Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Dehshat Gardon Ka Bereham Operation

Dehshat Gardon Ka Bereham Operation

بیٹوں، بھائیوں کو مارنے والوں کو اپنے نہیں کہا جا تا، ان سے مذاکرات نہیں کئے جاتے، انہیں کٹہرے میں لایا، عبرتناک انجام تک پہنچایا جا تا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک بتایا جا رہا تھا کہ بی ایل اے کے فراریوں نے ہتھیار ڈالنے شروع کر دئیے ہیں اور وہ پرامن زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ جسے محنت مزدوری اور کاروبار کی بجائے لوٹ مار اور دشمن سے غداری کی قیمت لے کر عیاشی کی عاد ت پڑ جائے اس کی اصلاح ناممکن ہوجاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن امن کے دشمنوں اور غداروں کے لئے بدترین سزائیں تجویز کرتا ہے، ایسی سزائیں جن کو دیکھ کر لوگوں کے پتے پانی ہوجائیں اور وہ اپنی نسلوں تک کو اس سے منع کر جائیں۔ بلوچستان کے قبائل کا معاملہ بہت حد تک افغانستان سے ملتا جلتا ہے جہاں کے لوگوں کی ایک واضح تعداد نے سمگلنگ سمیت متعدد جرائم کو اپنا کاروبار بنا لیا ہے۔ افغانستان میں تو نصف صدی میں باقاعدہ وار لارڈز بنے۔ انہوں نے اسلحے اور منشیات کو اپنا دھندا بنایا۔

اب ان کی تیسری، تیسری نسل اس دھندے سے وابستہ ہے۔ وہ کسی کاروبار یانوکری کے بارے سوچتے بھی نہیں ہیں۔ ایک وقت تھا کہ افغانستان سے فونز پر میسجز آتے تھے اور قبائلی علاقوں میں اغوا کئے ہوئے بندوں اور چوری کی گئی گاڑیوں کے پیسے وصول ہوتے تھے۔

میں نے کہا، بلوچستان کامعاملہ بھی افغانستان کے قریب تر ہے۔ وہاں پر بھی نفرتوں اور تعصبات کا دور دورہ ہے۔ یہ قبائل آپس میں جنگیں کرتے ہیں اور جب ان سے فارغ ہوتے ہیں، جب انہیں وسائل کی کمی ستاتی ہے تو ان کی نفرت کا رخ پنجاب کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔ یہ بتانے والے ان کے وہ سردار ہوتے ہیں جو ہر مرتبہ ایک نئی پارٹی جوائن کرکے اقتدار میں آجاتے ہیں۔ بلوچ سیاستدانوں سے بڑے لوٹے او رلفافے پورے پاکستان میں آپ کو نہیں ملیں گے۔ جب خود گورنر ہاؤسز اور ایوان وزیراعلیٰ میں بیٹھے ہوتے ہیں تو وفاق کے حامی بن جاتے ہیں کیونکہ یہ اسی وفاق سے کروڑوں روپوں کی سالانہ بلکہ ماہانہ رائلٹیاں لیتے ہیں اور جب ان کی قومی خزانے سے لوٹ مار روکی جاتی ہے تو یہ گورنر ہاؤسز سے نکلتے ہیں اور بندوقیں اٹھا کے پہاڑوں پر چڑھ جاتے ہیں۔

یہی بلوچ سردار ہیں جو اپنے بچوں کو آکسفورڈ او ر ہارورڈ بھیجتے ہیں مگر تضاد یہ ہے کہ جب یہ واپس آتے ہیں کہ تو اتنے ہی غاصب، متعصب اور ظالم ہوجاتے ہیں جیسے ان کے باپ، دادا اور پردادا۔ اپنے بچوں کو یورپ او ر امریکا بھیجنے والے جانتے ہیں کہ ان کے مزارعے اگر ڈاکٹر، انجینئر اور آئی ٹی ایکسپرٹ بن گئے تو ان کے قبضے سے نکل جائیں گے۔ پورے بلوچستان میں بلوچوں کی آبادی لاہور کے شائد نصف کے لگ بھگ ہو اور وفاق جتنی ان سرداروں کو رائلٹی دیتا ہے، جتنا یہاں ترقیاتی فنڈ دیا جاتا ہے یا بلوچستان کو این ایف سی ایوارڈ سے آبادی کی بجائے پسماندگی کی بنیاد پر خصوصی شئیر، یہ سب وہاں کی غریب آبادی میں تقسیم کر دیا جائے تو کسی کو بھی کمانے کی ضرورت نہ رہے۔

بلوچستان کا اصل مرض یہی سردار ہیں جو دوغلے ہیں، منافق ہیں اور مفاد پرست ہیں۔ یہ اپنے صوبے میں گوادر پورٹ نہیں بننے دینا چاہتے، یہ سی پیک کے تحت بڑی بڑی شاہراہیں نہیں چاہتے، یہ انڈسٹریل ایریاز نہیں چاہتے۔ یہ وہ بدبخت ہیں جو سبی ہرنائی اسی ریل ٹریک کو اڑا دیتے ہیں جو سبزیوں او رپھلوں کی تجارت کے ذریعے ان کے شہروں میں خوشی اور خوشحالی لاتا ہے۔

یہ ڈراوا دیتے ہیں کہ گوادر پورٹ اور سی پیک سے وہاں باہر کے لوگ آجائیں گے اور یہ اقلیت بن جائیں گے مگر اس وقت انہیں کوئی شرم نہیں آتی جب یہ بلوچ روزگار کے لئے پورے ملک میں پھیل جاتے ہیں اور دوسری قومیتوں کی خدمتیں کرکے روزگار کماتے ہیں، اسلام آبادسے لاہور اور پھر کراچی تک انہوں نے جو کوئٹہ چائے پراٹھا ہوٹل کھول رکھے ہیں کیا وہاں یہ اقلیت میں نہیں ہیں اور اگر یہ اقلیت میں نہیں ہیں تو بلوچی ہونے کی بنیادپر نہیں بلکہ پاکستانی ہونے کی بنیاد پر ہیں کہ ان کے ارد گرد پاکستانی ہی پاکستانی ہیں۔

اگر یہ دوسرے شہروں میں جا کے وہاں کے وسائل اور روزگار پر قبضہ کر لیں تو یہ ان کا حق ہے لیکن اگر کوئی پنجابی کوئٹہ میں رہ کے نسل در نسل ان کے بچوں کو پڑھا رہا ہے تو وہ غاصب ہے، غیر مقامی ہے۔ بلوچوں کا اصل مسئلہ ہی وہ ہے جو اکبربگتی اورانوارالحق کاکڑ کا رہا ہے، جب اقتدار میں ہوں تو پاکستان کے حامی ہوتے ہیں اور جب اقتدار سے باہر ہوں تو انہیں بلوچستانیوں کے ان حقوق کی فکر ستانے لگتی ہے جو یہ خود اقتدار میں ہوتے ہوئے نہیں دیتے۔

کسی نے کہاکہ ان سے بات چیت کی جائے، انہیں قومی دھارے میں لایا جائے مگر معذرت کے ساتھ میں مجھے وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے کہنا ہے کہ کبھی قاتلوں سے مذاکرات نہیں ہوتے، انہیں سزا دی جاتی ہے۔ کبھی دہشت گردوں سے بھی مذاکرات نہیں ہوتے بلکہ انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جاتا ہے کیونکہ دہشت گردی ان کا دھندا ہوتا ہے۔ مجھے بصد احترام کہنے دیجئے کہ یہ نفرت اور تعصب کے اس دھندے میں اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ ان کی ڈگریاں بھی ان کوشعور دینے میں اسی طرح ناکام ہیں جس طرح ایک سیاسی جماعت کے کارکن جو خود کو سب سے زیادہ پڑھے لکھے اور سمجھدار کہتے ہیں مگر حقیقت میں وہ ذہنی غلام اور شاہ دولہ کے چوہے ہیں۔

میں نے کہا کہ بیٹوں اور بھائیوں کے قاتلوں سے کبھی مذاکرات نہیں ہوتے اور طاقت کا طاقت کوئی دانش اور کوئی دلیل نہیں صرف طاقت ہی ہوتی ہے۔ ہمارے ارد گرد ایسی بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔ میں صرف حوالہ دوں گاکہ کیا چین نے اپنے اندر اٹھنے والی ایسی تحریکوں سے مذاکرات کئے اور اگر آپ اسے زیادہ بہتر طور پر سمجھنا چاہتے ہیں توکیا بھارت نے خالصتان اور ناگالینڈ کی تحریکوں کوبات چیت کے ذریعے نیست و نابود کیا۔ مثال تھوڑی تلخ سہی مگر نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کو بھی کسی آئین، کسی قانون، کسی اخلاقیات کے تحت اپنا اٹوٹ انگ نہیں بنایا بلکہ صرف اور صرف طاقت کے ذریعے وہاں اپنا راج قائم کیا ہے۔

ہمیں مشرقی پاکستان کی مثال سے نہیں ڈرنا چاہئے کہ عمران خان کی طرح وہاں بھی شیخ مجیب موجود تھا۔ ڈرنا اس لئے نہیں چاہئے کہ وہاں جغرافیائی حدود کا مسئلہ تھا اور بیچ میں انڈیا تھا۔ وہاں ہماری محدود فوج شیخ مجیب والے فتنے کا مقابلہ نہیں کر پائی تھی جب بھارت نے اپنی فوجیں اتار دی تھیں۔ بلوچستان میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں، وہاں کے نوے فیصد امن، ترقی اور خوشحالی چاہتے ہیں جبکہ ماہ رنگ بلوچ کے حامی پسماندگی اورتباہی۔

مجھے یہ بیان اچھا لگا ہے کہ کسی بلوچ نے کسی پنجابی کو نہیں مارا، دہشتگردوں نے پاکستانیوں کو مارا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ وہی سلوک کرنا ہے جو دہشت گردوں کے ساتھ کیا جاتا ہے، ان کے سہولت کاروں اور مددگاروں کے ساتھ کیا جاتا ہے یعنی ان کا بے رحم خاتمہ۔