گزشتہ چند برسوں سے ہمارے بہت ہی پڑھے لکھے تبصرہ نگاروں کی وجہ سے یہ تصور توانا سے توانا تر ہوا ہے کہ پاکستان میں نوجوانوں کی بے پناہ تعداد ہمارے لیے خدائی نعمت ہے۔ ہماری آ بادی کا یہ تقریباً 60فیصد ہے۔ نظام کہنہ سے اکتائی یہ بھاری بھر کم تعداد روایتی میڈیا پر اعتبار نہیں کرتی۔ سوشل میڈیا سے رجوع کرتے ہوئے نظام کہنہ سے نجات حاصل کرنے کو بے چین ہے۔ مجھ جیسے بڈھے کو ان کے آگے سرنگوں کرتے ہوئے صحافت سے ریٹائر ہوجانے کی بابت سوچنا ہوگا۔ میں یہ کالم لکھنا چھوڑدوں تو جس جگہ ہفتے کے پانچ دن میرے فرسودہ خیالات دہرائے جاتے ہیں وہاں کسی نوجوان کے لکھے افکارِ تازہ قارئین کا لہو گرمائیں گے۔
میری عمر کے لوگوں کو حقارت سے سوشل میڈیا پر چھائے نوجوان Boomerپکارتے ہیں۔ اس لفظ کی جگالی کرتے افراد کی اکثریت کو بھی شاید علم نہیں ہوگا کہ یہ لفظ کس عمر کے گروہ کے لیے استعمال ہوتاہے۔ اصطلاح یہ امریکا میں ایجاد ہوئی تھی۔ یہ لوگوں کی اس نسل کے لیے استعمال ہوتی ہے جو 1970ء کی دہائی میں پیدا ہوئے تھے۔ 1990ء کی دہائی میں سوویت یونین کی شکست وریخت اور دیواربرلن کو گرتے دیکھا۔ دنیا اسے عالمی گائوں، کی طرح ملی۔ اس کی سوچ مقامی نہیں آفاقی، تصور ہوتی تھی۔
اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس نسل کے افراد حکومتوں اور عالمی سطح پر اثرانداز پالیسی سازی کے لیے اعلیٰ تنخواہوں اور بے پناہ مراعات کے ساتھ عموماً بطور کسی شعبے کے ماہر، کے طورپر ملازم ہوئے۔ ان کی بنائی پالیسیوں کی بدولت مگر دنیا میں امیر اور غریب کے مابین تفاوت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ امیر ترین افراد کی تعداد محدود سے محدود تر ہوتی جارہی ہے۔ انٹرنیٹ اور مصنوعی ذہانت جیسی جدید ترین ایجادات ہوئیں تو متوسط طبقہ مزید سکڑنا شروع ہوگیا۔ اس کی اکثریت بے روزگار ہوکر گھروں میں بیٹھ گئی۔
یورپ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد کمیونزم کے خوف سے ویلفیئر اسٹیٹ، کاتصور متعارف ہوا تھا۔ اس کی بدولت بے روزگار افراد کے لیے زندہ رہنا یقینی بنانے کے لیے وظیفوں اور مفت طبی سہولتیں فراہم کرنے کا بندوبست ہوا۔ وہ نظام مگر اب یورپ کے اکثر ملکوں میں ناکام ہورہا ہے۔ برطانیہ کے ہسپتالوں میں سنگین امراض کے آپریشن وغیرہ کے ذریعے علاج کروانے کے لیے بھی کئی مہینے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بے روزگاری کا وظیفہ، بنیادی ضروریات پوری کرنے کے کام بھی نہیں آتا۔
ویلفیئر اسٹیٹ، پر بڑھتے دبائو کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینے کے بجائے امریکا اور یورپ کے نسل پرستوں نے داستان یہ پھیلائی کہ بے روزگاروں اور بے گھروں کے لیے ریاست کی جانب سے فراہم ہوئی رہائش اور گزارے کے لیے دیے وظیفے دنیا کے غریب ملکوں کے جرائم پیشہ اور ناکارہ، نوجوانوں کو اس امر کو اُکساتے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنا ملک چھوڑ کر امریکا یا یورپ پہنچ جائیں۔ وہاں انھیں انسانی ہمدردی، کی بنیاد پر پناہ مل جاتی ہے۔ اس کے بعد وہ سرکاری طورپر میسر مفت، رہائش اور گزارے کے لیے مہیا ہوئے وظیفے، کے باوجود سستی اجرت پر مختلف کام شروع کردیتے ہیں۔ یوں ویلفیئر نظام کا اصل فائدہ مقامی افراد نہیں بلکہ دیگر ممالک سے امریکا یا یورپ میں کسی نہ کسی طرح گھس آئے افراد کو ملتا ہے۔
نسل پرستوں نے ٹھوس حقائق کو سفاکی سے نظرانداز کرتے ہوئے جو داستان گھڑی وہ یورپ کے تقریباً ہر ملک میں دن بہ دن مقبول ہورہی ہے۔ اٹلی مثال کے طورپر تارکین وطن کا پسندیدہ ملک رہا ہے۔ وہاں کی حال ہی میں منتخب ہوئی وزیر اعظم مگر مسولینی کی متعارف کردہ فسطائی سوچ کی پیروکار ہے۔ ہالینڈ اور جرمنی میں بھی تارکین وطن سے نفرت ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یورپی یونین جس میں یورپ کے بیشتر ممالک اپنی قومی (جداگانہ) شناخت، بھلاکر یکجا ہوئے تھے بطور اکائی اور ادارہ بتدریج اپنے انسان دوست، اصول بھلادینے کو مجبور ہوجائے گی۔
یورپ کا مستقبل مگر آج کے کالم کا موضوع نہیں۔ پاکستان پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے فی الوقت میں یہ سوچنے کو مجبور ہوں کہ ہمارے ہاں کی نوجوان نسل جو آبادی کا 60 فیصد ہے واقعتا ہمارے لیے خدائی نعمت ہے یا نہیں اور سوشل میڈیا سے اس نے جو سوچ کشیدکی ہے وطن عزیز کو حقیقتاً استحکام وخوش حالی کی جانب لے جائے گی یا نہیں۔ اس سوال پر غور کرنا شروع کرتا ہوں تو سب سے پہلے یہ خیال ذہن میں آنے کے بعد باہر نکلنے کو آمادہ ہی نہیں ہوتا کہ ہمارے ہاں تقریباً دوکروڑ بچے سکول ہی نہیں جاتے۔ بنیادی علم سے محروم ہماری آبادی کی اتنی بڑی تعداد آج سے دس سال بعد کیا کرے گی؟ مصنوعی ذہانت کے استعمال کے لیے بھی انسانی ذہانت درکار ہے۔ انسانی ذہن علم کی آبیاری سے زرخیز ہوتا ہے اور ہم دو کروڑ بچوں کے ا ذہان بنجر بنائے رکھے ہوئے ہیں۔
سوشل میڈیا جو سیاسی شعور، ہمارے نوجوانوں کو مبینہ طورپر فراہم کررہا ہے اس کا جائزہ لینے کی بھی میں نے بطور رپورٹر تحقیق کی جگاڑ لگاکر متعدد بارکوشش کی۔ ذاتی مشاہدے کی بدولت پاکستان کے مختلف شہروں خصوصاً چھوٹے قصبوں سے اسلام آباد ملازمت کے لیے آئے نوجوانوں کو فقط ٹک ٹاک، کے لیے مواد (Content)تیار کرنے کا عادی پایا۔ ان کی بنائی وڈیوز میں سیاسی پیغام، دیکھنے کو نہیں ملا۔ عموماً خودپرستی نظر آئی۔ وہ اپنے دیکھنے والوں کو اسلام آباد کے مناظر دکھاکر خوش کرنے میں مصروف دکھائی دیے۔ اسلام آباد کے مناظر سے زیادہ یہ نوجوان اس امر کو نمایاں کرتے بھی نظر آئے کہ ان مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے وہ کتنے خوش، جوان وحسین لگ رہے ہیں۔
سچی بات ہے میرے اندر دفن ہوا سرخا، خوش ہوتا اگر یہ نوجوان اسلام آباد کے مناظر کو اپنی ٹک ٹاک وڈیوز کے ذریعے دکھاتے ہوئے پاکستان میں تیزی سے پھیلتی عدم مساوات یعنی امیر اور غریب کے مابین فرق کو نمایاں کرتے نظر آتے۔ وہ ایسا کرتے ہوئے ایک حوالے سے تبدیلی، کے خواہاں بلکہ پیغام بر محسوس ہوتے۔ ان کا رویہ مگردیکھنے والوں کو یہ پیغام دیتا نظر آیا کہ ہم خوش نصیب، ہیں کہ ایک صاف ستھرے شہر میں نوکری سمیت رہ رہے ہیں۔
شاید ایسی ہی ٹک ٹاک وڈیوز ہمارے بے تحاشا نوجوانوں کو ڈنکی، لگاکر یورپ جانے کو اُکسارہی ہیں۔ ہر دوسرے روز مگر وہاں سے کشتیوں کے غرق ہونے کی خبریں آتی ہیں۔ روایتی میڈیا میں کشتیوں کا سمندر برد ہوجانا فقط خبر، بناتا ہے۔ ان واقعات کا تاہم بطور رحجان تعاقب نہیں ہوتا۔ روایتی میڈیا کی ایسے سانحوں کی بابت اپنائی بے اعتنائی سوشل میڈیا کے لیے بہت بڑا خلا فراہم کرتی ہے۔ سوشل میڈیا پر لیکن صرف عمران خان بِکتا ہے۔