر کے بھی بہت پریشان ہے۔ آپ یقین کریں حکومت بالخصوص عمران خان، شہباز شریف کے منصوبوں کو دیکھنا بھی نہیں چاہتے۔ لیکن یہ آسیب انھیں بار بار شہباز شریف کے منصوبوں کا افتتاح کرنے پر ہی مجبور کر دیتا ہے۔ آپ مظفر گڑھ کی مثال دیکھ لیں۔ وہ شہباز شریف کی تختی اس آسیب نے اتاری ہے کوئی مہذب حکومت ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔
میں نے ایک حکومتی اہم رکن سے کہا کہ شہباز شریف کا کوئی آسیب وغیرہ نہیں ہے۔ دراصل آپ نے شہباز شریف کی بیوروکریسی ٹیم دوبارہ لگا ئی ہے۔ حکومتی عہدیدار مجھ سے الجھ پڑا اور کہنے لگا، یہ بیوروکریسی ہم نے نہیں لگائی۔ یہ سب اس آسیب کا کمال ہے۔ میں نے کہا، آپ میری مانیں کوئی آسیب نہیں ہے۔ اب پنجاب کو دیکھ لیں چیف سیکریٹری اور کابینہ کا معاملہ دیکھ لیں۔ گزشتہ کابینہ اجلاس کے بعد بارہ وزیر بنی گالہ جانے لگے تھے۔ سمجھیں بغاوت ہو گئی تھی۔ اس میں آسیب کا کیا قصور ہے۔ اس عہدیدار نے کہا کہ کبھی آپ نے دیکھا ہے کہ جب مرکز اور صوبے میں ایک ہی جماعت کی حکومت ہو تو بیوروکریسی ایسی حکومت کے ساتھ الجھے۔ میں نے کہا نہیں۔ اس نے کہا سب آسیب کا کمال ہے۔
یہ آسیب مرکزی حکومت کو کام نہیں کرنے دے رہا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آئی ایم ایف کے وفد کی آمد سے قبل چیئرمین ایف بی آر بھاگ جائیں۔ اس آسیب نے شبر زیدی اور حفیظ شیخ کی ایسی لڑائی کرائی ہے کہ شبر زیدی بھاگ گئے ہیں۔ اس آسیب نے یہیں بس نہیں کیا اب اس نے شہباز شریف کی ٹیم کے ہارون اختر کو مشیر ریونیو لگوانے کی ٹھا ن لی ہے۔ ورنہ کوئی مان سکتا ہے کہ عمران خان اسحاق ڈار کی ٹیم کے رکن لگائیں۔
یہ سپریم کورٹ میں بھی جو کچھ ہوا ہے۔ یہ بھی شہباز شریف کے آسیب نے کروایا ہے۔ ورنہ کوئی اٹارنی جنرل ایسے کر سکتا ہے۔ آسیب دونوں طرف کھیل رہا ہے۔ اس لیے حکومت کو کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ معاملات کو کیسے کنٹرول کرے۔
یہ آسیب ہی ہے جو کھیل کو بدل رہا ہے۔
مجھے حکومتی عہدیدار کی باتیں دلچسپ لگ رہی تھیں۔ میں نے کہا یہ آسیب اور کیا کر رہا ہے۔ ا س نے کہا حکومت کئی دفعہ سی پیک چلانے کا اعلان کر چکی ہے۔ لیکن یہ شہباز شریف کا آسیب اس کو چلنے ہی نہیں دے رہا۔ ہمارے بس میں ہو تو چینی حکومت کو کہیں کہ وہ شہباز اسپیڈ کو بھول جائے، عمران اسپیڈ کی باتیں کرنے لگے۔ لیکن یہ آسیب سی پیک کو ایک انچ نہیں چلنے دے رہا۔ کہہ رہا ہے شہباز شریف آئے گا تو سی پیک چلے گا۔ اب اگر چینی حکومت کو یہ پتہ چل گیا تووہ تو ہماری چھٹی کرا دے گی۔ اس لیے آپ بھی کسی کو نہ بتانا۔ میں نے کہا یہ کابینہ اور ترجمانوں کے اجلاسوں میں جو فیصلے ہوتے ہیں ان پر عملدر آمد کیوں نہیں ہوتا؟ اس نے کہا ہر اجلاس میں یہ آسیب پہنچ جاتا ہے۔ کوئی فیصلہ ہونے ہی نہیں دیتا۔ اسی لیے سب اجلاس ناکام ہو جاتے ہیں۔ پشاور بی آر ٹی پر بھی یہی آسیب بیٹھا ہے اور اس کو مکمل نہیں ہونے دے رہا۔ جب شہباز شریف کی حکومت تھی تو اس آسیب نے پنجاب کی تمام میٹرو وقت سے پہلے مکمل کرادیں اور اب پشاور بی آر ٹی کو روک رہا ہے۔ یہ سب یوٹرن اس آسیب کی وجہ سے ہیں۔ ورنہ یہ حکومت تو اپنی بات کی پکی ہے۔ شہباز شریف کے آسیب نے حکومت کو جکڑ رکھا ہے اور کام نہیں کرنے دے رہا۔ پوری حکومت اس آسیب کے سامنے بے بس ہو گئی ہے۔