میں نے جب سے صحافت شروع کی ہے لوگوں کومہنگائی کے خلاف شو ر مچاتے ہی دیکھا ہے مگر ان کی اکثریت غریبوں کی ہوتی ہے یا ان ہی کی نمائندہ تنظیموں کی مگر اسحق ڈار کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ارب پتیوں کو بھی احتجاج کے لئے سڑکوں پر لا کھڑا کیا ہے۔
میں جس وقت پیاف، کی کال پر لاہور پریس کلب کے باہر کروڑاور ارب پتیوں کی چیخ وپکار سن رہا تھا اس وقت گورنر سٹیٹ بنک جمیل احمد شرح سود کو رواں صدی کی بلند ترین سطح یعنی سترہ فیصد پر لے جانے کا اعلان کر رہے تھے۔ وہ مہنگائی میں اضافے کی بری خبروں پر بھی مہر تصدیق ثبت کررہے تھے اور بتا رہے تھے کہ اس برس آٹھ ارب ڈالر کے قرضے واپس کرنے ہیں اور سب سے بڑا سوال ہے کہ کیسے اور کہاں سے، ہاں، یاد آیا جس وقت ارب پتی سڑکوں پر تھے اس وقت ملک بھر میں ایک اور تاریخی پاور شٹ ڈاون چل رہا تھا جس کا آغاز صبح ساڑھے سات بجے ہوا تھا اور رات دس بجے لاہور کی بجلی بحال ہوئی۔
بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوئی جس وقت میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں یعنی فجر سے لے کر شام ہونے تک ہر ایک گھنٹے کے بعد ایک گھنٹے کے لئے بجلی جا رہی ہے۔ یہ حال اس وقت ہے جب آپ بجلی کی قیمتوں میں دو سے چار گنا تک اضافہ کر چکے ہیں یعنی عوام کو مکمل نچوڑ چکے، یہ حال اس وقت بھی ہے جب موسم سرما کی وجہ سے بجلی کی طلب سال کی کم ترین سطح پر ہے۔
میں سوچ رہا ہوں کہ کیا وہ وقت آ گیا ہے کہ ہم اسحق ڈار سے جڑی ہوئی امیدوں کی مارکیٹنگ کرنے پر معافی مانگ لیں یا ہمیں کچھ اور انتظار کرنا چاہئیے۔ انتظار کی وجہ یہ ہے کہ اگر اسحق ڈار نہیں توکیا شوکت ترین اور اسد عمر سے امیدیں لگائیں جنہوں نے ہمیں ان حالات تک پہنچایا۔
میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی حکومت کے لئے کام کرنے اور کارکردگی دکھانے کے لئے ایک برس بہت ہوتا ہے اور موجودہ حکومت کا دسواں مہینہ شروع ہوچکا ہے۔ جنیوا کانفرنس سے ایک امید کی کرن نظر آئی تھی کہ ملک میں ڈالر آئیں گے لیکن جب تک وہ ڈالر نہیں آتے تب تک کام کیسے چلے گا۔ اگر تین برسوں میں آٹھ دس ارب ڈالر آ بھی گئے تو ہمیں اسی برس آٹھ ارب ڈالر واپس کرنے ہیں سو ہم مصیبت، لاچاری اور بدقسمتی کے ایک عجیب وغریب چکر میں پھنس گئے ہیں۔
ہماری اسٹیبلشمنٹ ملک کو اس گھن چکر میں پھنسا کے نیوٹرل ہو کے بیٹھ گئی ہے۔ ہمارے بیوروکریٹ اب بھی دیہاڑیاں لگانے سے باز نہیں آ رہے اور ہمارے سیاستدانوں نے اپنے مفادات کے لئے ملک کی قبر کھودنے سے باز نہ آنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ عمران خان اقتدار کی ہوس میں دوصوبوں کی اسمبلیاں توڑ کے بیٹھ گئے ہیں حالانکہ اگر وہ اتنے ہی پاپولر لیڈر ہیں تو اکتوبر کا انتظار کر لیں، وہ کون سا دور ہے۔
کچھ دوستوں کا دعویٰ ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے گورنروں کی طرف سے (تادم تحریر) صوبوں میں انتخابات کی تاریخ نہ دینے کے پیچھے کہانی یہ ہے کہ اس وقت نئی مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں کے نام پر الیکشن کم ازکم اکتوبر تک ملتوی رکھنے پر صلاح ومشورے ہو رہے ہیں یعنی ہم ایک سیاسی عدم استحکام سے نکلے ہیں تو ہمارے سامنے ایک دوسرا سیاسی عدم استحکام موجود ہے جو معاشی عدم استحکام کی بنیاد ہے۔
میں اسحق ڈار کے کریڈٹ کی بات کررہا تھا کہ انہوں نے ارب پتیوں کو بھی سڑک پر لاکھڑا کیا ہے۔ میں پیاف، کے سربراہ انجم نثار کو دیکھ رہا تھا کہ وہ سڑک پر کھڑے ہر چینل سے الگ الگ بات کرتے ہوئے ہلکان ہو رہے تھے۔ میں نے وہاں حاجی حنیف کو دیکھا جو نواز لیگ کے ساتھ ہیں اورلاہور چیمبر کے سابق صدر محمد علی میاں کو بھی۔ یہ سب بتا رہے تھے کہ اسحق ڈار کاروباری برادری کو دستیاب ہی نہیں ہیں۔
پہلے حکومت نے امپورٹ کرنے کی اجازت دی اور جب ان کے کنٹینروں سے لدے ہوئے جہاز کراچی کے ساحل پر پہنچ گئے تو حکومتی اشارے پر پرائیویٹ بنکوں نے ان کی ایل سیز کھولنے سے انکا رکر دیا۔ میں نے کہا کہ اگر حکومت کے پاس ڈالر ہی نہ ہوں تو وہ کیا کرے۔ جواب تھا کہ حکومت امپورٹرز کو اعتمادمیں لے کر باقاعدہ پالیسی بنائے۔ دوسرے حکومتی پالیسی کے بعد ڈالروں کا انتظام کرنا حکومت کی نہیں خود امپورٹرز کی ذمے داری ہے۔
اس وقت بے شرمی اور ڈھٹائی کی انتہا ہے کہ بینک سرکاری کی بجائے مارکیٹ ریٹ پر ڈالرز کی ٹریڈ کر رہے ہیں۔ ہمارے امپورٹرز نے چین وغیرہ سے تین سو اسی دن کی اجازت بھی لے لی ہے مگر اس مدت پر ادائیگی کی بھی اجازت نہیں دی جا رہی۔ یوں لگ رہا ہے کہ ملک میں کوئی حکومت ہی نہیں ہے اور پاکستان ڈیفالٹ کر چکا ہے۔
میرے سمیت بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں امپورٹ نہیں کر نی چاہئے اور ملکی وسائل میں کام کرنا چاہئے مگر سوال یہ ہے کہ اگر کھلونے وغیرہ بنانے کی صنعت ہے اور وہ پلاسٹک دانے پر چلتی ہے تو وہ امپورٹ ہی ہوتا ہے۔ اگر آپ اس کو غیر ضروری سمجھیں گے اور امپورٹ پر پابندی لگا دیں گے تو مطلب یہ ہے کہ آپ نے یہ انڈسٹری ہی بند کردی۔
میاں فریاد احمد، پاکستان فرنیچر پارٹس ایسوسی ایشن کے صدر ہیں اور وہ چیخ رہے تھے کہ فرنیچر میں استعمال ہونے والی بہت ساری چیزیں پاکستان میں تیار ہی نہیں ہوتیں جیسے کرسی میں اپ اور ڈاون کرنے والی کِٹ۔ اب اگر آپ پارٹس منگوانے کی اجازت نہیں دیں گے تو یہ کارخانے بند ہوجائیں گے۔
دیوان وقار احمد اور خواجہ شاہدسٹین لیس سٹیل ایسوسی ایشن کے رہنما تھے اور کہہ رہے تھے کہ سٹین لیس سٹیل تو پاکستان میں بنتا ہی نہیں اوراگرآپ امپورٹ بھی نہیں کریں گے تو اس کی ٹریڈ سے وابستہ لاکھوں لوگ کدھر جائیں گے اور کہاں سے کھائیں گے۔ امین مظہر بٹ کی داڑھی سفید ہے مگر وہ اپنے جوش و جذبے سے نوجوان ہیں۔
میں نے ان کو پہلے شریف فیملی اور پھر عمران خان کے خلاف بھی چیختے دیکھا ہے اور اب وہ پی ڈی ایم کی حکومت کا نوحہ پڑھ رہے تھے۔ اپنے اردو بازار والے خالد پرویز بٹ اور ہال روڈ والے بابر محمود سب ہی وہاں موجود تھے۔ ابھی کراچی میں وہاں کے چیمبر والوں نے اپنی چابیاں حکام کے سامنے رکھ دیں کہ آپ ہی انڈسٹری اور بزنس چلا کے دکھا دیں۔
لاہور چیمبر آف کامرس کے صدرکاشف انور جذباتی شخص نہیں ہیں، وہ معاملات کو سمجھتے ہیں اور بہتر بنانے کے لئے ہر وقت نہ صرف مثبت بلکہ مصروف بھی رہتے ہیں مگر وہ بھی اپنے کاروباری طبقے کی پریشانی ہی نہیں بلکہ اس کے ملک کے مستقبل پر اثرات کو سمجھ رہے ہیں۔ کاشف انور کا کہنا ہے کہ ایسی بحرانی کیفیت میں انتخابات کی عیاشی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
وہ درست کہتے ہیں کیونکہ اس وقت تمام سیاسی جماعتیں کہیں نہ کہیں اقتدار میں موجود ہیں بلکہ پی ٹی آئی کاوفاقی حکومت ختم ہونے کے باوجو داقتدار میں شئیر سب سے زیادہ تھا جو اس نے احمقانہ فیصلے کر کے کھویا۔ اس وقت ضرورت میثاق معیشت کی ہے۔ اگر ہماری معیشت بچ گئی، ہمارے غریب بلکہ اسے آگے بڑھتے ہوئے امیر بچ گئے، ہمارے کارخانے اور بازار بچ گئے تو ہم انتخابات کی عیاشی بھی کر لیں گے، جمہوریت کے نعرے بھی لگا لیں گے۔