Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Deharian Hi Deharian Hain

Deharian Hi Deharian Hain

کیا آپ جانتے ہیں کہ وزیراعظم کے پرانے ساتھی جہانگیر ترین جیسے ہی اپنے صاحبزادے علی ترین کے ساتھ روس سے آنے والے جہاز کی خصوصی فلائیٹ میں لندن کے لئے روانہ ہوئے تو اس کے ساتھ ہی اعلان کر دیا گیا کہ وزیراعظم نے چینی مہنگی کرنے والوں کے خلاف سخت سزاوں کی منظوری دے دی ہے اور یہ کہ چینی کے شعبے میں گذشتہ پینتس برس کی تحقیقات ہوں گی مگر کیا آپ کو یہ معاملہ ایک المیہ نہیں لگتا کہ چینی کی قیمتوں میں اضافہ موجودہ دور میں ہوا مگر اس کی تحقیقات تین سے چار عشروں کی ہوں گی اور کیونکہ وزیراعظم کے ساتھی فرار ہو گئے لہذا اب شاہد خاقان عباسی کو پکڑا جائے گا حالانکہ ان کے دور میں چینی کی قیمت بالعموم مستحکم رہی۔ ابھی چینی پر سب سڈی کا معاملہ اپنے انجام کو نہیں پہنچا اور نہ ہی پہنچے گا کہ اس کے ساتھ ہی یوٹیلیٹی سٹور ز کی طرف سے مہنگے داموں ضرورت سے انتہائی زیادہ چینی خریدنے کا سکینڈل سامنے آ گیا جس میں اربوں روپوں کا چونا لگایاگیا ہے۔ لگتا ہے کہ وزیراعظم اپنے دوست سے فاصلے پر ضرور ہیں مگر سچ مچ کے ناراض نہیں ہیں۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ معاملہ صرف چینی کا نہیں آٹے کا بھی ہے اور فلورملز نے آٹے کا بیس کلو کا تھیلا پنجاب میں ایک ہزار روپے سے بھی زیادہ کا کر دیا ہے حالانکہ ابھی گندم کی نئی فصل آئی ہے اور حکومتی ترجمانوں کے مطابق بہت ہی بہترین قسم کی خریداری کی گئی ہے۔ آٹے کی قیمت میں اضافہ بتا رہا ہے کہ معاملات کتنے فول پروف ہیں۔ ایک وزیر صاحب یہ لطیفہ بیان کر رہے ہیں کہ ماضی کی حکومتیں کسانوں کو مکمل قیمت ادا نہیں کرتی رہیں، اب پوری قیمت ادا کی گئی ہے اس لئے قیمت بڑھ گئی ہے حالانکہ معاملہ صرف اتنا ہے کہ حکومت نے مس مینجمنٹ کرتے ہوئے سرکاری گندم کی فراہمی روک دی ہے جس کے نتیجے میں اوپن مارکیٹ کے ریٹس کو بنیاد بناتے ہوئے آٹا مہنگا کیا گیا ہے حالانکہ گندم اس وقت سرکاری ریٹ پر ہی دستیاب ہے۔ آٹے کے ایک تھیلے پر اگر دو سو روپے کی دیہاڑی لگ رہی ہے تو یقینی طور پر یہ صرف فلور ملز والے نہیں لگا رہے بلکہ وہ بھی ہیں جو اس کا جواز اور موقع فراہم کر رہے ہیں۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ معاملہ صرف چینی اور آٹے کا نہیں بلکہ ادویات کابھی ہے۔ فارماسسٹ ایسوسی ایشن نے ایک نیا انکشاف کر ڈالا ہے اور اس انکشاف نما درخواست کی نقل مجھے بھی ارسال کی ہے۔ نورمحمد مہر بتاتے ہیں کہ فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے جولائی میں ادویات مزید پچاس فیصد مہنگی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اوراس کی کاغذی کارروائی مکمل کر لی گئی ہے۔ یہ کمپنیاں ہر برس اپنے اخراجات اوراس کی بنیاد پر ادویات کی قیمتوں کا تعین کروانے کے لئے پیپر ورک کرتی ہیں مگر اس وقت صورتحال یہ ہے کہ نوہزار رجسٹرڈ ادویات میں سے صرف ساڑھے تین سو کا کچھ ریکارڈ ڈریب کے پاس موجود ہے باقی سب کا سب جلایا جا چکا ہے لہذا ادویات ساز ادارے جس دوا کی جو چاہے قیمت لکھ دیں اس کا حساب کتاب ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے پاس موجود نہیں ہے مگر وہ اس کمائی پر بھی مطمئن نہیں ہیں۔ میں نے ذاتی طور پر سروے کیا ہے اور علم ہوا ہے کہ کرونا کے مقابلے میں مدافعت بڑھانے والی دوا وٹامن سی لوکل کی بجائے امپیورٹڈ کے نام پر فروخت کی جا رہی ہے اور ایک شیشی نوسو سے ہزار روپے میں دی جا رہی ہے۔ جب سے جناب عمران خان کی حکومت قائم ہوئی ہے ادویات کی قیمتوں میں اوسطا اڑھائی سو فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے مگراس پر مزید پچاس فیصد دیہاڑی کی تیاری ہے۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ معاملہ صرف چینی، آٹے اور ادویات کا نہیں ہے بلکہ سرکار خود تسلیم کرتی ہے کہ سگریٹ کی تجارت کرنے والوں نے اربوں کھربوں روپوں کی دیہاڑیاں لگا لی ہیں۔ سگریٹ کی غیر قانونی تجارت سے اب تک آن دی ریکارڈ اعداد و شمار کے مطابق خزانے کو ستر ارب روپوں کا چونا لگایا جا چکا ہے۔ اطلاعات دی گئی ہیں کہ پاکستان میں غیر قانونی سگریٹ کی کھپت چالیس فیصد کے قریب ہے اور اس میں ہر برس چھ فیصد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ بورڈ آف ریونیو کو چھاپے مارنے کا اختیار دے دیا گیا ہے مگر دوسری طرف یہ امر بھی حقیقت ہے کہ سگریٹ کی ٹریڈ کے تمام لوگ پی ٹی آئی کی خیبرپختونخوا حکومت کا حصہ ہیں، یہ وہ جگہہ ہے جہاں کچھ فیس بک اور واٹس ایپ گروپوں کے مطابق پانچ برسوں سے قانون اور انصاف کا بول بالا ہے۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ معاملہ صرف چینی، آٹے، ادویات اور سگریٹ کا نہیں ہے بلکہ پٹرول کا بھی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سرکار کو اس وقت پٹرول کم وبیش پچیس روپے لیٹر کاسٹ کر رہا ہے مگر اس کے اوپر پچاس روپے مختلف لیویز، ٹیکسوں اور اخراجات کے نام پر وصول کئے جا رہے ہیں مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ پرائیویٹ آئیل کمپنیوں نے اس سستے ترین پٹرول کی پروڈکشن ہی بند کر دی ہے جب پوری دنیا کی آئیل مارکیٹنگ کمپنیوں سے پٹرول پمپ تک سستے پٹرول سے اپنے ٹینک بھر رہے ہیں ہمارے پٹرول پمپ ڈرائی ہو چکے ہیں کیونکہ ان کمپنیوں نے سرکار کے ساتھ مل کر لمبی دیہاڑی لگانے کی منصوبہ بندی کر لی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کم ریٹ کی وجہ سے ان کی پروڈکشن کاسٹ پوری نہیں ہو رہی مگر لطیفہ یہ ہے کہ نواز شریف دور میں اس سے بھی دس روپے کم پر یہی پروڈکشن کاسٹ پوری ہوتی رہی ہے۔ پٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری انفارمیشن خواجہ عاطف رضا کہتے ہیں کہ حکومت یا تو سرکاری خزانے سے یعنی ہمارے ٹیکسوں کی کمائی سے اربوں روپے ان کمپنیوں کو دے گی ورنہ بحران ختم کرنے کے لئے آپ کو پندرہ روز بعد ہی قیمت بڑھانی پڑے گی یعنی ڈائریکٹ ہماری جیبوں سے نکال کر پٹرول مافیا کی جیبیں بھری جائیں گی۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ معاملہ صرف چینی، آتے، ادویات، سگریٹ اور پٹرول کا نہیں بلکہ کنسٹرکشن انڈسٹری کا بھی ہے جسے حال ہی میں بحالی کے نام پر ایک پیکج دیا گیا ہے اور اجازت دے دی گئی ہے کہ اس انڈسٹری میں کالادھن سفید کر لیا جائے یعنی ڈاکووں، چوروں، قاتلوں، بھتہ گیروں وغیرہ وغیرہ کو اجازت ہے کہ وہ نوٹ کمائیں اور پلازے بنائیں اور یہ اجازت ہماری عدالت سے سرٹیفائیڈ صادق اور امین وزیر اعظم نے براہ راست دی ہے اور نیا پاکستان ہاوسنگ پراجیکٹ میں دی گئی مراعات اس کے علاوہ ہیں۔ اسی پیراگراف میں شامل کر لیں کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ معاملہ صرف چینی، آٹے، ادویات، سگریٹ، پٹرول اور کنسٹرکشن انڈسٹری کا نہیں ہے بلکہ پاور کمپنی مافیا کا بھی ہے۔ ایک پونے تین سو صفحوں کی رپورٹ کا غلغلہ مچا ہے جس کے مطابق ان پاور کمپنیوں نے ایک برس میں سو ارب روپوں کی دیہاڑی لگائی ہے مگر اس رپورٹ کو بھی کہیں کسی بھاری اور عمدہ قالین کے نیچے دبا دیا گیا ہے اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ زکوٰة مافیا، حج مافیااور کھاد مافیا کی بات بھی کی جائے تو کالم کی طوالت کے پیش نظر معذرت قبول فرمائیں مگر یہ ضرور یاد رکھیں کہ حکومت جتنے ارب روپے غریبوں کی امداد کے لئے دینے کے دعوے کر رہی ہے او رامداد پانے والی غریبوں کی جو تعداد سامنے آ رہی ہے اس میں بہت بڑا فرق ہے اور اس امداد کا تھرڈ پارٹی فرانزک آڈٹ انتہائی ضروری ہے۔

مجھے اس شہر اور ملک میں صحافت کرتے برس نہیں بلکہ عشرے گزر گئے۔ میں نے فرد واحد کی آمرانہ حکومتوں میں نوازشات کا عمل بھی دیکھا ہے اور سیاسی حکومتوں کو اپنے لوگوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے بھی مگر پونے دو برس کی مختصر مدت میں اتنے مافیاز کو ایک ساتھ دیہاڑیاں لگاتے نہیں دیکھا مگر مجھے اطمینان یہ ہے کہ جہا ں ایک منتخب وزیراعظم بیٹے سے نہ لی گئی تنخواہ نہ ظاہر کرنے کے باوجود نااہل ہو گیا اور جہاں ایک لیڈر آف دی اپوزیشن روزانہ احتساب کے نام پر ذلیل و رسوا ہو رہا ہے تو ایک وقت آئے گا کہ موجودہ حکمران بھی اپوزیشن میں ہوں گے اور ان کے بچوں کو بھی جیلوں میں سال، سال ایویں ای روٹین میں ہوجایا کریں گے۔ میرا خیال ہے کہ ہم جیسے اس وقت بھی شفاف، شفاف اور انصاف، انصاف کی دہائی دیتے ہوئے کالم لکھ رہے ہوں گے۔