میں گزشتہ ماہ بھی اپنے ایک کالم میں لکھ چکا ہوں کہ معاشرے کو جھوٹ اور جھوٹے الزامات سے پاک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں ہتک عزت کے مقدمات کے جلد فیصلوں کو ممکن بنایا جائے۔ اس بات میں دو رائے نہیں کہ پاکستان کی سیاست میں ایک دوسرے پر جھوٹے الزامات کا رجحان دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔
آپ جس پر جو مرضی الزام لگا دیں، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ایسا نہیں کہ پاکستان میں اس ضمن میں قانون موجود نہیں بلکہ قانون تو باقی دنیا سے بھی سخت ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مقدمات کے فیصلے نہیں ہوئے ہیں۔ تاریخ پر تاریخ کے کلچر نے ملک میں جھوٹ اور جھوٹے الزامات کا کلچر عام کر دیا ہے۔
جس دن ہتک عزت کے مقدمات کے جلد فیصلے شروع ہو گئے، دو بڑے مقدمات میں عدلیہ نے بڑے جرمانے کر دیے۔ لوگ ایک دوسرے پر جھوٹے الزام لگانے میں احتیاط برتنا شروع کر دیں گے۔ لکھنے والے اوربولنے والے بولنے میں احتیاط کریں گے۔ سب کو پتہ ہوگا کہ میں اپنے لکھے اور بولے ہوئے لفظ کا عدالت میں جوابدہ ہوں۔ مجھے سزا ہو سکتی ہے۔ یہ خوف لوگوں کو ذمے دار بنائے گا۔ میڈیا ذمے دار ہو جائے گا۔ ادارے ذمے دار ہو جائیں گے۔
اسی لیے میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے کسی بھی قسم کے خصوصی قوانین کی ضرورت نہیں۔ دنیا بھر میں میڈیا کو ایک ہتک عزت کے قانون سے ہی کنٹرول کیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا کے لیے بھی یہ سائبر قوانین کی ضرورت نہیں، انھیں بھی ہتک عزت کے قانون سے ہی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ حکومت اور تمام سٹیک ہولڈرز کو چاہیے کہ عدلیہ کے ساتھ ملکر ایسا لائحہ عمل بنائیں کہ ہتک عزت کے قوانین کے بروقت فیصلے ممکن ہو سکیں۔ میں نے پہلے بھی تجویز دی ہے کہ ملک کی تمام عدالتوں میں دائر ہتک عزت کے مقدمات کو ماڈل کورٹس میں بھیجا جائے تا کہ فوری فیصلے ممکن ہو سکیں۔
حال ہی میں میاں شہباز شریف نے لندن ہائی کورٹ میں ڈیلی میل اور اس کے رپورٹر ڈیوڈ روز کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ صحافی اور اخبار نے شہباز شریف پر زلزلہ زدگان کی امداد کھانے کے الزامات پر مبنی ایک خبر شائع کی تھی۔
شہباز شریف کی جانب سے ہتک عزت کا یہ پہلا مقدمہ نہیں ہے۔ انھوں نے اس سے پہلے تحریک انصاف کے قائد اور موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف بھی 2017 میں ہتک عزت کا ایک مقدمہ لاہور کی عدالت میں بھی دائر کیا تھا۔ لیکن آج 2020شروع ہو چکا ہے۔ لیکن اس مقدمہ کی کارروائی بھی شروع نہیں ہو سکی ہے۔ کئی ماہ یہ مقدمہ تعمیل کی پہلی سیڑھی بھی عبور نہیں کر سکا تھااور آج بھی کوئی کارروائی نہیں ہو رہی ہے۔ اب شہباز شریف نے لاہور کے بعد لندن ہائی کورٹ میں ہتک عزت کا مقدمہ دائر کر دیا ہے۔
سب جانتے ہیں کہ بے شک لاہور میں دائر ہونے والے مقدمہ کا فیصلہ نہ ہو لیکن لندن ہائی کورٹ میں دائر کیے جانے والے مقدمہ کا فیصلہ مقررہ وقت میں ہو جائے گا۔ وہاں جب مقدمہ عدالت میں آجائے تو اس کا فیصلہ ہوتا ہے۔ اسی لیے جب ایک فریق یہ دیکھے کہ مقدمہ کا فیصلہ اس کے خلاف ہو جائے گا تو وہ عدالت سے باہر معاملات طے کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن پاکستان میں یہ سوچا جاتا ہے کہ ابھی کئی سال لگیں گے اس لیے معاملہ طے کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
شہباز شریف کی جانب سے لندن ہائی کورٹ میں مقدمہ دائرکرنا ان کے لیے ایک سیاسی جواء بھی ہے۔ اگر وہ یہ مقدمہ جیت جاتے ہیں تو انھیں سیاسی طور پر بہت فائدہ ہو گا۔ وہ ایک فاتح ہوں گے۔ اس مقدمہ کی جیت ان کے لیے ایک ورلڈ کپ سے بڑی ٹرافی ہوگی۔ اس جیت سے پاکستان میں ان کے خلاف لگنے والے دیگر الزامات بھی اپنی اہمیت اور وقعت کھو دیں گے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر شہباز شریف یہ مقدمہ ہار جاتے ہیں تو کیا ہوگا۔
اسی لیے میں کہہ رہا ہوں کہ شہباز شریف کے لیے یہ مقدمہ دائر کرنا کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا۔ جہاں جیت کے بے پناہ فوائد ہوں گے وہاں ہار زہر قاتل سے کم نہیں ہوگی۔ جہاں جیت سیاسی اننگ کو نئی طاقت بخشے گی، وہاں ہا ر سیاسی اننگ کو ختم بھی کر سکتی ہے۔ جیت وزارت عظمیٰ کی راہ ہموار کر دے گی۔ اور ہار پاکستان میں مشکلات میں بے پناہ اضافہ کر دے گی۔ شہباز شریف نے یہ مقدمہ دائر کر کے تخت اور تختے کا کھیل کھیل لیا ہے۔ ایک طرف تخت ہے تو دوسری طرف تختہ ہے۔
لندن کے ہتک عزت کے قوانین پاکستان کے ہتک عزت کے قوانین سے کوئی خاص مختلف نہیں ہیں۔ وہاں بھی خبر کو سچ ثابت کرنے ذمے داری رپورٹر اور نشریاتی ادارے کی ہے۔ عدالت میں ڈیوڈ روز نے یہ ثابت کرنا ہے کہ انھوں نے اپنی خبر میں شہباز شریف کے خلاف جو الزامات لگائے ہیں وہ کتنے سچ ہیں۔ ان کے پاس کیا ثبوت ہیں۔ انھیں وہ ثبوت عدالت میں پیش کرنے ہیں۔ وہ یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ انھیں شہزاد اکبر نے بتا یا تو انھوں نے یہ خبر دی ہے۔ اس لیے شہزاد اکبر جو بار بار کہہ رہے ہیں کہ ان پر مقدمہ دائر نہیں کیا ہے، قانونی صورتحال یہ ہے کہ ان پر مقدمہ دائر ہی نہیں ہو سکتا۔
شہزاد اکبر نے جو بھی پریس کانفرنسز کی ہیں وہ پاکستان میں کی ہیں، ان پر لندن اور برطانیہ کے قوانین لاگو نہیں ہوتے۔ اس لیے ان پریس کانفرنسوں میں انھوں نے جو بھی الزامات لگائے ہیں، ان پر لندن میں مقدمہ دائر نہیں ہو سکتا۔ جہاں تک ڈیلی میل کی خبر کا تعلق ہے تو وہ لندن میں شائع ہوئی ہے۔ ا س لیے اس پر لندن میں مقدمہ دائر ہو سکتا تھا۔ اس لیے دائر ہو گیا ہے۔
ڈیوڈ روز اور ڈیلی میل کی ایسی شہرت نہیں ہے کہ وہ آج تک ہتک عزت کا کوئی مقدمہ ہارے نہیں ہیں۔ حال ہی میں لندن میں مقیم ایک پاکستانی نژ اد ٹیکسی ڈرائیور واجد اقبال نے ڈیلی میل اور ڈیوڈ روز سے 12لاکھ پاؤنڈ کا مقدمہ جیتا ہے۔ واجد اقبال پر بھی خبر میں الزامات لگائے گئے جو بعد میں عدالت میں سچ ثا بت نہیں کیے جا سکے۔ اس لیے اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ شہباز شریف بھی جیت جائیں گے۔
سب کہہ رہے ہیں کہ مقدمہ دائر کرنے میں چھ ماہ کی تاخیر کی گئی ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے چھ ماہ شہباز شریف اس بات پر تحقیق کرتے رہے کہ ان کی جیت کے کیا امکانات ہیں۔ جب جیت کے سو فیصد امکانات کا یقین ہوگیا تب ہی مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر شہباز شریف مقدمہ ہارتے ہیں تو انھیں رپورٹر اور اخبارکو ہرجانہ دینا ہو گا۔ اس لیے مقدمہ کرنا کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا۔ لیکن جیت کا سو فیصد یقین لازمی تھا۔
برطانیہ میں ریحام خان بھی ہتک عزت کا ایک مقدمہ جیتی ہیں۔ یہ مقدمہ ان کی کتاب کے حوالے سے تھا جس میں ایک ٹاک شو میں شیخ رشید نے الزام لگایا تھا کہ ریحام خان نے شہباز شریف سے پیسے لے کر کتاب لکھی ہے۔ اس ٹاک شو کے میزبان اور چینل نے ریحام خان سے عدالت سے باہر معاملہ طے کیا ہے۔ اس لیے شہباز شریف نے بے شک لندن میں مقدمہ دائر کیا ہے۔ لیکن اس کے پاکستان کی سیاست پر گہرے اثرات ہوں گے۔ شہباز شریف کی جیت انھیں ایک کلین چٹ دے دے گی۔ جس کی انھیں اشد ضرورت ہے۔