پانچ فروری کا دن میں غصے میں بھنائے ہوئے گزاردیتا ہوں۔ ہمارے ہاں اس روز سرکاری چھٹی ہوتی ہے۔ سرکار کی جانب سے سرکاری ملازمین کو اس روز چھٹی دینے کا مقصد در حقیقت انہیں اس امر کے لئے اُکسانا اور سہولت پہنچانا ہے کہ وہ بھارت کی جانب سے کشمیر پر قبضے کے خلاف ہوئے احتجاجی مظاہروں اور جلوسوں میں حصہ لیں۔ کشمیر کے نام پر ایک روز کی چھٹی حاصل کرنے والوں میں سے کتنے فی صد افراد واقعتاً اپنے پانچ فروری کے دن کو اس مقصد کے لئے استعمال کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب آپ ہی فراہم کردیں تو مناسب ہوگا۔
آج سے تقریباََ پندرہ برس قبل میں جس ٹی وی کے لئے کام کرتا تھا وہاں مجھے اپنے شو کے لئے موضوعات طے کرنے کی سہولت کشادہ دلی سے فراہم کی جاتی تھی۔ میں عموماََ ان موضوعات کو ترجیح دیتا جنہیں مین سٹریم میڈیا عموماََ نظرانداز کئے رکھتا تھا۔ "آج" ٹی وی کی انتظامیہ کا اس کی وجہ سے تہہ دل سے شکرگزار ہوں۔ وہاں میری اور مشتاق منہاس کی معاونت کے لئے انتصارالحق بھی تھے۔ ہمہ وقت کوئی نیاٹاسک لینے کو بے چین رہتے۔
ایک روز پانچ فروری آئی تو میں نے انتصارالحق سے فرمائش کی کہ وہ کیمرہ اور مائیک لے کر اسلام آباد کے بازاروں میں چلا جائے اور وہاں راہگیروں سے پوچھے کہ اس دن سرکاری چھٹی کیوں ہوتی ہے۔ انتصار الحق نے نہایت لگن سے تین سے زیادہ گھنٹے گلیوں میں گزارتے ہوئے راہگیروں سے یہ سوال پوچھا۔ ٹی وی کے دھندے میں راستے میں ملے اجنبیوں سے پوچھے سوالات کے جواب کو Pop Voxکہا جاتا ہے۔ Voxکا ترجمہ ہے عوام۔ واکس ویگن نامی گاڑی اسی دعوے کے ساتھ بنی تھی کہ اسے نسبتاََ غریب آدمی خریدنا برداشت کرسکتا ہے۔ Popلاطینی زبان میں آواز کو کہتے ہیں۔ "واکس پاپ" کا لہٰذا اردو ترجمہ ہوا "عوامی آواز"۔ یقین مانیں تقریباََ ایک فی صد افراد بھی انتصار کے اٹھائے سوال کا صحیح جواب نہ دے پائے۔ اس کی جانب سے جمع ہوئی آوازیں سن کر میں نے اپنا سرپیٹ لیا اور بعدازاں پروگرام کے دوران بھی انتہائی دُکھی دل کے ساتھ اس کا ذکر کیا۔
پندرہ برس گزرجانے کے بعد بھی میں آپ سے ہاتھ باندھ کر التجا کروں گا کہ لمبا سانس لے کر آنکھیں بند کریں اور سوچیں کہ 5فروری کے روز سرکاری چھٹی کی بھارت کے مقبوضہ کشمیرسے کیا نسبت ہے اور اس روز سرکاری چھٹی کا فیصلہ کس حکومت کے دوران ہوا تھا۔ برا نہ مانیے گا۔ میں احمقانہ ڈھٹائی سے یہ توقع باندھ رہا ہوں کہ آپ میں سے اکثر میرے سوال کا درست جواب نہیں دے پائیں گے۔ آپ کی لاعلمی کا ذمہ دار میں حکومتوں کے علاوہ کشمیر کاز کے خودساختہ "مامے" بنے ان تمام افراد کے کاندھوں پر ڈالوں گا جو کشمیر کی آزادی کے نام پر کئی برسوں سے (تلخ نوائی کی معافی چاہتا ہوں)اپنی دوکانیں چلارہے ہیں۔
2025ء میں 5فروری کا دن مجھے اس لئے بھی بہت تکلیف پہنچارہا ہے کہ ذات کا محض رپورٹر ہوتے ہوئے میں نے اگست 2019ء کا آغاز ہوتے ہی اس کالم میں دہائی مچانا شروع کردی تھی کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں کچھ بڑا کرنے والا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے ایسے وسوسوں کا آغاز میرے دل میں جولائی 2019ء سے شروع ہوا تھا۔ اس مہینے ان دنوں کے وزیر اعظم عمران خان صاحب امریکہ تشریف لے گئے تھے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ ان کے ہمراہ گئے اور ان کے ساتھ بنوائی تصویروں میں اپنی آنکھوں میں آئی چمک سے دنیا کو یہ پیغام دیتے رہے کہ جیسے دورہ امریکہ کے ذریعے وہ اورسابق وزیر اعظم کوئی ناقابل تسخیر قلعہ فتح کررہے ہیں۔ عمران خان صاحب جب وائٹ ہاؤس پہنچے توکیمرہ کے روبرو "استقبالی کلمات" ادا کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے "انکشاف" کیا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جاپان کے شہر اوساکا میں ان کے ساتھ تنہائی میں ہوئی ایک ملاقات میں درخواست کی کہ امریکی صدر مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے "ثالثی" کا کردار ادا کرے۔ سابق وزیر اعظم ان کی "خبر" سن کر ہکا بکا رہ گئے۔ خوشی سے پھولتے نظر آئے۔ وطن لوٹتے ہی انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ ٹرمپ کی جانب سے کشمیر پر ثالثی کا سن کر وہ ایسا محسوس کررہے ہیں جیسے ورلڈ کپ جیتنے کے بعد محسوس کیا تھا۔
1984ء سے 2010ء تک بھارت میں دلی کے علاوہ کئی شہروں میں جاتا رہا ہوں۔ مقبوضہ کشمیر بھی تین مرتبہ جانے کا اتفاق ہوا۔ دلی میں طویل قیام کے جو وقفے آئے تھے ان کے دوران مجھے اس امر کو تسلیم کرنا پڑا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے بھارت کشمیر کے حوالے سے کسی تیسرے ملک سے "ثالثی" کا طلب گار نہیں ہے۔ اٹل بہاری واجپائی بھارت کا واحد وزیر اعظم تھا جو کشمیر کے مسئلے کا کوئی حل دریافت کرنے میں سنجیدہ تھا۔ نرسمہا رائو سے لے کر من موہن سنگھ تک جو کانگریسی وزرائے اعظم تھے وہ پاک-بھارت تعلقات معمول پر لانے کے لئے کشمیر کے حوالے سے کچھ "رعایتیں" دینے کو آمادہ تھے مگر اس کے دائمی حل کی تلاش کو بے چین نہیں تھے۔
اپنے تجربے کو نگاہ میں رکھتے ہوئے مجھے امید تھی کہ بھارتی حکومت ٹرمپ کی جانب سے سنائی "ثالثی" والی داستان کی سختی سے تردید کرے گی۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ نے امریکی صدر کے دعویٰ کی تردید کے لئے وہاں کے راجیہ سبھا(یعنی سینٹ) میں ایک مختصر سا ناپ تول کر سفارتی جواب دیا اور خاموشی اختیار کرلی۔ بھارتی حکومت کی جانب سے اپنائی خاموشی کے دوران مجھے مقبوضہ کشمیر سے کئی افراد واٹس ایپ پیغامات کے ذریعے خبردار کرتے رہے کہ سری نگر کے ہوائی اڈے پر بھارت سے آنے والی پروازوں کا رش بڑھ گیا۔ جو پروازیں آرہی ہیں وہ نظر بظاہر بھارتی فوجیوں کو مقبوضہ کشمیر بھیجنے کے لئے خصوصی پروازیں دکھ رہی ہیں۔
جولائی سے اگست تک چھپے میرے کالم گواہی دیں گے کہ مجھے جو اطلاعات آرہی تھیں میں ان کے بارے میں دہائی مچاتا رہا۔ اس کے علاوہ کچھ کرنا میرے بس ہی میں نہیں تھا۔ عمران خان نے اقتدار سنبھالتے ہی مجھے ٹی وی سکرینوں کے لئے بین کردیا تھا۔ قمر جاوید باجوہ صحافیوں کی جن محفلوں میں کئی گھنٹے کھل کر بولے ہی چلے جارہے تھے وہاں تک رسائی بھی ممکن نہیں تھی۔
میں آج بھی اصرار کرتا ہوں کہ ٹرمپ نے عمران خان کو کشمیر کے بارے میں "ثالثی" کی جو داستان کیمروں کے روبرو سنائی اس کا مقصد ہمیں بے وقوف بناکر بغیر کچھ دئے حکومت پاکستان کو قائل کرناتھا کہ ہم طالبان کو دوحہ مذاکرات کی میز پر بٹھانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ہم بخوشی بے وقوف بن گئے۔ مقبوضہ کشمیر اب بھارت نے باقاعدہ ہڑپ کرلیا ہے اور جنہیں مذاکرات کی میز پر بٹھایا گیا تھا اقتدار میں آکر امریکہ کا جدید اسلحہ ہمارے ہاں تخریب کاری کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ 5فروری کے دن میں سینہ کوبی کے علاوہ کچھ کرنے کو آمادہ نہیں۔