Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Nai Baat/
    3. Khan Sahab Ko Siasat Aajaye Gi

    Khan Sahab Ko Siasat Aajaye Gi

    ہمارے پی ٹی آئی کے دوست مرچیں چبا رہے ہیں کہ سپپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے ان کے ارکان اسمبلی کے استعفے منظور کیوں کیے اور جب ان سے پوچھا جائے کہ انہوں نے استعفے دئیے ہی کیوں تھے تو بغلیں بجانے لگتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ استعفے سسٹم کو ڈی ریل کرنے کے لئے دئیے گئے تھے اور سمجھا گیا تھا کہ جس طرح دھرنوں کے دوران مقتدر حلقوں کی پشت پناہی کی وجہ سے اس وقت کی سیاسی بلیک میلنگ میں کامیاب ہوگئے تھے اس مرتبہ بھی یہ داؤچل جائے گا مگر فرق لاڈلا ہونے، نہ ہونے میں ہوتا ہے۔

    لاڈلا داڑھی نوچے تو اسے چوما جاتا ہے جو لاڈلا نہ ہو وہ داڑھی کوپڑے تو اسے تھپڑ پڑتے ہیں۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو بہت دیر سے سمجھ آئی کہ وہ لاڈلے نہیں رہے۔ میرے ذرائع کہتے ہیں کہ اس حقیقت کو بتانے اور سمجھانے میں صدر عارف علوی کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے جنہوں نے انہیں دوبارہ لاڈلا بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی، اپنے منصب کی شان کے خلاف بھی گئے مگر کامیاب نہ ہوئے۔

    جب ان کو سمجھ آئی کہ یہ لاڈلے نہیں رہے تب تک پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا تھا۔ سپیکر قومی اسمبلی نے بعض حلقوں کے مطابق یہ بھی ظلم کیا کہ ان کے استعفے گذشتہ برس اپریل سے ہی منظور کر لئے لہذا وہ سب لوگ جو اس کے بعد تنخواہوں سمیت کچھ بھی مراعات لے رہے تھے ان سب کے لئے لازم ہوگیا کہ وہ سب واپس کریں، اب اگر وہ سب واپس نہیں کریں گے تو ڈیفالٹر قرار پائیں گے اوراس کے نتیجے میں الیکشن کے لئے نااہل۔

    میرے خیال میں ان کے لئے آٹھ، دس ماہ کی تنخواہیں وغیرہ واپس کرنا کوئی بہت بڑا ایشو نہیں ہے کیونکہ ماشا اللہ تمام ارکان اسمبلی کے اچھے خاصے مالدار ہیں مگر اصل چیخیں تو اس وقت نکلنی شروع ہوئی ہیں جب عمران خان نے ان استعفوں کے منظور ہونے کے بعد انہیں حکم دیا ہے کہ وہ دوبارہ اسی اسمبلی کی رکنیت کے لئے الیکشن لڑیں۔ خانصاحب کو بہت دیر کے بعد سمجھ آئی کہ اگر وہ سسٹم کا حصہ نہیں رہیں گے توجہاں انہوں نے چئیرمین نیب کی تقرری یا نیب قوانین میں ترامیم کے موقعے پر آئینی اختیارات کی ٹرین مس کی وہ اگست میں نگران حکومت کے قیام کے وقت بھی مشاورت سے باہر ہوں گے۔

    نگران حکومت لیڈر آف دی اپوزیشن راجا ریاض اور لیڈر آف دی ہاؤس شہباز شریف کی مشاورت سے بن جائے گی۔ جب عمران خان کو یہ سمجھ آئی اس وقت تک سو کے قریب استعفے منظور ہوچکے تھے۔ پی ٹی آئی کے ارکان کو زمان پارک سے ہدایات ملنے کے بعد قومی اسمبلی سے الیکشن کمیشن تک ہر جگہ دوڑایا گیا، ای میلیں کھڑکائی گئیں مگر سپیکر نے باقی ماندہ استعفے بھی منظور کر لئے۔

    اب عمران خان چاہتے ہیں کہ ان کے مستعفی ارکان دوبارہ اسی قومی اسمبلی کا الیکشن لڑیں تاکہ لیڈر آف دی اپوزیشن اپنا بنایا جا سکے جو نگران حکومت کے قیام کے وقت وزیراعظم کو ٹف ٹائم دے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے دو مرحلوں میں قومی اسمبلی کے انتخابات کا اعلان کر دیا ہے اور عمران خان اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس عجیب و غریب بلکہ فضول ترین پریکٹس سے باز آ گئے ہیں کہ تمام نشستوں پر وہ خود امیدوار ہوں گے۔

    میں نے بہت ساروں سے پوچھا کہ حکومت کے پاس قومی اسمبلی میں اکثریت موجود ہے وہ کسی بھی رہنما کے ایک یا دو نشستوں سے زیادہ الیکشن لڑنے پر پابندی کاقانون کیوں نہیں بناتی تو بہت ساروں نے مجھے ہنس کر بتایا کہ اس کے نتیجے میں بھی خانصاحب خود ہی گھاٹے کا سودا کررہے ہیں۔

    وہ جتنی نشستوں پر الیکشن لڑیں گے وہ سب کی سب خالی رہیں گی اوراس کے نتیجے میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجا ریاض ہی رہیں گے لہذا حکومت کو کیا تکلیف ہے کہ وہ پی ٹی آئی والوں کی مدد کرے کہ وہ مزید حماقت اور مزید نقصان نہ کریں مگر بہرحال خانصاحب کو اب سمجھ آ گئی ہے کہ سسٹم میں رہنا ہی عقلمندی ہے۔ یہ بات پیپلزپارٹی کواڑتیس سال قبل سمجھ آ گئی تھی اور شائد میاں نواز شریف کوپندرہ برس پہلے۔

    خانصاحب کہتے تھے کہ وہ اپنے مخالفین کو رلائیں گے مگر اس وقت جہاں شہباز گل، اعظم سواتی، فواد چوہدری اور شیخ رشید سمیت سب رو رہے ہیں وہاں اصل رونا تو ان ارکان اسمبلی کو پڑ گیا ہے جن کو حکم دیا گیا ہے کہ خانصاحب نے حسب روایت اپنا فیصلہ ایک مرتبہ پھر بدل لیا ہے لہذا وہ اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائیں۔

    مستعفی ارکان اسمبلی کو نظرآ رہا ہے کہ اب وہ ایسی صورتحال میں الیکشن لڑتے ہیں اور کہ اوپر شہباز شریف کی حکومت ہے اور پنجاب میں محسن نقوی کی جسے وہ اپنی (معذرت کے ساتھ) حماقت، عاقبت اندیشی اور بدکلامی کے ذریعے خواہ مخواہ اپنا دشمن بنا چکے ہیں تو یہ الیکشن اتنا آسان نہیں ہوگا۔ اس کی انتخابی مہم پر انہیں کم سے کم دس سے پندرہ کروڑ روپے خرچ کرنے پڑیں گے یا ا س سے بھی زیادہ۔ جب وہ مارچ یا اپریل میں اسمبلی میں پہنچیں گے تو اس کے پانچ چھ ماہ بعد ہی اسمبلی کی مدت پوری ہوجائے گی لہذا ان کا اسمبلی میں ایک مہینہ انہیں کم و بیش اڑھائی کروڑ روپے ماہانہ میں پڑے گا۔

    یہ مان لیا جائے کہ پی ٹی آئی کے ارکان شہزادے ہیں مگر مان لیجئے وہ اتنے بھی شہزادے نہیں کیونکہ انہیں علم ہے کہ اگست میں ایک اور انتخابی مہم شروع ہوجائے گی جس میں ایک مرتبہ پھر انہیں اتنی ہی رقم خرچ کرنی پڑے گی اور ڈر یہ بھی ہے کہ اگر مارچ میں پانچ، سات بھی سیٹیں ہار گئے تو یہ سیٹیں دوبارہ جنر ل الیکشن میں نکالنا ناممکن ہوجائے گا یعنی خانصاحب نے نہ صرف خرچہ ڈال دیا ہے بلکہ اچھا خاصا رسک بھی۔

    خانصاحب قومی اسمبلی میں اپنا لیڈر آف دی اپوزیشن چاہتے ہیں جو انہوں نے اپنے منہ سے گنوایا ہے تو اب انہیں یہ اپنے ہی ارکان اسمبلی کے کم و بیش دس، بارہ ارب روپے خرچ کروا کے ملے گا لہذا شنید ہے کہ بہت سارے ارکان اسمبلی نے خانصاحب سے کہا ہے کہ جہاں انہوں نے اپنی سیاست کا ستیا ناس کیا ہے وہاں سوا ستیا ناس ہونے دیں اور ان کے پیسے بچا لیں، دیکھیں اس پر ایک اور یوٹرن کب ہوتا ہے مگر اس پوری مزاحیہ سیاسی سیریز میں مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ آہستہ آہستہ خانصاحب نے سیاست سیکھنی شروع کر دی ہے۔

    وہ جان جائیں گے کہ سیاست صرف بیان بازی، بڑھکوں، دھمکیوں کانام نہیں ہے بلکہ سنجیدہ فیصلے کرنے کا نام ہے۔ مجھے پوری امید ہے کہ اگلے بائیس پچیس برس میں وہ ایسے فیصلے کرنے کی صلاحیت سے مالامال ہوجائیں گے جن کے نتائج بارے بھی انہوں نے سوچا ہوگا۔