میرے شہر کے تمام ٹیچنگ یعنی بڑے بڑے ہسپتال، جن میں جناح، میو، سروسز، چلڈرن، گنگارام وغیرہ سب کے سب شامل ہیں، ایک ہفتے سے زائد ہوگیا بند پڑے ہیں۔ ان کے شعبہ بیرونی مریضاں، میں ینگ ڈاکٹروں نے ہڑتال کر رکھی ہے۔ یہ بات نہیں کہ وہاں صرف ینگ ڈاکٹرز ہی ہوتے ہیں، وہاں پروفیسرز بھی ہوتے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ کام کا اصل بوجھ ینگ ڈاکٹروں نے ہی سنبھالا ہوتا ہے۔
وائے ڈی اے کے دو بڑے مطالبات ہیں، پہلا یہ کہ گجرات میں قتل ہونے والے ڈاکٹر ذیشان انور کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے۔ انہیں چند ہفتے پہلے سروس موڑ کے نزدیک گولیاں مار کے قتل کر دیا گیا تھا۔ وہ سی ایم ایچ میں کام کر رہے تھے۔ ینگ ڈاکٹروں نے یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ اس قتل میں دہشت گردی کی دفعات بھی لگائی جائیں۔ ان کا دوسرا بڑا مطالبہ لاہور کے کوٹ خواجہ سعید ہسپتال سے محکمہ صحت کی تانیہ نام کی ڈپٹی سیکرٹری کے دورے کے دوران معطل یا ٹرانسفر کئے جانے والے ڈاکٹروں کی بحالی ہے۔
حکومت کاکہنا ہے کہ ڈاکٹروں کی ٹرانسفر پوسٹنگ اس کا اختیار ہے اور اس پر کمپرومائز نہیں ہوسکتا لیکن دوسری طرف وائے ڈی اے کا کہنا ہے کہ ٹرانسفر پوسٹنگ کی باقاعدہ پالیسی ہونی چاہئے، یہ نہیں کہ ایک بیوروکریٹ کے دماغ میں کچھ فتور آیا اور اس نے نادرشاہی حکم جاری کردیا۔ اس ڈپٹی سیکرٹری کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ کسی سعدیہ نام کی سٹینو گرافر کی ملی بھگت سے وہاں پہنچی اور اسی کی ایما پر کارروائی کی۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ دونوں مطالبات ایسے نہیں ہیں کہ ان پر بات نہ ہوسکے اور کوئی راہ نہ نکالی جا سکے۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اگر یہ صورتحال کسی مہذب ملک اورمعاشرے میں ہوتی تو وہا ں کے حکام نے استعفیٰ دے دیا ہوتا یا غلط ہڑتال کے ذمے دار ڈاکٹروں کو گھر بھیج دیا گیا ہوتا۔
یہ ایشو ز ابھی موجود تھے کہ لاہور میں ہیلتھ رپورٹنگ کے حوالے سے سب سے معتبر نام میاں محمد نوید نے انکشاف کیا کہ محکمہ صحت میں ٹرانسفر پوسٹنگ کے لئے کسی میرٹ اور کسی پالیسی کی بجائے پرچیاں ڈالی جا رہی ہیں۔ مجھے بہت عجیب محسوس ہوا کہ آپ گھڑے میں کچھ نام ڈال دیں اور ان میں سے تعیناتیوں کے لئے پرچیاں نکال لیں۔ اب اس امر کی کیا گارنٹی ہے کہ گھڑے میں ڈالی گئی تمام پرچیوں یا نصف سے بھی زائد پرچیوں پر ایک ہی نام ہو۔ یہ عجیب قسم کی جعلسازی ہے۔ بتایا گیا کہ ایک جونیئر ڈاکٹر کی تقرری کے لئے یہ طریقہ کار اختیار کیا گیا او رمقاصد حاصل کر لئے گئے۔
میں حیران ہوں کہ پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم جیسے پروفیشنل اور بھلے آدمی کی ناک کے نیچے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ دروغ بہ گردن راوی، راوی اس میں صحافی بھی ہیں اور ڈاکٹر بھی کہ ڈاکٹر جاوید اکرم کہتے ہیں کہ میرے پاس تو اختیارات ہی نہیں ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ اگر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم کے پاس اختیارات نہیں ہیں تو پھر اختیارات کس کے پاس ہوں گے، ان کے وزیراعلیٰ کے ساتھ جس طرح کے قریبی اور خاندانی تعلقات ہیں ان کا گواہ پورا زمانہ ہے۔
میں نے پوری کوشش کی کہ میں محترم وزیر صحت کو وائے ڈی اے کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ کر سکوں۔ ان کا مؤقف تھا کہ وائے ڈی اے پہلے ہڑتال ختم کرے اور اس کے بعد بات چیت ہوگی اور وائے ڈی اے پنجاب کے صدر شعیب نیازی کا کہنا تھا کہ حکومت بات چیت شروع کرے، ان کے مطالبات پر پیش رفت کرے، ہڑتال ختم ہو جائے گی۔ انہوں نے پیر کی رات ساڑھے آٹھ بجے یہ پیشکش بھی کی کہ ان کے ساتھ رات دو بجے مذاکرات کئے جائیں تو وہ اس کے لئے بھی تیار ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ منگل کے روز او پی ڈیز کے باہر مریضوں کو دیکھنا شروع کر دیتے ہیں، حکومت بات چیت شروع کر دے مگر وزیر صحت کا کہنا تھا کہ اگر کمروں سے باہر مریض دیکھے گئے تو ٹیسٹ اور ایکسرے کیسے ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے ہڑتال ختم کی جائے جیسے پہلے کی گئی تھی اوراس کے بعد وزیر اعلیٰ، وائے ڈی اے سے مل لیں گے جیسا کہ پچھلی مرتبہ ہڑتال ختم ہونے کے بعد اگلے ہی روز لیڈی ولنگٹن ہسپتال میں ملے تھے، جواب در جواب تھا کہ جس ڈاکٹروں کی سیکورٹی کے حوالے سے آرڈیننس اور الاؤنسز کے حکومت کی طرف سے کئے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے۔ آج اس پیشہ وارانہ سیاست کی وجہ سے مشکلات کا شکار وہ غریب آدمی ہے جو پبلک ٹرانسپورٹ میں دھکے کھا کے اپنے اور اپنے پیاروں کے علاج کے لئے ہسپتال آتا ہے مگر جواب میں اسے تالے لگے ہوئے ملتے ہیں۔
وائے ڈی اے کا یہاں ایک اور دلچسپ مؤقف ہے، وہ کہتی ہے کہ ہم نے ہسپتال کیا بند کرنے ہیں، اس وقت تمام ہسپتال پہلے ہی ٹائلیں لگانے کے لئے بند ہیں۔ وہ تنقید کرتے ہیں کہ ہسپتالوں میں ادویات ہونی چاہئیں، مشینری، بیڈزا ور ڈاکٹرز ہونے چاہئیں مگر حکومت کا زور پرانی عمارتوں پر ٹائلیں لگانے پر ہے۔ ڈاکٹرز خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ جس دھماکے دار انداز میں کام ہو رہا ہے، سروسز کے بعد گنگارام کی بھی پچھلی صدی کی بنی عمارت (خدانخواستہ) گر سکتی ہے۔
میرے پاس اطلاعات موجود ہیں کہ نگران حکومت، وائے ڈی اے کے ہڑتالی رہنماؤں کے خلاف سخت کارروائی کرنا چاہتی ہے مگر کچھ سمجھدار لوگوں نے اسے روکا ہوا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ کچھ ہی عرصے میں یہ وائے ڈی اے کی کوئی چھٹی ہڑتال ہے جو انتہائی نامناسب اور تکلیف دہ ہے مگر کوئی اچھا سمجھے یا برا، میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اب کچھ ماہ پہلے والی صورتحال نہیں ہے۔ کئی دھڑوں میں تقسیم وائے ڈی اے متحد ہو چکی ہے۔
وائے ڈی اے والے ڈاکٹر شعیب نیازی کومتفقہ صدر بنا چکے ہیں۔ اب اگر حکومت نے ینگ ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی کی تو ہسپتال مکمل طور پر بند ہو جائیں گے۔ میں شہباز شریف کے دور میں بھی ا س قسم کی مہم جوئی کے نتائج دیکھ چکا ہوں لہٰذا سب سے بہتر اور مناسب یہی ہے کہ افہام و تفہیم اور مذاکرات سے معاملات طے کر لئے جائیں۔ میں وزیر صحت پنجاب کا اس دعوت پر شکرگزار ہوں کہ میں اس معاملے میں بیچ میں آوں مگر میں سمجھتا ہوں کہ پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم اور ینگ ڈاکٹرز کے درمیان کوئی نہیں آ سکتا۔ ان کا رشتہ سب سے الگ اور سب سے مضبوط ہے۔
میں نہیں جانتا کہ اس وقت معاملات کو خواہ مخواہ کیوں الجھایا جا رہا ہے۔ اسے شعیب نیازی کی صدارت کا ٹیسٹ کیس بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جس طرح علاقے میں نیا تھانیدار آتا ہے اور کہتا ہے کہ سب کو لمے پا کے چھتر مارو تاکہ پتا چلے کی نواں تھانے دار آیا ہے اور اسی طرح ہمارا بھائی شعیب نیازی سب کو بتانا چاہ رہا ہے کہ اب ہسپتالوں کا وڈا تھانے دار وہ ہے، جب چاہے گا کھول دے گا جب چاہے گا بند کردے گا۔