تحریک انصاف کے اندر ہمیشہ سے دو طرح کی سیاست رہی ہے۔ زیادہ تر لوگ جہانگیر ترین کی حمایت میں رہے ہیں۔ جب کہ ایک گروپ جہانگیر ترین کا مخالف رہا ہے۔ اس طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ جہانگیر ترین گروپ ہمیشہ مخالف گروپ پر حاوی رہا ہے۔ اس لیے وقت کے ساتھ ساتھ جہانگیر ترین مخالف گروپ کی سیاسی طاقت کم سے کم تر ہوتی گئی جب کہ جہانگیر ترین گروپ کی سیاسی طاقت مضبوط ہوتی گئی۔
اسی لیے نئے آنے والے لوگ جہانگیر ترین کے ذریعے تحریک انصاف میں شمولیت کو ترجیح دیتے۔ حالانکہ جہانگیر ترین گروپ کے مخالفین میں شامل سرکردہ نام بھی نئے لوگوں کو تحریک انصاف میں شامل کروانے کے لیے متحرک رہے لیکن سیاسی لوگ ان کے بجائے جہانگیر ترین کو ترجیح دیتے رہے۔ اس منظر نامہ کی وجہ سے 2018 کے انتخابات سے پہلے ہم نے دیکھا کہ جہانگیر ترین نے انتخابات جیتنے والے گھوڑوں کی تحریک انصاف میں لائن لگا دی۔ جب کہ دوسرا گروپ دیکھتا ہی رہ گیا۔
فواد چوہدری کے انکشافات کوئی نئے نہیں تھے۔ تحریک انصاف کا بچہ بچہ یہ کہانی جانتا تھا۔ لیکن آپ کہہ سکتے ہیں کہ جہانگیر ترین کو سیاسی دھچکے کے بعد یہ کہانی دوبارہ نئی ہوگئی۔ اس لیے ان کے پرانے انکشافات نے توجہ حاصل کر لی۔ کون نہیں جانتا تھا کہ شاہ محمود قریشی، اسد عمر، شفقت محمود، چوہدری سرور جیسے دیگر رہنما جہانگیر ترین کے مخالف ہیں۔ ان کو پہلے دن سے گلہ ہے کہ سارا میلہ تو جہانگیر ترین لوٹ لیتے ہیں، وہ منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
زیادہ پرانی بات نہیں جب جہانگیر ترین کا طوطی بول رہا تھا۔ اور انھیں کابینہ کے اجلاسوں میں خصوصی مہمان کے طور پر مدعو کیا جاتا تھا۔ تو شاہ محمود قریشی نے چوہدری سرور کے ساتھ گورنر ہائوس میں بیٹھ کر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہہ دیا کہ عمران خان کو جہانگیر ترین کو کابینہ کے اجلاسوں میں نہیں بلانا چاہیے۔ اس سے اپوزیشن کو تنقید کا موقع ملا۔
چوہدری سرور نے اس کے بعد ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ اگر سب کچھ جہانگیر ترین نے ہی کرنا ہے تو ہم آلو چنے بیچنے تحریک انصاف میں آئے ہیں؟ یہ سب باتیں میڈیا میں کی گئیں۔ اور جہانگیر ترین گروپ نے بعد میں ان کا میڈیا میں ہی جواب دیا۔
فواد چوہدری سمیت متعدد وزرا نے شاہ محمود قریشی کی میڈیا ٹاک کے جواب میں جہانگیر ترین کے حق میں بیان جاری کیے۔ اس سے یہ تاثر برقرار پیدا ہوا کہ جہانگیر ترین گروپ کی تحریک انصاف میں حاوی ہے۔ بعد میں وزیر اعظم نے اپنا وزن جہانگیر ترین کے حق میں ڈال دیا۔ اوردوسرا گروپ خاموش ہو گیا۔ یہ ساری کہانی بیان کرنے سے میرا واحد مقصد یہ ہے کہ فواد چوہدری وہ پہلے شخص نہیں ہیں جو تحریک انصاف کی اندرونی سیاست کو میڈیا پر لے کر آئے ہیں۔ یہ روایت اس سے پہلے بدرجہ اتم موجود رہی ہے۔
یہ وقت اہم اس لیے ہے کہ جہانگیر ترین کا بظاہر سیاسی قتل ہو گیا ہے۔ انھیں ایک طرح سے تحریک انصاف سے علیحدہ کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی بڑے سیاسی قد کا سیاسی رہنما اپنی سیاسی جماعت سے الگ ہوتا ہے تو اسے فوری دوسری سیاسی جماعت جوائن کرنی ہوتی ہے۔ اگر وہ فوری دوسری سیاسی جماعت جوائن نہ کرے تو سیاسی طور پر انتہائی کمزور ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں چوہدری نثار علی خان کی مثال سب کے سامنے ہے۔
ایک وقت میں ان کا بھی ن لیگ میں سیاسی طوطی بولتا تھا، لیکن آج وہ تنہا نظر آرہے ہیں۔ اگر انھوں نے تحریک انصاف جوائن کر لی ہوتی تو آج کم از کم گیم میں ہوتے۔ کیونکہ سیاست کا اصول ہے موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں۔ جاوید ہاشمی اور فاروق ستار کی مثال بھی سامنے ہے۔ اس لیے ایک رائے تو یہ بھی ہے کہ اگر جہانگیر ترین نے فوری طور پر کوئی دوسری سیاسی جماعت نہ جوائن کی تو وہ چوہدری نثار علی خان اور جاوید ہاشمی، فاروق ستار جیسی سیاسی صورتحال کا شکار ہو جائیں گے۔ اسی لیے ان کی اور نواز شریف کے درمیان ملاقاتوں کی افواہیں سامنے آرہی تھیں۔
تا ہم نئی صورتحال مختلف ہے۔ جہانگیر ترین یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ نہ تو وہ چوہدری نثار علی خان ہیں نہ ہی جاوید ہاشمی اور نہ ہی فاروق ستار ہیں کہ انھیں باہر نکال دیاجائے اور وہ آرام سے گھر بیٹھ جائیں۔ جہانگیر ترین تحریک انصاف میں اپنے مضبوط اور طاقتور گروپ کے ساتھ بھر پور مزاحمت کرنے کے موڈ میں نظر آرہے ہیں۔ وہ یہ باور کروا رہے ہیں کہ ان کو نکالنا اتنا آسان نہیں ہے۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ حکومت نے انھیں خود باہر جانے کی آپشن دی تھی۔ کیونکہ اس وقت جہانگیر ترین مخالف گروپ کا خیال تھا کہ وہ اگر ملک سے چلے گئے تو ان کے لیے راستہ آسان ہو جائے گا۔
ان کا گروپ ان کے حوالے سے بدظن ہو جائے گا۔ جہانگیر ترین کے سیاسی بحران کے بعد تحریک انصاف میں بڑے پیمانے پر سیاسی نقصان کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔ آپ دیکھیں پنجاب میں علیم خان کو دوبارہ وزیر بنایا گیا۔ کے پی میں شہرام ترکئی گروپ کو واپس لیا جا رہا ہے۔ اسی طرح مرکز میں ایسے اقدامات نظر آئے ہیں جن کا واحد مقصد جہانگیر ترین کے سیاسی اثر ورسوخ کو کنٹرول کرنا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ سب کافی محسوس نہیں ہو رہا ہے۔
جہانگر ترین کا گروپ اتنا بڑا ہے کہ انھیں سیاسی طور پر تنہا کرنا ممکن نہیں ہے۔ آپ کس کس کو کارنر کریں گے۔ سب ہی تو جہانگیر ترین کے ساتھ ہیں۔ دوسری طرف دیگر میں ایسی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ ان سب کو اپنے ساتھ ملا لیں۔ جہانگیر ترین اپنے لوگوں کے لیے عمران خان اور جماعت کے اندر ڈٹ جاتے تھے۔ جب کہ دوسرے گروپ کے لوگ اپنے بندے ہروا کر خاموش ہو جاتے ہیں۔
2018کے انتخابات میں جہانگیر ترین مخالف گروپ اپنے قریبی لوگوں کی ٹکٹوں کے مسائل حل نہیں کروا سکا۔ جب کہ دوسری طرف جہانگیر ترین نے جس سے جو وعدہ کیا وہ پورا کیا۔ انھوں نے کسی کو راستے میں نہیں چھوڑا۔ اس وقت ایسی باتیں بھی سننے میں آئیں کہ شاہ محمود قریشی پنجاب کے وزیر اعلیٰ بننا چاہتے تھے۔ اسی لیے وہ صوبائی اسمبلی کا انتخاب بھی لڑ رہے تھے لیکن وہ یہ الیکشن ہار گئے۔ اس لیے سیاسی حلقوں میں یہ کہا جاتا رہا ہے کہ جہانگیر ترین نے شاہ محمود قریشی کو ان کے حلقہمیں ایک مخالف امیدوار کو سپورٹ کر کے انتخابی شکست دی۔ بعد میں جیتنے والے امیدوار کو تحریک انصاف میں شامل بھی کروایا۔
بہر حال فواد چوہدری بھی جہانگیر ترین کی بہت عزت کرتے ہیں۔ ان کے انٹرویو پر ایک تجزیہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف میں اندرونی جنگ جاری ہے، ہو سکتا ہے کہ جہانگیر ترین بھی اس کا حصہ ہوں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ فواد چوہدری کے انٹرویو کے بعد ان کی اور اسد عمر کی ملاقات کروائی گئی ہے۔ لیکن دوست بتا رہے ہیں کہ ایک فوٹو سیشن کے سوا کچھ نہیں۔
یہ فواد چوہدری کے لیے فتح کا ہی نشان ہے ان کے مخالفین اب بھی ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ بلکہ برملا کابینہمیں شکایت لگانے کے بعد جب کوئی سنوائی نہیں ہوتی تو پھر ملاقات پر ہی گزارا کرلیتے ہیں۔ تصویر فواد چوہدری کی فتح کی کہانی ہے۔ تحریک انصاف میں رسہ کشی کا سیاسی کھیل جاری رہے گا۔ یہ لڑائی بڑھے گی کم نہیں ہوگی۔ اس کو کم کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ جہانگیر ترین سے معاملات طے کیے جائیں۔ ورنہ تحریک انصاف اور عمران خان کے لیے مسائل بڑھتے جائیں گے۔