مجھے ربع صدی پہلے سیاست کے لیجنڈ نوابزادہ نصراللہ خان کے ساتھ نکلسن روڈ پر ان کے ڈیرے پر ہونے والی ملاقاتیں اور باتیں یاد آ گئیں۔ نواز شریف اس وقت دو تہائی اکثریت کے ساتھ وزیراعظم تھے اور اپنی مقبولیت کے زعم میں گرفتار۔ نوابزادہ نصراللہ خان اپوزیشن اتحاد جی ڈی اے کے سربراہ تھے جسے پرویزمشرف کے مارشل لا کے بعد اے آر ڈی کا نام دیا گیا تھا۔
نوابزادہ نصراللہ خان سے سیاسی بحث میں جیتنا قریب قریب ناممکن تھا۔ وہ ماضی کے حوالوں اور ادبی چاشنی کے ساتھ ایسے دلائل دیتے تھے کہ مخالف لاجواب رہ جاتا تھا۔ میں نوجوان صحافی تھا اور سمجھتا تھا کہ میں اپنی صحافت سے دنیا بدل سکتا ہوں۔ میں نے ان سے بارہا پوچھا، نواب صاحب، اے تے دسو، بے نظیر وی مسترد ہوگئی، ہون نواز شریف دامتبادل کون اے،۔ نواب صاحب کا ہمیں مزے دار چائے پلاتے ہوئے ایک ہی جواب ہوا کرتا تھا کہ اے سوال پاکستان کے پندرہ کروڑ عوام دی توہین اے کہ اوہنا ں چوں ہک وی نواز شریف دا متبادل نہ ہووے۔
میں نے پچھلے کالم میں صنعتکاروں اور تاجروں کی مشکلات پر کھل کے بات کی۔ میں کل کے بارے نہیں جانتا مگر مجھے یہ کہنے میں بھی عار نہیں کہ اسحق ڈار اپنے دعووں کو پورا کرنے میں اب تک ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے گذشتہ روز ایک دھواں دار خطاب بھی کیا جس میں انہوں نے عمران خان کے دور کی ناکامیوں پر اعداد وشمار کے ساتھ روشنی ڈالی۔
ہم عمران خان کے دور کو کب کامیاب سمجھتے ہیں اور ہمیشہ اس پر تنقید کرتے رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم حکومت نے دس ماہ میں کون سا تیر چلا لیا ہے۔ کیا یہ بات عجیب نہیں کہ اب لوگ مفتاح اسماعیل کو اسحق ڈار سے بہتر وزیر خزانہ قرار دے رہے ہیں حالانکہ انہوں نے بھی آئی ایم ایف کو راضی کرنے کے لئے مہنگائی کی، بجلی اور پٹرول کے نرخ آسما ن پر لے گئے۔
یہ ہماری عمومی نفسیات ہے کہ ہم غیر موجود کو موجود سے برتراور بہتر سمجھتے ہیں اور اب سوال یہی ہے کہ اگر اسحق ڈار نہ ہو تو کون ہوجو ملکی معیشت کو ایسے سنبھالا دے کہ غریب بھی مزید غریب نہ ہو اور امیر کی بھی مزید چیخیں نہ نکلیں۔ کوئی تو ہو جو ڈالر کی اڑان روک سکے جس کے بارے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ تین سو روپوں پر جا سکتا ہے۔ ویسے یہ خدشہ اسی وقت ظاہر کر دیا گیا تھا جب عمران خان آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑ رہے تھے۔
میں اسحق ڈار کے خطاب کو پروپیگنڈہ کی حکمت عملی سمجھتا ہوں اور اگر عمران خان اس جگہ ہوتے تو وہ اس سے دس گنا بڑا پروپیگنڈہ بلکہ مخالفین کا پورا سیاپا اورماتم کر رہے ہوتے، اپنی ہر ناکامی اور نالائقی کی ذمہ داری ان پر عائد کررہے ہوتے۔
مفتاح اسماعیل وزارت سے نکالے جانے پر ناراض ہیں اور پورے نواز شریف بنے ہوئے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا۔ اسحق ڈار اور مفتاح اسماعیل آپس میں کمبی نیشن اور ورکنگ ریلیشن شپ بنا کے کام چلا سکتے تھے مگر دونوں کے پرسنالیٹی کلیشز، ہی بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔ د ونوں ایک دوسرے کے لئے ننگی تلواریں بنے ہوئے ہیں اور جس طرح ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں اسی طرح ایک حکومت میں دو وزیر خزانہ بھی نہیں رہ سکتے۔
مفتاح اسماعیل نے ہی کہا ہے کہ اسحق ڈار نے آئی ایم ایف سے جان چھڑانے کے چکر میں ملک کو دوبارہ مشکل میں ڈال دیا تو مجھے اسحق ڈار اچھے لگے۔ ہم عام پاکستانی شہری یا صحافی یہی خواب دیکھتے ہیں کہ ہمارا ملک قرضوں کے بغیر چلے کہ پہلے ہی عمران خان بغیر کسی میگا پراجیکٹ اور ڈیویلپمنٹ کے قرضوں کی انت مچا گئے ہیں۔
مجھے لگا کہ انہوں نے حب الوطنی سے کام لیا مگر مسئلہ زیادہ گھمبیر ہے اور اس وقت ملک آئی ایم ایف کے بغیر نہیں چل سکتا لہذا ہمیں اس بین الاقوامی ساہو کار کے پاس دوبارہ جانا ہوگا تاکہ گھر کا خرچہ چلا سکیں بلکہ زیادہ سچی بات تو یہ ہے کہ ان قرضوں کو ادا کر سکیں جن کا ستر فیصد عمران خان نے لیا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ ہم سب مشکل میں ہیں۔ ہمارے گھروں کے خرچے پورے ہونے ناممکن ہورہے ہیں۔ ہمارے ارب پتی بھی سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
اس پوری صورتحال میں اب میں دوبارہ اس سوال پر آتاہوں کہ اسحق ڈار کا متبادل کیا ہو اور اس پر بھی رائے رکھتا ہوں کہ عوامی، جمہوری اور مقبول لیڈروں کا کچھ متبادل نہیں ہوتا۔ اسحق ڈار کے متبادل کی سی وی مانگتے ہوئے ہمیں غور کرنا ہوگا کہ ان سے بہتر کون ہے۔ یہ اسحق ڈار ہی تھے جنہوں نے ملک میں ڈیویلپمنٹ اور میگاپراجیکٹس کے لئے خزانہ دستیاب کیا۔
یہ اسحق ڈار ہی تھے جوپیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہونے کے بعد آصف زرداری کی بھی پہلی چوائس بنے۔ یہ اسحق ڈار ہی تھے جنہوں نے ا س سے پہلے آئی ایم ایف کا پروگرام کامیابی سے مکمل کیا۔ یہ اسحق ڈار ہی تھے جنہوں نے ڈالر کو پہلے بھی نتھ ڈالی اور اسے شیخ رشید کے سیاست چھوڑنے کے چیلنج پر سو روپوں سے بھی نیچے لے گئے مگر شیخ رشید نے سیاست نہ چھوڑی۔
یہ اسحق ڈار ہی تھے جن کی وزارت خزانہ میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب کے لئے فنڈز فراہم کئے گئے اور انہی کے دور میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لئے بجلی کے کارخانے لگے۔ اسحق ڈار ہی پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ کو چھ فیصد کے قریب لے گئے۔ پاکستان دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی دس معیشتوں میں شامل ہوا۔ یہ اسحق ڈار ہی تھے جنہوں جو پاکستان کو تاریخ کی کم ترین انفلیشن (مہنگائی) پر لے گئے۔
اگر آپ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوتے ہیں کہ پاکستان ان دس ماہ میں تباہ ہوا تو آپ کو امپورٹڈ شوکت ترین اور امپورٹڈ حفیظ پاشا کی کارکردگی ضرور دیکھنی چاہئے۔ آپ کو اسد عمر کی ناکامیوں کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے جن پر خود ان کی پارٹی اور لیڈر نے عدم اعتماد کیا۔
اگر ہمارے پاس متبادل وہ ہیں جنہوں نے پاکستان کو بدترین قرضوں کو دلدل میں پہنچا دیا، پاکستان میں کرپشن تیزی سے نیچے جاتا ہوا انڈیکس دوبارہ اوپر پہنچا دیا، پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں ہی نہیں دوست ممالک کے سامنے بھی جھوٹا، نوسر باز اور نکو بنا دیا، پاکستان کو کسی میگا پراجیکٹ، ڈویلپمنٹ اور امید کے بغیر چھوڑ گئے تو میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ بخشو بی بلی، چوہا لنڈورا ہی بھلا۔
ہمیں اس عطار کے لونڈے سے دوا نہیں لینی جس کے باعث ہم بیمار ہوئے۔ بندر کے ہاتھ میں ماچس آئی توا س نے جنگل کوآگ لگا دی او راب ہم سب بندر کی چھترول کرنے کی بجائے شیر کی کلاس لے رہے ہیں کہ تم کیسے شیر ہو جوجنگل کی آگ نہیں بجھا پا رہے۔