Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Nai Baat/
    3. Shukriya Zaman Wattu

    Shukriya Zaman Wattu

    میں نے پوچھا، یہ فلور ملز ایسوسی ایشن نے ہڑتال کا اعلان کیوں کیا۔ جواب ملا، نئے سیکرٹری فوڈ زمان وٹو کے چھاپوں کے خلاف کہ یہ چھاپے ایس او پیز کے خلاف ہیں۔ میں نے پوچھا، یہ سیکرٹری فوڈ چھاپے کیوں ما ررہے ہیں۔ جواب ملا، اس وقت مارکیٹ میں گندم کا ریٹ ساڑھے چار ہزار روپے من کے لگ بھگ ہے جبکہ حکومت عام شہریوں کو سستا آٹا فراہم کرنے کے لئے اپنی خریدی ہوئی گندم تئیس سو روپے من کے حساب سے فراہم کر رہی ہے مگر بہت ساری فلور ملز ایسی ہیں جو اس گندم کو وہ آٹا پیسنے کے لئے استعمال نہیں کرتیں جو حکومت سبز تھیلوں میں، چھ سو اڑتالیس روپے کا دس کلو، بیچنے کے لئے دے رہی ہے بلکہ چوری کر لیتی ہیں یا سمگل کر دیتی ہیں۔ سستی گندم لینے والی کئی فلور ملز کی گرائنڈنگ مشینوں کو جالے لگے ہوئے ہیں۔ حکومت روزانہ کروڑوں روپوں کی سب سڈی دیتی ہے مگر اس کا بہت بڑا حصہ یہ لوگ کھاپی جاتے ہیں۔

    میں نے پوچھا کہ کیا سیکرٹری فوڈ کے نیچے باقاعدہ عملہ موجود نہیں جو چھاپے مارے، سیکرٹری فوڈ خود کیوں چھاپے مار رہا ہے۔ جواب ملا، فوڈ ڈیپارٹمنٹ سونے کی کان ہے، یہاں سے ایک عام فوڈ انسپکٹر تک روزانہ ہزاروں، لاکھوں کما کے لے جاتا ہے۔ یہاں سابق دور میں یہاں تک ہوتا رہا کہ جس طرح اے سی اور ڈی سی کے ریٹ لگتے رہے بالکل اسی طرح ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر تک فلور ملز والوں کے لگائے جاتے رہے، اسی سے اندازہ لگا لیجئے کہ وہ ان فلور ملز کو دونمبری سے کیسے اور کتنا روک پاتے ہوں گے لہذا سیکرٹری فوڈ نے پہلے انہیں وارننگ دی، پھر چھٹیوں تک پر بھیجا اور پھر خود چھاپے مارنے شروع کر دئیے۔ اس چوری کو پکڑنے سے پہلے فلور ملز کو اس پر بھی جرمانہ ہوا کہ وہ گندم کے ساتھ ساتھ مٹی اور کنکر بھی پیس کر عوام کو کھلا رہے تھے۔

    مجھے بتایا گیا کہ ان فلور ملز کو یہ بھی اعتراض ہے کہ حکومت ٹرکوں کے ذریعے سستا آٹا کیوں فراہم کرتی ہے۔ میں نے پوچھا، درست بات ہے، جب دکانیں موجود ہیں توٹرکوں پر سپلائی کی کیا ضرورت ہے۔ خواہ مخواہ ڈرامہ سا لگتا ہے۔ بتانے والا مجھے دیکھ کے ہنسااور بولا، کتنے معصوم ہو تمہیں اس میں بھی کرپشن کا علم نہیں۔ کرپٹ لوگ بڑے کلا کار ہوتے ہیں کہ انہیں لہریں گننے پر لگا دیا جائے تو یہ وہاں بھی دیہاڑی لگا لیتے ہیں۔

    کہتے ہیں کہ ایک کرپٹ اہلکار کو کسی حکمران نے اس کی مسلسل کرپشن کی شکایات پر سمندر کنارے منتقل کر دیا اور کہا کہ اب تمہاری ذمے داری صرف یہ ہے کہ تم لہریں گنا کرو گے۔ اس فنکار نے وہاں جہازوں سے یہ کہہ کے رشوت لینا شروع کر دی کہ تمہارے آنے جانے سے لہروں میں فرق پڑتا ہے اور تم کارسرکار میں مداخلت کے مرتکب ہوتے ہو۔ فلور ملز والے یہ کرتے ہیں کہ دکانداروں کو سستے آٹے کے تیس، چالیس تھیلے سپلائی کرتے ہیں اور دستخط سو تھیلوں کی وصولی پر کروا لیتے ہیں۔ باقی گندم یا آٹا دوسرے صوبوں یا افغانستان سمگل ہوجاتا ہے جہاں اس کا ریٹ پنجاب کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔

    یہ فلور ملز والے اتنے فنکار ہیں کہ جب قانون میں یہ شرط تھی کہ دس اور بیس کلو والے آٹے کے تھیلے کی قیمت سرکار مقرر کرے گی تو انہوں نے ان دونوں تھیلوں کی سپلائی ہی مارکیٹ میں روک دی اور قانون کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آٹے کے پندرہ کلو کا تھیلا ایجاد کر کے اس کا نیا ریٹ مقرر کر لیا۔ اب یہ بتایا جاتا ہے کہ یہی پندرہ کلوکا تھیلا اصلی آٹے کا تھیلا ہے جبکہ سرکاری گندم کا تھیلا دو نمبر ہے جبکہ بہت ساری جگہوں پر فلور ملز وہی سرکاری گندم چوری اور سینہ زوری سے استعمال کر رہی ہیں مگر پیکنگ بدل کر اس کا ریٹ دوگنا لگایا جا رہا ہے۔

    میں نے پوچھا کہ کیا کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہے۔ جواب ملا، پوچھنے کا ہی تو یہ نتیجہ نکلا کہ انہوں نے ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ ہوا کچھ یوں کہ سیکرٹری فوڈ نے ایسوسی ایشن کے سابق چئیرمینوں کی ملوں پر بھی چھاپے دے مارے۔ یہ فلورملز اس سے پہلے پوری حکومت کے لئے نوگو ایریا سمجھی جاتی تھیں۔ اس سے فلور ملز والوں میں تھرتھلی مچ گئی کہ اگر چئیرمینوں کی ملیں محفوظ نہیں ہیں تو ان کی کیسے ہوں گی۔

    دلچسپ بات یہ ہے کہ فلور مل مالکان میں چودھری خاندان بھی ہے، موجودہ حکمرانوں میں جاوید لطیف اور چوہدری تنویر وغیرہ بھی ہیں حتیٰ کہ کچھ ججوں اور طاقتور بیوروکریٹوں کا بھی یہ دھندا ہے مگر موجودہ فوڈ سیکرٹری وہ بیوروکریٹ ہے جس نے چینی کے مافیا کو بھی نہ صرف نتھ ڈالی تھی بلکہ چینی کی قیمت ایسی کنٹرول کی تھی کہ اب تک قابو میں ہے۔ ابھی تک نگران حکومت میں کوئی وزیر خوراک نہیں ہے اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ خوراک کا قلمدان خود نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کے پاس ہے۔ سو انہیں بلیک میل کرنا اور دبانا تو بالکل ہی ممکن نہیں ہے لہذااس جنگ میں فلور ملز کے مافیا کو سرنڈر کرنا پڑا ہے۔

    فلور ملز ایسوسی ایشن کے لئے یہ مشکل بھی پیدا ہوگئی کہ اس بلیک میلنگ میں کئی بڑی فلور ملز جیسے پنجاب یا سنی وغیرہ نے شامل ہونے سے انکار کر دیا اور یہی وجہ ہے کہ فلور ملز ایسوسی ایشن میں شامل ملوں کے کوٹہ نہ اٹھانے کے باوجود آٹے کی شارٹیج نہ ہوئی۔ بتایا گیا ہے کہ اس وقت ایک ہزار کے قریب فلور ملوں میں بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو صرف سرکاری گندم کا کوٹہ خرید کے آگے بیچنے کے لئے ہے۔ وہ نہ آٹا بناتی ہیں اور نہ ہی روزگار فراہم کرتی ہیں، وہ صرف مال بناتی ہیں۔

    ٍایک اور معاملہ یہ ہوا کہ اس سے پہلے سابق دور میں ایک قانون بنایا گیا جو لازمی اشیا کی ذخیرہ اندوزی وغیرہ پر کارروائی کا تھا۔ اس میں تین سال تک قید بھی تھی اور ناجائز طور پر ذخیرہ کی گئی شے کی قیمت کے پچاس فیصد تک جرمانہ بھی ہوتا تھا۔ اس میں گھی اورچینی تو شامل کر لئے گئے مگر آٹا شامل نہیں تھا۔ اب نگران حکومت نے اس میں کابینہ کا اجلاس کرتے ہوئے آٹا بھی شامل کر دیا ہے جس کے بعد فلور ملز والوں کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ اب ان کا مطالبہ یہ ہے کہ سابق دور کا قانون بحال کیا جائے اورمیں حیران ہوں کہ کیوں، کیا آٹا لازمی اوربنیادی ضرورت نہیں ہے۔

    کہا جا رہا ہے کہ اس پر غور کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے مگر میں امید کرتا ہوں کہ اس فیصلے کو رول بیک نہیں کیا جائے گا۔ میں نے اس پوری سٹوری سے ایک ہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگر ایک نیک اور اہل افسر چاہے تو اپنے محکمے میں انقلاب برپا کر سکتا ہے، بڑے سے بڑے مافیا کے سامنے کھڑا ہوسکتا ہے، عوام کے حقوق کی پاسداری کر سکتا ہے۔ فلورملز کو بھی شوگر ملز کی طرح زمان وٹو کے سامنے سرنڈر کرنا پڑا ہے کیونکہ ان کامقدمہ درست تھا اور انہوں نے کسی سے رشوت نہیں لی تھی۔

    زمان وٹو نے میرے افسرشاہی پر متزلزل اعتماد کو بحال کیا ہے جس پر میں ان کا شکرگزار ہوں۔ ہمیں ایسے ہی افسر بہت سارے شعبوں میں درکار ہیں اور جہاں تک محسن نقوی کی بات ہے تو میں اس ٹاپ ٹرینڈ کے ساتھ ہوں کہ ہمارا وزیراعلیٰ کیسا ہو، محسن نقوی جیسا ہو،۔