Saturday, 15 March 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Nusrat Javed
  4. Aashiqan e Imran Ki Trump Se Abas Tawaquat

Aashiqan e Imran Ki Trump Se Abas Tawaquat

خود کو تھکانے اور آپ کو اُکتادینے کی حد تک بارہا اس کالم کے ذریعے امریکہ میں مقیم عاشقان عمران کو نہایت خلوص اور عاجزی سے سمجھاتا رہا ہوں کہ ریاستوں کے دیگر ریاستوں کے ساتھ تعلقات طویل المدت مفادات پر مبنی ہوتے ہیں اور پاکستانی ریاست 1950ء کی دہائی سے امریکی ریاست کی اتحادی ہونے کی حد تک "دوست" بن چکی ہے۔ پاکستان میں جمہوری نظام کو مضبوط ومستحکم بنانا ان دو ممالک کے مابین دوستی کا اصل سبب نہیں۔

کلیدی مقصد امریکہ کے دفاعی مفادات ہیں۔ سرد جنگ کے دنوں میں ترجیح کمیونزم کے فروغ کو روکنا تھا۔ "سرد جنگ" 1980ء کی دہائی میں "افغان جہاد" کی صورت "گرم" ہوئی۔ اس گرمی کو آمر مطلق جنرل ضیاء نے بھڑکائے رکھا اور معاملہ سوویت یونین کے کامل انہدام تک پہنچا۔ روس کی افغانستان میں شکست کے بعد وہاں موجود "دہشت گرد" امریکی ریاست کا دردِ سر ہوئے۔ ان کے خلاف جنگ کا فیصلہ ہوا تو اس کی قیادت بھی جمہوری طورپر منتخب کسی پاکستانی رہ نما کو نصیب نہ ہوئی۔ جنرل مشرف "روشن خیال" بن کر اس کے قائد بنے۔

امریکہ 21برسوں تک افغانستان پر قابض رہنے کے باوجود بالآخر اس ملک سے ذلت آمیز انداز میں رخصت ہوا۔ اس کی رخصتی کے بعد طالبان فاتحین کی صورت کابل لوٹ آئے مگر "اصل اسلام" کی پرچارک ہوئی داعش نے ان کے ایمان واقتدار پر سوال اٹھانا شروع کردئے۔ طالبان ان پر قابو پانے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔ ایسے عالم میں خود کو "دہشت گردی" سے محفوظ رکھنے کے لئے امریکہ "عطار کے اسی لڑکے" سے حمایت کے حصول کو مجبور ہے جسے پاکستان کہا جاتا ہے۔

امریکہ میں مقیم عاشقان عمران مگر تاریخ اور ریاستی تقاضوں سے احمقانہ حد تک ناآشنا ہونے کی وجہ سے مصر رہے کہ 2024ء کے نومبر میں منتخب ہوا صدر -ڈونلڈٹرمپ- روایت شکن ہے۔ فوج اور روایتی ریاستی ایجنسیوں سے جنہیں وہ حقارت سے "ڈیپ اسٹیٹ" کہتا ہے، نفرت کرتا ہے۔ اس کی عمران خان سے دو ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔ ان ملاقاتوں کی وجہ سے خان صاحب اسے "اپنے جیسے" لگے۔ وہ محسوس کررہا ہے کہ عمران خان صاحب ان دنوں پاکستان کی "ڈیپ اسٹیٹ" کے ہاتھوں "جعلی مقدمات" کا سامنا کرتے ہوئے شدید اذیت برداشت کررہے ہیں۔ امیدلہٰذا ہمیں یہ دلائی جارہی تھی کہ اقتدار سنبھالتے ہی ٹرمپ ٹیلی فون اٹھاکر پاکستان میں طاقت کے "اصل" مالکوں کو فون کرے گا اور عمران خان اڈیالہ جیل سے رہا ہوجائیں گے۔

اڈیالہ سے رہا ہونے کے بعد وہ عوامی تحریک کے ذریعے قبل از وقت انتخاب یقینی بنائیں گے جس کے نتیجے میں ان کی وزیر اعظم کے دفتر میں کم از کم دوتہائی اکثریت کے ساتھ واپسی یقینی ہوجائے گی۔ امریکی سیاست اور اس ملک کے ریاستِ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو خارجہ امور کی بابت کم از کم 25برس تک رپورٹنگ کی بدولت جمع ہوئے تجربے کی بنیاد پر تاہم میں اس کالم میں اصرار کرتا رہا کہ ٹرمپ سے عمران خان کی رہائی کی امیدیں باندھنا خام خیالی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ تحریک انصاف اپنے قائد کو جیل سے رہا کروانے کے لئے ایک موثر سیاسی و قانونی حکمت عملی کا انتخاب کرے اور امریکہ سے اس تناظر میں کسی مدد کے خواب دیکھنا چھوڑ دے۔ ربّ کا صد شکر کہ میں درست ثابت ہوا۔

منگل کی رات امریکی صدر نے اپنے ملک کی پارلیمان سے خطاب کیا ہے۔ اس خطاب کے دوران عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرنے کے بجائے اس نے 60سیکنڈ پاکستان کا شکریہ ادا کرنے میں صرف کئے۔ پاکستان کا شکریہ اس لئے واجب تھا کہ اس کی ریاست نے محمد شریف اللہ کو (جو جعفر کے نام سے بھی کام کرتا رہا) گرفتار کرلیا ہے۔ اس شخص کا تعلق مبینہ طورپر داعش سے بتایا جارہا ہے۔ اس تنظیم پر الزام ہے کہ اس نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے دوران 26اگست 2021ء کی سہ پہر کابل ایئرپورٹ کے "ایبی گیٹ" کہلاتے دروازے کے قریب خود کش حملے کا انتظام کیا۔ اس حملے کے نتیجے میں 13امریکی فوجی اور 170افغان شہری ہلاک ہوئے۔ 13امریکی فوجیوں کی ہلاکت پر امریکی میڈیا میں بہت تنقید ہوئی۔ بائیڈن کے علاوہ ٹرمپ کو بھی ان کی ہلاکت کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا کیونکہ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کا فیصلہ ٹرمپ کے دور اقتدار میں ہوا تھا۔

امریکہ کی جاسوس ایجنسیاں کئی برسوں سے 26اگست2021ء کے روز ہوئے دھماکہ کے منصوبہ ساز کو ڈھونڈرہی تھیں۔ اس کا سراغ لگالیا تو طالبان حکومت نہیں ریاست پاکستان سے رابطہ ہوا کہ مبینہ منصوبہ ساز کی گرفتاری یقینی بنائی جائے۔ اطلاعات ہیں کہ سی آئی اے کے سربراہ کا عہدہ سنبھالتے ہی اس ادارے کے ٹرمپ کی جانب سے لگائے سربراہ Ratcliffe John(جان ریٹ کلف) نے پاکستانی آئی ایس آئی کے سربراہ سے رابطہ کیا۔ بعدازاں ان دنوں کے مابین میونخ کانفرنس کے دوران بھی ایک ملاقات ہوئی۔ شریف اللہ کی شناخت اور تصدیق کے بعد اس کی گرفتاری کا فیصلہ ہوا۔ گرفتاری پاکستان کے ہاتھوں ہوئی۔ کسی امریکی ادارے کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ گرفتار ہوئے شریف اللہ کو اب بدھ کے روز امریکہ روانہ کردیا جائے گا۔

شریف اللہ کی گرفتاری کی خبر ٹرمپ کو منگل کے دن امریکی پارلیمان کے اجلاس سے قبل مل گئی تھی۔ اسی باعث امریکی پارلیمان سے خطاب سے کئی گھنٹے قبل اس نے سوشل میڈیا پر پیغام دیا کہ اس کی تقریر میں ا ہم خبر بھی دی جائے گی۔ بالآخراپنے خطاب کے دوران اس نے شریف اللہ کی گرفتاری کی خبر پھوڑی۔ وہ خبر سننے کے بعد امریکی پارلیمان میں موجود تمام افراد نے کھڑے ہوکر مذکورہ گرفتاری کو سراہنے کے لئے تالیاں بجائیں۔ گرفتاری کی اطلاع دینے کے بعد ٹرمپ نے کامل ایک منٹ تک پاکستان کا نام لے کر شریف اللہ کی گرفتاری کا شکریہ ادا کیا ہے۔

شریف اللہ کے امریکہ پہنچ جانے کے بعد مزید تفتیش ہوگی۔ اس کے نتیجے میں شاید داعش کے مزید ٹھکانوں پر حملہ کرکے وہاں پناہ گزین ہوئے ممکنہ خودکش بمبار بھی گرفتار ہوں۔ مختصراََ امریکہ اور پاکستان کی ریاستیں اپنی تاریخ کے مطابق دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ گرم جوش تعاون میں مصروف رہیں گی۔ داعش کے مبینہ دہشت گردوں کا سراغ لگاتے ہوئے ٹرمپ کو عمران خان یاد نہیں آئیں گے۔ امریکہ میں مقیم عاشقان عمران کو اب نئے صدر کا انتظار کرنا ہوگا۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.