Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Aap In Adalton Ke Muhafiz Hain?

Aap In Adalton Ke Muhafiz Hain?

تحریک انصاف اور جے یو آئی اس جوڈیشری، کے محافظ بن کے سامنے آ ئے ہیں جسے دنیا بھر کے عدالتی نظاموں میں آخری نمبروں پر رکھا جاتا ہے۔ جہاں آخری اعداد وشمار کے مطابق ساڑھے بائیس لاکھ سے زائد مقدمات التوا کا شکار ہیں۔ جس کی اعلیٰ ترین عدالت میں گذشتہ برس مارچ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 52ہزار 481 تھی جو رواں برس 57 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ زیر التواء فوجداری مقدمات ہی 10ہزار سے زائد بتائے جا رہے ہیں اور ہائی کورٹس کے فیصلوں کے خلاف باضابطہ منظوری کی منتظر اپیلوں کی تعداد 31ہزار سے بھی زیادہ۔

ایسانہیں کہ ہماری عدالتیں مقدمات کے فیصلے نہیں کر رہیں یا اس سے بھی درست لفظ ہے کہ انہیں نمٹا نہیں رہیں کیونکہ بہت سارے تنازعات کو عدالتیں اپنی ڈائریکشنز کے ساتھ متعلقہ اتھارٹیز کو واپس بھیج دیتی ہیں جنہیں ہم فیصلہ نہیں کہہ سکتے مگر نمٹانا کہا جا سکتا ہے۔ بتایا گیا کہ جیلوں میں موجود افراد کی طرف سے 3353ا پیلیں فیصلوں کی منتظر ہیں اور ظاہر ہیں کہ یہ کام ارجنٹ نوعیت کا ہے مگر دوسری طرف ہمارے پاس ایسی اطلاعات موجود ہیں کہ ہماری عدالتوں نے ان افراد کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے جیلوں سے رہائی کا حکم دیا جنہیں جیل میں ہی مرے ہوئے کئی برس گزر چکے تھے۔

کیا یہ بات ہے کہ ہماری عدالتیں کام نہیں کرتیں، نہیں نہیں، ایسی کوئی بات نہیں، ہاں اتنا ضرور ہے کہ ہمارے اعلیٰ تنخواہیں لینے والے ججوں کے پاس ضروری کام، بیماری اور ہفتہ وار چھٹیاں ہی نہیں بلکہ گرمیوں اور سردیوں کی چھٹیاں بھی ہیں جو سکولوں میں ہوتی ہیں۔ یہ چھٹیاں انگریز کیا کرتے تھے کیونکہ ان کے لئے برصغیر کی گرمی برداشت کرنا بہت مشکل ہوتا تھا اور سردیوں میں انہوں نے کرسمس اور نیو ائیر منانے کے لئے اپنے ملک جانا ہوتا تھا۔

میں نے بطور صحافی دیکھا ہے کہ ہماری عدالتیں کام کرتی ہیں اور اتنا کام کرتی ہیں کہ اب کسی بھی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں کورٹ رپورٹنگ کے لئے ایک سے زائد رپورٹرز کی موجودگی اشد ضروری ہوگئی ہے مگر ہم جو کچھ عدالتوں سے رپورٹ کرتے ہیں وہ کیا ہوتا ہے کہ کچھ جج رات گئے تک بیٹھ کے کسی بااثر اور مقبول ملزم کا انتظار کرتے ہیں اور کبھی انہیں دیکھ کے گُڈ ٹو سی یو کہا جاتا ہے۔

ہماری ایک صوبے کی عدالت تو دوسرے صوبے کے اشتہاریوں کو ضمانتیں دینے کے لئے بہت مشہور ہوگئی تھی، لطیفہ سنیں، اس کے چیف جسٹس کو علم ہوا کہ اس کی عدالت میں دوسرے صوبے کی ایک خاتون سیاسی رہنما موجود ہے تو وہ اسلام آباد سے بھاگم بھاگ اپنی عدالت میں رات گئے پہنچے اور ان کی ضمانت ہی نہیں منظور فرمائی بلکہ ان سے یہ جملہ بھی منسوب ہواکہ رات کو اگر وہ کہیں نہیں ٹھہر سکتیں تو ان کے لئے ان کاگھر حاضر ہے۔

واقعی یہ اپنے کام اور فرائض سے وابستگی کی انتہا کہی جا سکتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ پھر دنیا ہمارے اس عدالتی نظام کو دنیا بھر کے عدالتی نظاموں میں آخری نمبروں پر کیوں رکھتی ہے۔ وہ اس کارکردگی کو نظر میں کیوں نہیں رکھتی جس کے تحت ہمارے عدالتیں ہر روز سیاسی مقدمات سنتی ہیں، ہمارے جج حضرات روزانہ بڑے بڑے بیانات دیتے ہیں جو ٹی وی چینلوں پر ہیڈلائنز میں چلتے اور اخبارات میں شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوتے ہیں۔

میر ابطور صحافی خیال ہے کہ عدالتوں سے صرف فیصلے رپورٹ ہونے چاہئیں اور سماعت کے دوران دی گئی آبزرویشنز اور کئے گئے سوالات ہرگز ہرگز ٹیلی کاسٹ یا پرنٹ نہیں ہونے چاہئیں دوسرے جب ایک جج بطور جج آبزرویشن دیتا ہے تواسے اس کے نام سے ہرگز شائع نہیں کیا جانا چاہئے کہ اس سے سیاستدانوں کی طرح شہرت کا شوق پیدا ہوجاتاہے جس کے بعد انصاف سے زیادہ بڑھک اہم ہوجاتی ہے۔

میں اپنی ماتحت عدالتوں میں جاتا ہوں تو وہاں کی دیواروں کی ایک ایک اینٹ رشوت مانگتی ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ ضلعے سے ملک تک کی عدالتوں کے سربراہ اس کرپشن سے پوری طرح واقف ہیں کیونکہ وہ انہی راستوں اور دیواروں سے گزر کے وہاں تک پہنچے ہوتے ہیں مگر وہ اس کی اصلاح نہیں کرتے۔

میرے پاس تو وکلا رہنماؤں کی دی ہوئی ایسی ایسی انفارمیشن ہے کہ آپ سنیں تو حیران رہ جائیں کہ بار بار وفاداریاں تبدیل کرنے والے ایک مشہور سیاسی رہنما کے چچا جب ایک ہائیکورٹ کے سربراہ تھے تو انہوں نے ہائیکورٹ کے سامنے ڈن بیسز، پر کیس لینے کی دکان لگائی تھی اور پھر یہ سلسلہ کئی دوسرے ججوں تک پھیل گیا کہ اندر باپ جج ہوتا تھا اور عدالت کے باہر سڑک پراس کے نام کا بورڈ، اس کے نیچے اس کے بیٹوں کی فیصلوں کی دکان ہوتی تھی۔

ایک چیف جسٹس کا داماد وزیر بن گیا تو پھر اس کے گھر ججوں کے کھانے ہوتے تھے، و غیرہ وغیرہ، بہرحال یہ تو وہ باتیں ہیں جو وکیلوں کے پاس ہیں اور ہم سب جو وکیل نہیں ہیں ہم جانتے ہیں کہ جسٹس منیر سے جسٹس مشتاق تک اور سجاد علی شاہ سے لے کر ارشاد حسن خان تک اور افتخار چوہدری سے لے کر ثاقب نثار تک کیا کیا ہوتا رہا۔ کس طرح نظریہ ضرورت کو ایجاد کیا گیا، مارشل لاؤں کو جائز قرار دیا گیا، سیاستدانوں کو جیلیں، پھانسیاں اور جلاوطنیاں دی جاتی رہیں اور پھر وقت آ گیا کہ ہمارے عدالتی نظام میں اصلاحات کے لئے آوازیں اٹھنے لگیں۔ اس مرتبہ جب سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے منشور دئیے تو ان میں عدالتی اصلاحات ان کی ترجیحات میں شامل تھیں۔

میں حیران ہوتا ہوں کہ ہمارے پی ٹی آئی جیسے نئے پاکستان کے داعی اور جے یو آئی جیسے تہتر کے آئین کے تناظر میں سب سے زیادہ سوچنے والے ان عدالتی اصلاحات کے خلاف ہو چکے ہیں۔ وہ ایک آئینی عدالت کے قیام کے خلاف ہیں جبکہ وہ جانتے ہیں کہ ہماری عدالتیں معمول کے مقدمات کے لئے وقت ہی نہیں نکال پا رہیں۔ کبھی انہیں اپنے کسی پیارے سیاستدان کو ریلیف دینا ہوتا ہے اور کبھی ناپسندیدہ لوگوں کے بازو مروڑنے ہوتے ہیں۔ وہ عدلیہ کے پرانے اور فرسودہ نظام کی محافظ بن کے بیٹھ گئی ہیں کیونکہ اس کے ذریعے انہیں ایسا ریلیف مل رہا ہے جس کا آئین اور قانون میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ عدالتی فیصلوں کے نام پر آئین کو ہی از سر نو تحریر کیا جا رہا ہے اوریہ پریکٹس ہرگز نئی نہیں ہے بلکہ پرویز مشر ف کو اس وقت کی سپریم کورٹ نے آئین میں ترمیم کرنے تک کا اختیار دے دیا تھا۔

میں نے گذشتہ روز پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی تقریر سنی اور آپ نے بھی سنی ہوگی۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ آئینی عدالت ضروری بھی ہے اور مجبوری بھی ہے اور وہ اسے بنا کر رہیں گے۔ میرے پاس اس وقت کالم میں الفاظ کا دامن کم ہوتا چلا جا رہا ہے ورنہ میں آپ کو بتاتا کہ اگر نوازلیگ اور پیپلزپارٹی کچھ کرنے کے لئے سوچ لیں تو پھر وہ ہو کر رہتا ہے۔ شہباز شریف اور آصف زرداری جیلوں سے اقتدار تک پہنچے اور اقتدار والے کو جیل تک پہنچا چکے ہیں، ان کے لئے یہ کام کوئی مشکل نہیں ہے۔