بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے علاقے تونسہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب کے اضلاع ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کوبلوچستان میں شامل کر دیا جائے۔
انھوں نے کہا کہ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور پنجاب میں زبردستی شامل کیے گئے تھے۔ ورنہ یہ بلوچستان کا ہی حصہ تھے۔ ان کا موقف ہے کہ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کی پسماندگی کی واحد وجہ یہ ہے کہ یہ پنجاب میں شامل ہیں۔ ان کی پسماندگی دور کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ان کو پنجاب سے نکال کر بلوچستان میں شامل کر لیا جائے۔
سوال یہ ہے کہ بلوچستان نے کتنی ترقی کر لی ہے جو انھیں ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کا غم کھائے جا رہا ہے۔ بلوچستان میں گڈ گورننس کے کتنے اعلیٰ معیار قائم کیے گئے ہیں جن کے بعد ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کو اب بلوچستان میں شامل کرنا ناگزیر ہو گیا ہے۔ کیا تونسہ میں خطاب کرتے ہوئے سردار اختر مینگل بھول گئے اس وقت تونسہ کے پاس پنجاب کا اقتدار ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ بلوچستان کی قوم پرست قیادت پنجاب کو گالی دیکر ہی سیاست کیوں کرتی ہے۔ انھیں اپنی بات کرنی چاہیے۔ بلوچستان کے مسائل کی بات کرنی چاہیے۔ لیکن اس ضمن میں پنجاب کو گالی دینا کیوں ضروری ہے۔
سردار اختر مینگل ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کی پسماندگی کاایسے ذکر کررہے ہیں جیسے بلوچستان ترقی یافتہ صوبہ ہے۔ کیا بلوچستان کے تمام اضلا ع میں اعلیٰ معیار کی یونیورسٹیاں بن چکی ہیں؟کیا سارے بلوچستان کے تمام مسائل حل ہو گئے ہیں؟کیا بلوچستان میں مالی کرپشن نہیں ہورہی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور آج بھی بلوچستان کے اکثر اضلاع سے بہت بہتر ہیں۔
ویسے تو لاہور کی اورنج لائن کو دشمنوں کی نظر ہی لگ گئی ہے اور یہ منصوبہ ابھی تک مکمل شروع نہیں ہو سکا ہے۔ لیکن پھر بھی قوم پرستوں اور تحریک انصاف والوں کو سی پیک کے تحت لاہور کی اورنج لائن کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بلوچستان میں باقی تمام مسائل حل ہو گئے ہیں جو ایک اورنج لائن کی کمی رہ گئی ہے۔ وہ کوئٹہ کے لیے اورنج لائن اور میٹرو کا مطالبہ کریں تو سمجھ آتی ہے لیکن لاہور کی اورنج لائن کو اس بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنانا کہ وہ لاہور میں ہے نا قابل فہم ہے۔
پنجاب تو ویسے ہی تقسیم کے لیے تیار ہے۔ جنوبی پنجاب کو الگ ضلع بنانے کی قرارداد منظور ہو چکی ہے۔ بہاولپور کو صوبہ بنانے کی قرار داد منظور ہو چکی ہے۔ اب اگر سردار اختر مینگل ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کو جنوبی پنجاب کا حصہ نہیں بنانا چاہتے تو یہ الگ بات ہے پھر تو جنوبی پنجاب ایک ملتان ضلع پر مشتمل صوبہ ہی رہ جائے گا۔ کیونکہ بہاولپور پہلے ہی جنوبی پنجاب کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں ہے۔
حیرانگی کی بات ہے کہ راجن پور اور ڈیر ہ غازی خان کو پنجاب سے الگ کرنے کے لیے یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ وہاں سے لوگوں کے لیے لاہور آنا بہت مشکل ہے۔ اس لیے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنایا جائے لیکن یہی دلیل جب بلوچستان کے علاقوں کے لیے دی جائے تو پاکستان کی بقا کا سوال پیدا ہو جاتا ہے۔
کیا بلوچستان میں ایسے علاقے نہیں جہاں سے کوئٹہ پہنچنا عملی طور پر ایک دن میں ممکن ہی نہیں ہے۔ تربت کی ہی مثال لے لیں وہاں سے کوئٹہ پہنچنا ایک مشکل کام ہے۔ جب کہ اس کی نسبت ڈیرہ غازی خان سے لاہور پہنچنا آسان ہے۔ لیکن جونہی بلوچستان کے صوبے بنانے کی بات کی جائے تو طوفان آجاتا ہے۔ اگر پنجاب میں سرائیکی اور پنجابی کی تقسیم کی بات کی جاتی ہے تو کیا بلوچستان میں پٹھان اور بلوچ کی تقسیم موجود نہیں ہے۔ کیا خیبر پختونخوا میں ہندکو، گوجری اورکھوار وغیرہ لسانی اور نسلی گروہ الگ صوبے کی بات نہیں کررہے، کیا سندھ میں ایسی تقسیم موجود نہیں ہے۔
میں حیران ہوں کہ بلوچ قوم پرست بلوچستان پر توجہ کیوں نہیں دیتے۔ ویسے تو سردار صاحب کے بارے میں یہ معلوم کرنا بھی ایک مشکل کام ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ ہیں یا اس کے خلاف ہیں۔ ایک دن وہ حکومت سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہیں اور دوسرے دن حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ ایک دن کہتے ہیں کہ بجٹ پر ووٹ نہیں دوں گا دوسرے دن ووٹ دینے حاضر ہو جاتے ہیں۔ ایک دن اپوزیشن کے اجلاس میں بیٹھ جاتے ہیں جب کہ دوسرے دن حکومتی اجلاس میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔
ویسے تو آجکل بلوچستان میں صوبائی حکومت دوبارہ خطرہ میں ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی ( باپ) میں دراڑ پڑ چکی ہے۔ لیکن ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کا ذکر کرتے ہوئے سردار اختر مینگل اپنی حلیف بلوچستان کی حکومت کی کارکردگی بھی بیان کر دیتے۔ پندرہ ماہ میں جب سے ان کی پارٹی بلوچستان حکومت کے حلیف ہے، بلوچستان کے پسماندہ اضلاع میں کتنی نئی یونیورسٹیاں بنائی گئی ہیں۔
یہ کیسی حیران کن بات ہے کہ اگر سندھ کی تقسیم کی بات کی جائے تو سندھی دھرتی کو خطرات لا حق ہو جاتے ہیں۔ سندھ کی تقسیم پر قتل و غارت کی بات شروع ہو جاتی ہے۔ وسطی اور شمالی پنجاب نے تو اقلیت میں ہونے کے باوجود جنوبی پنجاب کو وزارت اعلیٰ دے دی ہے۔ پنجاب کی حاکمیت دے دی ہے۔ کیا سندھ میں یہ ممکن ہے۔ میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ پنجاب کی تقسیم ایک سیاسی نعرہ ہے۔ لیکن سندھ میں دیہی سندھ کی حکمرانی کے ہوتے ہوئے کراچی، حیدر آباد اور سکھر ترقی نہیں کرسکتے۔
آپ کے پی کی مثال ہی سامنے رکھ لیں۔ وہاں ہزارہ صوبہ کی تحریک نے خون بھی دیا ہے۔ لیکن قوم پرستوں کے نزدیک کے پی کی تقسیم بھی پاکستان کی بقا کے خلاف سازش ہے۔ اب تو قبائلی علاقوں کو بھی کے پی میں ہی شامل کر دیا گیا۔ حالانکہ یہ علاقے پشاور سے بہت دور ہیں۔ لیکن پھر بھی انھیں پشاور کی حاکمیت میں دے دیا گیا ہے۔ کیونکہ کے پی کی تقسیم بھی نہیں ہو سکتی۔ مجھے تو ڈر ہے کہ اب جب سردار اختر مینگل نے ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کو بلوچستان میں شامل کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
تو ان کی پیروی میں سندھ کے قوم پرست رحیم یار خان اور اس کے ملحقہ علاقوں کو سندھ میں شامل کرنے کا مطالبہ کر دیں گے۔ کے پی بھی مطالبہ کر دے گا کہ میانوالی وغیرہ کو کے پی میں شامل کیا جائے۔ حالانکہ میانوالی والی والے تو کے پی میں کسی صورت شامل نہیں ہونا چاہتے لیکن کے پی کے قوم پرست یہی کہتے ہیں کہ میانوالی میں پشتون اکثریت ہے حالانکہ یہ پورا سچ نہیں ہے، جس طرح سردار اختر مینگل نے ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کو ماضی میں بلوچستان کا حصہ قرار دیا ہے۔
اسی طرح کل کو کے پی کے قوم پرست مزید آگے بڑھ کر شمالی پنجاب کو ماضی میں کے پی کا حصہ قرار دے دیں گے۔ حالانکہ ماضی میں تو پشاور اور کے پی کے دیگر اضلاع پنجاب کا حصہ تھے۔ اس طرح عین ممکن ہے کہ یہ سب قوم پرست ملکر ایک ایسا فارمولہ ہی لے آئیں جس میں پنجاب کا وجود ہی ختم ہو جائے۔ حالانکہ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن پھر میں سوچتا ہوں کہ اگر پنجاب ہی ختم ہو گیا تو یہ نام نہاد قوم پرست کس کی مخالفت کرکے اپنا سیاسی وجود قائم رکھیں گے لہٰذا میرا تو مشورہ یہی ہے کہ پنجاب کو قائم ودائم رکھیں کیونکہ اسی میں ان کی بقا کا راز پوشیدہ ہے۔