ملک کے سیاسی منظر نامے پر ایک خاموشی چھا گئی ہے۔ ویسے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اپوزیشن تو ایک سال سے خاموش ہی تھی تاہم حکومت کی بدزبانی نے ملک کے سیاسی منظر نامے کو ہیجان انگیز بنایا ہوا تھا۔ تا ہم حکومت نے اپنی زبان بندی کر لی ہے۔ اب حکومت کے ایوانوں میں بھی خاموشی ہے۔
طوطے یا تو خاموش ہو گئے ہیں یا ان کی زبان کڑوی سے میٹھی ہو تی جا رہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اپوزیشن کے بعد حکومت کی بھی زبان بندی کی جا رہی ہے۔ گالم گلوچ کمپنی کو چپ رہنے کا کہا جا رہا ہے۔
یہ درست ہے کہ مریم نواز اور نواز شریف کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔ نواز شریف بیمار ہیں لیکن اتنے بیمار نہیں کہ اہم ملکی معاملات پر اپنی رائے کا اظہار نہ کر سکیں۔ وہ چپ ہیں۔ ان کی خاموشی ساری کہانی بیان کر رہی ہے۔ مریم نواز بھی خاموش ہیں۔ ان کا ٹوئٹر بھی خاموش ہے۔ یہ وہی مریم ہیں جو جیل جانے سے پہلے میدان میں تھیں۔
جلسہ جلوس کر رہی تھیں۔ لیکن ضمانت کے بعد مریم نواز کی خاموشی ظاہر کر ہی ہے کہ وہ انتظار میں ہیں۔ ان کی خاموشی سب بیان کر رہی ہے کہ انھیں خاموش کرا دیا گیا ہے۔ شہباز شریف تو پہلے ہی بولنے کے خلاف تھے۔ ان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ وہ پہلے دن سے مفاہمت کی بات کر رہے تھے جب نہ تو ن لیگ مفاہمت کی بات کرنے کو تیار تھی اور نہ ہی حکومت مفاہمت کا کوئی راگ سننے کے لیے تیار تھی۔ لیکن آج قدرت کی ستم ظریفی دیکھیں دونوں طرف خاموشی ہے۔
آج کل آصف زرداری کی بہت بات کی جا رہی ہے۔ دوست لکھ رہے ہیں کہ انھوں نے ضمانت مانگنے سے انکار کر دیا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وہ بھی خاموش ہیں۔ وہ کوئی متنازعہ بیان نہیں دے رہے۔ ان کی خاموشی کے ثمرات سامنے آئیں گے۔ سب کی رائے ہے کہ ان کی یہ خاموشی ضایع نہیں جائے گی۔ بلاول بولتے ہیں۔ لیکن جن معاملات پر بولنا چاہیے ان پر نہیں بولتے۔ ان کی بات میں اب وہ کاٹ نہیں رہی ہے۔ وہ نازک معاملات سے خود کو دور رکھ رہے ہیں۔ پی پی پی میں فرحت اللہ بابر جیسے لوگ بھی خاموش ہیں۔ حالانکہ فوجی عدالتوں کو توسیع نہ دینے کے معاملہ پر وہ بولنے میں سب سے آگے تھے۔ لیکن آجکل خاموش ہیں۔
تحریک انصاف بھی خاموش ہے، حکومتی ترجمانوں کو نہ صرف اہم ملکی معاملات پر بیان دینے سے روک دیا گیا ہے بلکہ سختی سے کہاگیا ہے کہ اگر کسی نے ایک لفظ بھی بولا تو معافی نہیں ملے گی۔ حکومت کے وہ وزیر جو اپوزیشن کو کچا کھا جانے کا ماحول بنائے رکھتے تھے، اب میٹھی میٹھی باتیں کرنے لگ گئے ہیں۔ کل تک اپوزیشن کو "غدار" کہنے والے آج قومی اتفاق رائے کی بات کر رہے ہیں۔
کل تک چور چور کے نعرے لگانے والے آج اپوزیشن کے کردار کو تسلیم کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے رنگ ڈھنگ بھی بدلے ہوئے ہیں۔ ان کی تقریروں کا اسکرپٹ بھی بدلا ہوا ہے۔ اب وہ آواز نہیں لگا رہے کہ این آر او نہیں دو نگا۔ جیلوں میں ڈال دوں گا۔ اب نہیں کہا جا رہا ہے کہ جب تک یہ چور جیل میں نہیں ہوں گے ملک آگے نہیں چل سکتا۔ بلکہ ملک کو آگے چلانے کی بات کی جا رہی ہے۔ جو ملک سے چلے گئے ہیں ان کی بات کرنے سے اجتناب کیا جا رہا ہے۔ باقی کے جانے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔
موجودہ ماحول میں تو ایسے لگ رہا ہے کہ کسی نے مرد مجاہد مولانا فضل الرحمٰن کی بھی زبان بندی کر دی ہے۔ پتہ نہیں ان کا پلان اے بی سی کہاں چلا گیا۔ وہ تو پتلی گلی سے ایسے نکل گئے ہیں جیسے ان کا ملکی منظر نامہ پر کبھی کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ ملک میں اتنے اہم فیصلے ہو گئے ہیں۔ ایسا لگ رہا جیسے ان کا اس سب معاملہ سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔
کل تک وہ بڑے اسٹیک ہولڈر تھے، آج لا تعلق ہیں۔ ان کی خاموشی معنی خیز ہے۔ مولانا کی کہانی بھی لبیک کے خادم رضوی والی ہی ہو گئی ہے۔ لگ رہا ہے کہ اسلام آباد کے دھرنے کے بعد سافٹ وئیر بھی تبدیل ہو گیا ہے۔ اچکزئی سمیت سارے قوم پرست بھی خاموش ہو گئے ہیں۔ اسفند یار ولی خان بھی خاموش ہیں۔ وہ جو ستر سال سے بول رہے تھے، اب وہ بھی خاموش ہیں۔ جب بات کرنے کا موقع آیا ہے تو ان سب نے چپ سادھ لی ہے۔ ایک معنی خیز خاموشی نے ان کو جکڑ لیا ہے۔
حکومت اپنے اتحادیوں کو منا رہی ہے۔ لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ کیا مینگل پاکستان میں ہیں۔ کیا وہ ابھی حکومتی اتحادی ہیں۔ کیا انھوں نے اپوزیشن سے اپنے رابطے توڑ لیے ہیں۔ کہاں ہیں مینگل۔ اتنے خاموش تووہ تب بھی نہیں تھے جب جلا وطن تھے، آج جب ان کے ووٹ کی ایک قیمت ہے۔ وہ کیوں خاموش ہیں؟
ایم کیو ایم، ق لیگ، جی ڈی اے، باپ اور دیگر اسٹبلشمنٹ کی حامی جماعتوں سے کسی کو کوئی گلہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ وہ پہلے دن سے جس پالیسی پر گامزن تھیں آج بھی اسی پالیسی پر گامزن ہیں۔ وہ نہ کل بولنے پر یقین رکھتی تھیں۔ نہ آج بول رہی ہیں۔ ان کی سیاست میں یکسوئی اور مستقل مزاجی نظر آتی ہے۔ ان کے سیاسی فلسفہ سے اختلافات کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کی سیاسی یکسوئی سے اختلاف ممکن نہیں ہے۔ وہ کل جہاں تھے آج بھی وہیں ہے۔
اس ساری بحث کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ایک مکمل خاموشی چھا گئی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ کسی نےPIN DROP SILENCE کا حکم دے دیا ہے اور کلاس روم میں سب بچے خاموش ہو گئے ہیں۔ لیکن سیاست میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہ سیاست کے اصولوں کے خلاف ہے۔ خاموشی سیاست میں زہر قاتل سے کم نہیں۔ یہ خاموشی کب تک ممکن ہے۔
یہ بھی ایک سوال ہے۔ لیکن ابھی خاموشی ہے۔ ہمیں اسی خاموشی کے ساتھ ہی زندہ رہنا ہوگا۔ کیونکہ سب کی ہمت جواب دے گئی ہے۔ فکر کی کوئی بات نہیں قوموں کی زندگی میں ایسے مواقع آتے ہیں جب سب خاموش ہو جاتے ہیں، پھر ہی طوفان آتا ہے۔ یہ خاموشی بھی کسی طوفان کی بنیاد ہے۔ بس یہ بات ہمیں سمجھ نہیں آرہی۔ اب یہ الگ بات ہے کی طوفان آنے میں کئی سال لگ جائیں اور خاموشی کئی سال طویل ہو جائے۔