میں ذاتی طور پرقائل ہوں کہ انتخابات ہوں، مردم شماری ہو، اردو کا نفاذ ہو یا صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم ہرمعاملے میں آئین پر عمل ہونا چاہئے۔ میں اس خطرے سے بھی آگاہ ہوں کہ آپ ایک مرتبہ آئین کی حدودسے باہر نکل جاتے ہیں تو پھر اس کی کوئی حد اور کوئی اختتام نہیں ہے لہذا انتخابات کے سلسلے میں بھی آئین پرہی عمل ہونا چاہئے لیکن کیا اس سے ہٹ کر جو سوالات اٹھائے جا رہے ہیں ان کی اہمیت اور وزن سے انکار کیا جا سکتا ہے مثال کے طور پر میرا سوال ہے کہ آئین اسمبلیوں کو پانچ برس کی مدت کے لئے منتخب کرواتا ہے اور ایسی کون سی وجہ ہوگئی کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کو توڑ دیا گیا۔
کیا ان اسمبلیوں کے ذریعے حکومتیں موجود نہیں تھیں اور کوئی بحران تھا، ایسا ہرگز نہیں تھا۔ کیا یہ اسمبلیاں قانون سازی نہیں کر رہی تھیں تو اس کا جواب ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی اور راجا بشارت کا تو کہنا ہے کہ وہ غیر معمولی حد تک قانون سازی کر رہے تھے۔ جب اسمبلیاں آئین کے مطابق کام بھی کر رہی تھیں، جب ان کے ذریعے حکومتیں بھی قائم تھیں اور وزرائے اعلیٰ سمیت کابینہ ہی نہیں ایوان کی بھاری اکثریت بھی اسمبلیاں توڑنے کے حق میں نہیں تھی تو پھر یقینی طور پر ان اسمبلیوں کا توڑا جانا ہی غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر سیاسی تھا۔
میری رائے ہے کہ کسی بھی وزیراعلیٰ (یا قومی اسمبلی کی صورت میں وزیراعظم) کو یہ اہم ترین فیصلہ کرتے ہوئے ا س امر کا پابند کیا جانا چاہئے جس میں وہ ثابت کرے کہ ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ اسمبلیاں نہیں چل پار ہیں یا ان کا توڑا جانا ہی ملکی اور قومی مفاد میں ہے۔ یاد رکھیں کہ انتخابات مفت نہیں ہوتے۔ ان پر عوام کے (یا دوسرے ملکو ں اور اداروں سے لئے ہوئے قرضوں کے) اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ یہ کسی شخص کی عیاشی نہیں کہ وہ انہیں پھونک دے۔
جب ریاستی عہدوں پر بیٹھے ہوئے سرکاری اور غیر سرکاری لوگ ایک ایک روپے کے خرچ کا جواز دیتے ہیں تو اربوں روپے کا یہ ضیاع کیسے ایک شخص کی صوابدید پر چھوڑا جا سکتا ہے؟ اس قانون سازی کی تمثیل ہمیں اس صدارتی اختیار سے ملتی ہے جو اٹھاون ٹو بی کی صورت موجود تھا اور صدر مملکت کو اسمبلیاں برخواست کرنے کے لئے ایسے حالات کا ثابت کرنا ضروری تھا۔
چلیں، ایک او ر سوال سامنے رکھ لیتے ہیں جو پاکستان کی تاریخ کے سیاسی اور جمہوری لیجنڈز اٹھا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب وفاق میں پی ڈی ایم کی حکومت ہوگی تو دوصوبوں میں ہونے والے انتخابات پر اثرانداز ہونے کا سوال پیدا ہوگا اور عمران خان اپنی روایت کے مطابق ہارنے پر اس الیکشن کو تسلیم نہیں کریں گے۔
میری نظر میں عمران خان کا تسلیم کرنا یا نہ کرنا ان کی اب تک کی سیاسی روایات کے مطابق اہم نہیں کیونکہ وہ انتخابات کوجیت کر بھی تسلیم نہیں کرتے مگر سوال یہ ہے کہ جب اکتوبر میں عام انتخابات ہوں گے تو اس وقت اگر خیبرپختونخوا اور پنجاب میں بھی نگران کی بجائے پی ٹی آئی کی حکومتیں ہوئیں تو کیا ان کی انتظامیہ میں ہونے والے انتخابات کی شفافیت مسلم لیگ نون، پیپلزپارٹی، جے یو آئی اور اے این پی جیسی پارلیمانی قوتیں ہارنے کی صورت میں تسلیم کریں گی، ایسا نہیں ہوگا۔ ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی وقت میں ہونے چاہئیں۔
تیسرا اہم سوال خیبرپختونخوا میں امن و امان کا ہے۔ وہاں دہشت گردی عام ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ابھی چند روز پہلے وہاں ایسی دہشت گردی ہوئی جس میں سو سے زائد جانیں چلی گئیں۔ ہمیں خیبرپختونخوا میں پچھلے دونوں انتخابات میں پیپلزپارٹی اور اے این پی جیسی اہم جماعتوں کی شکایات ملیں کہ وہ انتخابی مہم نہیں چلا پا رہیں۔ ان جماعتوں کے رہنماوں نے اپنے پیاروں کی جانوں کی قربانیاں بھی دیں۔
میری رائے ہے کہ جہاں انتخابات ضروری ہیں وہاں ان میں سب کے لئے حصہ لینے کا یکساں موقع ہونا اس سے بھی ضروری ہے ورنہ ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ہماری سیکورٹی ایجنسیوں کورائے دینی ہوگی کہ کیا وہ انتخابات کے موقعے پر امن و امان کو یقینی بنا سکیں گی؟
اس سے اگلا سوال مردم شماری کا ہے۔ اگر انتخابات مقررہ مدت میں ہونے ضروری ہیں تو مردم شماری ہونی بھی ضروری ہے تاکہ نمائندگی سے وسائل کی تقسیم تک کے معاملات طے ہوسکیں۔ آج سے پانچ برس پہلے ہونے والی مردم شماری خود پی ٹی آئی کی حکومت میں مسترد کی جا چکی ہے اور عمران خان کی وزارت عظمیٰ میں مشترکا مفادات کی کونسل کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ اگلے انتخابات نئی مردم شماری کے مطابق ہوں گے جو ڈیجیٹل ہوگی۔
اس مردم شماری کے لئے یکم مارچ سے یکم اپریل تک کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ ایک ماہ میں نتائج مرتب ہوں گے اوراس کے بعد ڈیڑھ ماہ میں نئی حلقہ بندیاں ہوں گی لہذا ایسی صورت میں آج سے اڑتیس برس پرانی مردم شماری پر نئے انتخابات کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ اس کے لئے اگر مناسب انتظار کر لیا جائے تو یہ عین آئینی اور منطقی ہوگا۔
میں تویہ بھی کہتا ہوں کہ ایک فرد واحد یعنی عمران خان کی خواہش پر انتخابات کیوں ہوں جب خود ان کی پارلیمانی پارٹی، ان کی اپنی سیاسی پارٹی اور اتحادی ان سے متفق نہیں ہیں۔ وہ غلط فیصلے کرنے کے نئے ریکارڈ قائم کرچکے ہیں۔ انہوں نے قومی اسمبلی سے بھی استعفے دئیے اور پھر واپس لینے کی کوشش کی۔ ان کی پارٹی کو ان پر نظر رکھنی چاہئے کہ وہ پھر کوئی نیا الٹا سیدھا اعلان نہ کر دیں، ان کے ساتھیوں کو انہیں فیصلوں میں مشاورت دینی چاہئے۔
اگر ہم نوے روز کی آئینی مدت پر جاتے ہیں تو انتخابات رمضان المبارک میں ہوں گے جس میں انتخابی مہم چلانا، اس کے بعد سارا دن پولنگ اورووٹوں کی گنتی آسان کام نہیں ہوگا۔ روزے کی حالت میں لوگوں کو غصہ بھی زیادہ آتا ہے وہ پانی، چائے بھی نہیں پی سکتے۔
ہمیں اس امر کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے کہ ہماری انتخابی مہم بہت زیادہ اخلاقی بھی نہیں ہوتی تو ہم رمضان المبارک کے تقدس کو کیوں خراب کرنا چاہتے ہیں اور اب میں سب سے اہم اور بڑا سوال کرنے لگا ہوں کہ جب ہماری اقتصادی حالت اتنی خراب ہے کہ ڈیفالٹ کے کنارے پر کھڑے ہیں تو ہمیں انتخابات کی عیاشی کو چند ماہ کے لئے ملتوی کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے خاص طور پر جب اکتوبر میں ویسے ہی عام انتخابات ہونے ہوں۔
الیکشن کمیشن کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخا بات کے لئے اربوں روپے درکار ہیں اور ایک بہت بڑی محنت بھی۔ یہ خرچ اور محنت پھر اکتوبر میں ہوگا تو اسے اکٹھا کیوں نہ کر لیا جائے۔ عمران خان نے جہاں گذشتہ برس اپریل سے اب تک کا انتظار کیا ہے انہیں کہا جائے کہ وہ کچھ اور انتظار کر لیں اور فی الحال اپنے مقدمات کی طرف توجہ دیں۔
کہا جا رہا ہے کہ تین بڑے مقدمات آنے والے ہیں اور یہ بھی کہ صرف وہ نااہل نہیں ہونے والے بلکہ ان کی پارٹی بھی بین ہونے والی ہے۔ پھر وہ خود کہیں گے کہ ابھی انتخابات نہ کروائیں، پہلے مجھے ریلیف دیں۔