Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Ab Inhe Koi Aur Game Sochna Hogi

Ab Inhe Koi Aur Game Sochna Hogi

اپنے لکھے کالموں کا ریکارڈ رکھنے اور ان کے حوالے دینے کی مجھے عادت نہیں۔ دیانت داری سے یہ سمجھتا ہوں کہ اخبار کے لئے لکھی تحریر عموماََ ڈنگ ٹپائو ہوتی ہے۔ اسے رات گئی بات گئی کی صورت ہی لینا چاہیے۔ اس اعتراف کے باوجود یاد آرہا ہے کہ طویل مدت کے بعد چندر وز قبل جب نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف ماضی کی تلخیاں بھلاکر گجرات کے چودھریوں کے لاہور والے گھر گئے تو میں نے ان کے پھیرے کو کارزیاں قرار دیا تھا۔

روانی میں غالباََ یہ بھی لکھ دیا کہ چودھریوں کے ہاں حاضری سے شہباز شریف صاحب اپنی ذات اور جماعت کے لئے محض شرمساری ہی حاصل کریں گے۔ منگل کے دن میرا اندازہ درست ثابت ہوا۔ انا پرستی کے خول میں محصور ہوئے عمران خان صاحب مختصر دورہ لاہور کے دوران چودھریوں کے ہاں بھی چلے گئے۔ دونوں فریقین کے درمیان تعلقات میں اس ملاقات کی بدولت غلط فہمیوں کے مناسب ازالہ کا بندوبست ہوگیا۔ اپوزیشن جماعتوں کو اس کے بعد وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی گوٹ چلانے سے قبل سوبارسوچنا ہوگا۔

بارہا اس کالم میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد والے منصوبے کو ناقابل عمل ٹھہرانے کے لئے چند سوالات اٹھاتا رہا ہوں۔ اپوزیشن کے تین سرکردہ رہ نما تنہائی میں ہوئی ملاقاتوں کے دوران بھی ان سوالات کے تسلی بخش جواب فراہم نہ کر پائے۔ لاہور میں "آصف علی زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن کی آنیاں جانیاں اگرچہ جاری رہیں۔ ہمیں یہ تاثر دینے کی بھرپور کوشش ہوئی کہ مذکورہ اصحاب نے جو سیاسی چالوں کے مہاکلاکارتصور ہوتے ہیں نہایت راز داری سے ایٹم بم بنانے جیسا کوئی منصوبہ تیار کرلیا ہے۔ عمران خان صاحب اس منصوبے کے بروئے کار آنے کے بعد وزارت عظمیٰ کے منصب پر برقرار نہیں رہ پائیں گے۔

سیاسی عمل کا سنجیدگی اور اپنی خواہشات کو نظرانداز کرتے ہوئے مشاہدہ کریں تو آپ کے ذہن میں جمع ہوئے سوالات کا علم ریاضی جیسا ٹھوس جواب مل جاتا ہے۔ عمران خان صاحب قومی اسمبلی میں جس گنتی کی بنیاد پرگزشتہ تین برس سے برسراقتدار ہیں وہ یقینا بہت کمزور ہے۔ اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لئے انہیں اتحادی جماعتوں کی حمایت درکار ہے۔ ان جماعتوں کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ خودمختار فیصلہ سازی کی سکت سے محروم ہیں۔ ہمیشہ ریاست کے دائمی اداروں سے رہ نمائی کے طلب گار رہتے ہیں۔ اس حقیقت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے "اندر کی خبر" رکھنے کے دعوے دار کئی صحافیوں نے گزشتہ برس کے اکتوبر سے یہ تاثر پھیلانا شروع کردیا کہ اتحادیوں کی ڈور ہلانے والے اب "نیوٹرل"ہوگئے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عمران خان صاحب کو بآسانی گھر بھیج سکتی ہیں۔

"نیوٹرل"ہوجانے کی بابت مچائے شور سے اکتاکر میں 1989ء کا برس یاد کرنے کو مجبور ہوا۔ ان دنوں کے بااختیارصدر غلام اسحاق خان محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت سے اکتاچکے تھے۔ آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ اوران کے بھرپور وسائل اس ضمن میں ہر نوع کی معاونت کو میسر تھے۔ آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کا رویہ بھی حکومت وقت کے ساتھ مخاصمانہ تھا۔ صدر اور ریاستی اداروں کے کامل تعاون کے باوجود محترمہ کے خلاف جب تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو ان کی حکومت اپنے خلاف مجتمع ہوئی اپوزیشن میں سے چار اراکین اسمبلی کو اپنی حمایت میں اچک کر مذکورہ تحریک ناکام بنانے میں کامیاب ہوگئی۔

1989ء کے برعکس عمران خان صاحب بطور وزیر اعظم ان دنوں کہیں زیادہ تگڑے ہیں۔ وفاق کے علاوہ ان کی جماعت پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں بھی برسراقتدار ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو انگریزی محاورے والی گاجر دکھانے یا ڈنڈا اٹھانے کی بے پناہ قوت بھی میسر ہے۔ ایسے حالات میں "نیوٹرل" ہوجانے کا تاثر بھی عمران خا ن صاحب ہی کے کام آئے گا۔ اپوزیشن جماعتوں کو تحریک عدم اعتماد کے دوران اپنے بندے پورے کرنے کے لئے ویسی ہی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا جو مینڈکوں کو ترازو کے ایک پاٹ میں جمع کرتے ہوئے رونما ہوتی ہیں۔

تحریک عدم اعتماد کے عنوان سے ہوئی آنیوں جانیوں نے اگرچہ عمران حکومت کو گھبرانے پر یقینا مجبور کردیا ہے۔ پیر کی شام وزیر اعظم صاحب کا قوم سے خطاب گھبراہٹ کا واضح اظہار تھا۔ گھبراہٹ ہی نے انہیں منگل کے دن چودھریوں کے گھر جانے کو مجبور کیا۔ گھبراہٹ کا یہ اظہار تاہم یہ سوال اٹھانے کو بھی مجبور کررہا ہے کہ اپنے تئیں عمران خان صاحب کو کمزور کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتیں درحقیقت توانا کسے بنارہی ہیں۔ اس سوال کا جواب تلاش کریں تو واضح جواب یہ ابھرتا ہے کہ عددی اعتبار سے قومی اور پنجاب اسمبلی میں کمزور تر ہونے کے باوجود چودھری برادران کمال مہارت سے خود کو حتمی بادشاہ گرثابت کررہے ہیں۔ نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کو اس کی وجہ سے کافی زک پہنچی ہے۔

تحریک عدم اعتماد کے نام پر مچائی ہلچل میں شامل ہوتے ہوئے مذکورہ جماعت "ووٹ کو عزت دو" والے بیانیے کو تج محلاتی سازشوں کا حصہ بنی نظر آئی۔ "عطار کے انہیں لڑکوں " سے شفایابی کی طلب گار ہوئی جن سے گریز کی بڑھکیں لگائی جارہی تھیں۔ چودھریوں کے ہاں منت سماجت کے لئے حاضری دیتے ہوئے شہباز شریف صاحب اس ٹھوس حقیقت کو فراموش کربیٹھے کہ چودھری پرویز الٰہی ان دنوں پنجاب اسمبلی کے سپیکر ہیں۔ ان کے فرزند مونس الٰہی کو بھی وفاق میں ایک تگڑی وزارت دے دی گئی ہے۔ اس کے علاو ہ چودھریوں کے ایک دیرینہ رفیق طارق بشیر چیمہ صاحب پہلے ہی سے ہائوسنگ کی وزارت سنبھالے ہوئے ہیں۔

چودھریوں کی مسلم لیگ سے وابستہ اراکین قومی وصوبائی اسمبلی کے حلقوں میں ترقیاتی فنڈز وافر مقدار میں میسر ہیں۔ تھانہ کچہری کے معاملات سنبھالنے کے لئے ان کے حلقوں کی انتظامیہ بھی ہمیشہ فدویانہ جی حضوری دکھاتی ہے۔ ایسے حالات میں چودھری پرویز الٰہی اور ان کے ساتھی عمران حکومت کو گھر بھیجنے کو کیوں آمادہ ہوں؟ خاص طورپر اس تناظر میں جہاں مسلم لیگ (نون) عمران خان صاحب کی فراغت کے بعد فوری انتخاب کی متقاضی ہے۔ مذکورہ وجوہات کو نگاہ میں رکھتے ہوئے چودھریوں کو گھیرنے کے لئے عثمان بزدار کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی بات چلائی گئی۔ پرویز الٰہی ان کی جگہ وزیر اعلیٰ ہوسکتے تھے۔

وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد مگر وہ نئے انتخابات کے بجائے اپنی حکومت کی آئینی مدت پوری کرنے کے خواہاں ہوں گے۔ پنجاب کے ایک برس سے زیادہ عرصہ تک وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے پرویز الٰہی اپنی جماعت کو مضبوط تر بناسکتے ہیں۔ ان دنوں مسلم لیگ (نون) سے وابستہ کئی اراکین پنجاب اسمبلی بھی ان کے دسترخوان، کھلے گھر اور سرپرستی کی بدولت "خودمختار" ہوسکتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ پنجاب میں 1993ء سے 1996ء کے دوران میاں منظور وٹو کی وزارتِ اعلیٰ کے ہاتھوں ایسا ہی معاملہ ہواتھا۔ پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک کو اس کی وجہ سے جو دھچکا لگا نواز شریف کی جماعت نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ بعدازاں مذکورہ ووٹ بینک کا کماحقہ حصہ عمران خان صاحب کی عقیدت میں مبتلا ہوگیا۔

شہباز شریف مگر ایسے انجام کی جانب آنکھ بند کئے بڑھنے کو آمادہ ہوگئے۔ اب انہیں کوئی اور گیم سوچنا ہوگی۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.