ہمارے سیاسی رہنما کہتے ہیں کہ انہیں آٹھ فروری کوملک میں صاف او ر شفاف انتخابات چاہئیں۔ یہ مطالبہ کرنے میں اس وقت سب سے آگے پاکستان تحریک انصاف ہے اوراس کے بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین لیول پلئینگ فیلڈ کے مطالبے کے ساتھ میدان میں موجود ہیں۔ وہ میاں نواز شریف کو اپنی جگہ جگہ کی ہوئی تقریروں میں لاڈلا کہہ رہے ہیں۔
پہلے پی ٹی آئی کی بات کر لیتے ہیں کہ اسے جس قسم کے انتخابات پانچ سال پہلے پلیٹ میں رکھ کر پیش کئے گئے اب اگر وہی کسی دوسرے کو پیش کئے جا رہے ہیں تو اس پر نالاں ہے۔ آپ کا پارٹی رہنما اگر نااہل ہے اور جیل میں ہے تویہ لیول پلئینگ فیلڈ نہیں ہے، ظلم ہے، زیادتی ہے، ناانصافی ہے لیکن اگر آپ کامخالف اپنی بیٹی کے ساتھ جیل میں تھا تو یہ عین آئینی تھا، قانونی تھا، جمہوری تھا، ہیں جی، آپ کریں تو رام لِیلا، دوجے کریں تو کریکٹر ڈِھیلا؟
میرا اصل مقدمہ دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات نہیں، نہ ہی اس سے پہلے ہونے والے کوئی دوسرے عام انتخابات۔ میرا مقدمہ تحریک انصاف، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ نون، اے این پی، جے یو آئی سمیت تمام دیگر جماعتوں میں ہونے والے انٹرا پارٹی الیکشن کے گرد گھومتا ہے۔ یہ وہ انتخابات ہیں جن پر پارٹی رہنماؤں کا اپناکنٹرول ہوتا ہے۔ آپ ہی بتائیے، جمہوری انتخابات مانگنے والی پی ٹی آئی میں خود کتنی جمہوریت ہے۔
میں بہت پہلے کی بات نہیں کرتا، سب کو یاد ہوگا کہ جاوید ہاشمی کو پی ٹی آئی کا صدر منتخب کیا گیا تھا مگر موصوف کو ایک روز جس طرح نکالا گیا تھا اس طرح کسی چپڑاسی کو بھی نہیں نکالا جاتا۔ پی ٹی آئی کتنی نظریاتی جماعت ہے اس سے ہی اندازہ لگا لیجئے کہ جس چوہدری پرویز الٰہی کواس کے قائد محترم پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے، ایک روز انہیں ہی پارٹی کا صدر نصب کر دیا اور مجال ہے کہ کسی نے چیں، چُوں یا چاں کی ہو۔ پڑھوں لکھوں پرمشتمل، میرٹ کی دعوے دار اس پارٹی نے میرا آدھے سے زیادہ پاکستان ایک گونگلو، ایک لوٹے کے حوالے کر دیا مگر کسی شرم تک نہ آئی۔ ویسے اس وقت اس پارٹی کی نظریاتی حیثیت یہ ہے کہ اس کا نامزد چئیرمین اور وائس چیئرمین پیپلز پارٹی سے آئے ہوئے ہیں اور صدر قاف لیگ کا ہے۔
میں نے بات پی ٹی آئی کے نامزد چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کے حوالے سے کرنی ہے۔ موصوف گذشتہ برس ستمبر میں پارٹی میں شامل ہوئے تھے اور آج پارٹی کے سب سے طاقتور عہدے پر کٹھ پتلی کی طرح براجمان ہونے جا رہے ہیں۔ ملک میں صاف اور شفاف انتخابات مانگنے والے، حقیقی جمہوری نمائندگی کے لئے تڑپنے والے سارے کے سارے آج جمع ہو کے بیرسٹر گوہر کو پارٹی کا چیئرمین منتخب کر لیں گے اور کوئی سوال نہیں کرے گا کہ انہیں ان پر کیوں مسلط کیا جا رہا ہے، ان کی نظریاتی جدوجہد کیا ہے، ان کی پارٹی کے لئے قربانیاں کیا ہیں۔
پی ٹی آئی نے باقی عہدوں پر ناموں کو خفیہ رکھا ہوا ہے اور یہ امر واضح ہے کہ وہاں بھی الیکشن نہیں بلکہ سلیکشن ہی ہوگی، یہ سب مسلطین ہی ہوں گے۔ سو پیارے پیارے سوشل میڈیائی انقلابیو! جب تم اپنی پارٹی کے اندر سلیکشن کے خلاف اور حقیقی جمہوری انتخاب کے لئے احتجاج نہیں کرتے تو تمہیں ملک میں حقیقی جمہوریت اور شفاف الیکشن کے لئے شور مچانے کا کیا حق ہے۔ پہلے اپنا کردار تو ٹھیک کرو، پہلے خود نماز پڑھو پھر دوسروں سے بھی پڑھوا لینا۔
بات صرف تحریک انصاف کی نہیں، پیپلز پارٹی میں بھی یہی سب کچھ ہے اورمسلم لیگ نون میں بھی۔ پارٹی کے سربراہ جنرل کونسل کے ارکان کونامزد کرتے ہیں اور وہ جواب میں انہیں پارٹی کا سربراہ منتخب کر لیتے ہیں۔ تم مجھے دو میں تمہیں دیتا ہوں۔ بات صرف پارٹی صدر منتخب ہونے تک کی نہیں، میں نے مسلم لیگ نون ہی نہیں مسلم لیگ قاف تک میں الیکشن ہوتے ہوئے دیکھے۔ جنرل کونسل کے نام پر ایک ہجوم اکٹھا کیا گیا اور اس نے ہاتھ اٹھا کے پارٹی صدر ہی منتخب نہیں کیا بلکہ باقی تمام عہدوں پر عہدیدار نامزد کرنے کا اختیار بھی دے دیا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ الیکشن کمیشن ہی نہیں بلکہ عدلیہ اور میڈیا بھی یہ سارا ڈراما دیکھ رہے ہوتے ہیں مگر کوئی اس کانوٹس نہیں لیتا کہ یہ کیا دھاندلی ہے۔ کوئی اس پر بات نہیں کرتاکہ جیسی جمہوریت تم اپنی پارٹیوں میں اپنے کارکنوں کو دیتے ہو ویسی ہی اگر ملک میں ملے تو اس پر چیخیں کیوں مارتے ہو۔ کیا کہا، سیاسی جماعتوں میں ایسی ہی جمہوریت ہوتی ہے اور میرا سوال ہے کہ اگر یہی کچھ جمہوریت ہے تو پھر آمریت کیا ہے۔
میرے ملک میں سب سے زیادہ جمہوری جماعت ہونے کی دعوے دار جماعت اسلامی ہے مگر خدا لگتی کہوں تو اس کا امیر بھی منتخب ہونے کے بعد آمر بن جاتا ہے۔ اس کو ڈھیر سارے اختیارات مل جاتے ہیں اور پھر اسی کے فیصلے چلتے ہیں چاہے وہ درست ہوں یا غلط، امیر کی اطاعت لازم ہو جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ مجلس شوریٰ اور مجلس عاملہ میں سخت تنقید ہوتی ہے مگرسچ یہ ہے کہ اس کے بعد بھی کچھ نہیں ہوتا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ پارٹیاں فوج سے جمہوریت مانگتی ہیں جن کے اپنے اندر آمریت ہے، میرٹ سے روگردانی ہے، اختلافی بات کہنے تک کی آزادی نہیں۔ میں پورے چیلنج سے کہتا ہوں کہ جس فوج سے یہ پارٹیاں جمہوریت مانگ رہی ہیں اس فوج میں ان سے بڑھ کے جمہوریت اور میرٹ ہے۔ وہاں ایک عام فوجی یا سویلین کا بیٹا بھی آرمی چیف بن سکتا ہے لیکن کیا تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون سمیت دیگر جماعتیں اپنے عام کارکنوں کویہ حق دیتی ہیں کہ وہ کبھی پارٹی کی اعلیٰ کمان تک پہنچنے کے خواب بھی دیکھیں۔
یقین کیجئے، کور کمیٹیوں سے زیادہ بحث تو کور کمانڈروں میں ہو جاتی ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں میں جوجتنا اوپر جانا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اتنا ہی اچھا مالشیا بھی ہو۔ یہاں تیسری، تیسری نسلیں حکمرانی کے لئے تیار ہو رہی ہیں اور جس فوج پر آمریت کا الزام لگا یا جاتا ہے وہاں تومیں نے کسی ایوب خان، کسی ضیاء الحق اور کسی پرویز مشرف کے بیٹے یا بیٹی کوباپ کی جگہ پرپاک فوج کا سپہ سالار بنتے ہوئے نہیں دیکھاحتیٰ کہ ایک کور کمانڈ بنتے تک نہیں دیکھا۔ سو یہ سب جو اس وقت ملک میں صاف اور شفاف الیکشن مانگ رہے ہیں کیا اپنی اپنی پارٹیوں کے مرکز، صوبوں اور ضلعوں میں جمہوریت لانے کے لئے تیار ہیں، صاف اور شفاف انتخابات کروانے کے لئے تیار ہیں؟
سو پیارے قارئین! ان تمام سیاسی رہنماوں کو ملک میں حقیقی جمہوریت اور شفاف انتخابات بہت سختی سے آئے ہوئے ہیں جن کا انہوں نے اپنی اپنی پارٹیوں میں داخلہ ممنوع قرار دے رکھا ہے بلکہ انہیں عشق ممنوع بنا رکھا ہے۔ میں اپنے ملک کی پانچ بڑی سیاسی جماعتوں کو کھلی ڈلی پیشکش کرتا ہوں کہ تم اپنے عہدوں اور عہدیداروں میں فوج جتنا میرٹ اور شفافیت لے آو، میں تمہیں فوج سے مکمل آئینی اور کتابی جمہوریت لے دوں گا، ہے کوئی چیلنج قبول کرنے والا؟