مجھے گماں ہے کہ اس کالم کے مستقل قاری ابھی تک یہ دریافت کرچکے ہوں گے کہ جن سیاستدانوں سے میرے کسی نہ کسی وجہ سے ذاتی رشتے اور روابط بہت گہرے ہوں میں ان کے بارے میں لکھنے سے گریز کو عادتاََ ترجیح دیتا ہوں۔ دانیال عزیز چودھری کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔
چودھری انور عزیز مرحوم میرے اور میری بیوی کے حتمی بزرگ تھے۔ دانیال ان کا فرزند اور سیاسی وارث ہے۔ اس کے باوجود جن دنوں وہ جنرل مشرف کے دور میں"اصل جمہوریت" کے ذریعے "قومی تعمیر نو" کے مشن پر مامور ہوا تو تسلسل سے میرے انگریزی کالموں میں شدید تنقید کا نشانہ رہا۔ چند ٹی وی پروگراموں میں بھی میرے پھکڑپن کی زد میں آیا۔ ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ اس نے تنہائی میں بھی کبھی میرے رویے کا شکوہ نہیں کیا۔ چودھری انور عزیز مرحوم بھی اس ضمن میں مجھے "درست سمت" کی جانب کھڑا ٹھہراتے رہے۔
بتدریج دانیال مسلم لیگ (نون) میں شامل ہوکر 2016ء کے آغاز سے اس جماعت کی قیادت کے خلاف "پانامہ دستاویزات" کے حوالے سے چلائی مہم کے دفاع میں ڈٹ کر کھڑا ہوگیا۔ اس کی ثابت قدمی نے ثاقب نثار کی سپریم کورٹ کو اسے توہین عدالت کا مرتکب ٹھہراکر پانچ سال کے لئے سیاسی عمل سے باہر نکال دیا۔ نااہلی بھی لیکن دانیال کو شکر گڑھ کے عوام سے جدا نہیں کرپائی۔ مرحوم چودھری انور عزیز کا مان برقرار رکھنے کے لئے شکرگڑھ کے ووٹروں نے دانیال کی اہلیہ مہناز کو جو مختلف حوالوں سے میری بہنوں کی مانند بھی ہے بھاری اکثریت سے 2018ء میں قومی اسمبلی کے لئے منتخب کرلیا۔
شکر گڑھ کے باسیوں کی اکثریت کی طرح مجھے بھی اسلام آباد بیٹھے یہ گماں تھا کہ دانیال مسلم لیگ (نون) کے ٹکٹ پر 2024ء میں قومی اسمبلی پہنچے گا۔ اس کے سیاسی مستقبل کے بجائے مجھے شدید پریشانی اس کی صحت کے بار ے میں لاحق رہی۔ گزشتہ برس وہ ایک جان لیوا ٹریفک حادثے کا شکار ہوگیا تھا۔ مختلف ہسپتالوں کے بہترین معالجوں نے کئی ہفتوں تک اسے اپنی نگرانی میں رکھنے کے بعد بچالیا۔ قدآور اور سخت جان دانیال کا دایاں ہاتھ مگر اب بھی تقریباََ مفلوج ہے اور اکثر اسے ہسپتال سے رجوع کرنا ہوتا ہے۔ سیاست مگر بہت بے رحم ہوتی ہے اور مقامی سیاست اس سے کہیں زیادہ سفاک۔
دانیال عزیز اس کی وجہ سے مسلم لیگ (نون) ہی کے ایک قدآور رہ نما احسن اقبال کا "شریک" بن گیا۔ شکرگڑھ نارووال کا "مضافات" شمار ہوتا ہے۔ احسن اقبال کا رویہ اس کے ساتھ "بڑے شہروں" کے "مالکان" والا ہے۔ بہرحال دانیال اور احسن اقبال کے مابین ضلعی سیاست کی چودھراہٹ کیلئے رسہ کشی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ میں نے اس دوران فقط ایک بار دانیال سے اپنے ٹی وی شو میں مختصر ترین گفتگو کی۔ اس گفتگو کے بعد احسن اقبال نے واٹس ایپ پیغام کے ذریعے گلہ کیا کہ میں نے ان کا موقف معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ احسن اقبال کا شکوہ جائز تھا۔ موصوف کی دانیال عزیز کے ساتھ شروع ہوئی چپقلش کو بھڑکانے کے بجائے میں نے اس کے بارے میں خاموش رہنے کو ترجیح دی کیونکہ اس معاملے میں میرے لئے "صحافیانہ غیر جانبداری" کی منافقت برقرارممکن نہیں تھا۔
مسلم لیگ (نون) کے ٹکٹ تقسیم ہوگئے تو احسن اقبال جیت گئے۔ نواز شریف صاحب نے ان کا ساتھ دیتے ہوئے دانیال عزیز کو موصوف کی پانچ سالہ نااہلی کے باوجود نظرانداز کردیا۔ دانیال نے مگر ہار نہیں مانی۔ "آزاد" حیثیت میں انتخابی میدان میں کود پڑا ہے۔ جب سے ان دونوں کے مابین انتخابی یدھ شروع ہوا ٹیلی وژن کے کئی شوز میں مجھ سے نارووال کی سیاست کے بارے میں سوال ہوئے۔ میں ہمیشہ دانیال عزیز کے ساتھ اپنے تعلق کا حوالہ دیتے ہوئے رائے زنی سے گریز کرتا رہا ہوں۔
گزشتہ چند دنوں سے مگر واٹس ایپ پیغامات اور بسااوقات براہ راست ٹیلی فون کے ذریعے مجھے شکر گڑھ کے بے شمار افراد یہ بتانا شروع ہوگئے کہ مبینہ طورپر احسن اقبال کے "ایماء" پر مقامی پولیس ان کے مخالفین کی زندگی اجیرن بنارہی ہے۔ حقیقت یہ رہی کہ جو افراد مجھ سے رابطے کررہے تھے ان کا تعلق تحریک انصاف سے تھا۔ اپنے تئیں وہ چودھری انور عزیز کے حوالے سے "انسانی حقوق" اور "سیاسی رواداری" کے خودساختہ چمپئن بنے نصرت جاوید سے اپنی داستان بتانے کو رابطے کررہے تھے۔ میں ان سے "شعلہ تھا بجھ چکا ہوں، " پر مبنی رویہ اپناتے ہوئے کنی کتراتا رہا۔ ایک ہفتے سے مگر ایسے لوگ بھی شکوہ کنائی میں مصروف ہوگئے ہیں جو 8فروری کے دن دانیال عزیز کو ووٹ دینا چاہ رہے تھے۔ میں ان کی سنائی کہانیاں بھی نظرانداز کرتا رہا۔
اتوار کی صبح کالم دفتر بھیجنے کے بعد اخبارات کا پلندہ اٹھایا تو اردو اخبارات کے صفحہ اوّل پر خبر تھی کہ احسن اقبال صاحب کے فرزند ہفتے کی رات جس گاڑی میں سوار ہوکر کہیں جارہے تھے اس پر "نامعلوم افراد" کی جانب سے فائرنگ ہوئی ہے۔ میں نے وہ خبرپڑھی تو دل دہل گیا۔ فوراََ یاد آیا کہ احسن اقبال صاحب پر بھی 2017ء میں ان دنوں قاتلانہ حملہ ہوا تھا جب ان کی جماعت کو بے بنیاد الزامات لگاتے ہوئے "اسلام دشمن" ثابت کرنے کی کوشش ہوئی تھی۔ خدا کا شکر ہے کہ احسن صاحب بچ گئے۔ ان پر ہوا حملہ اگرچہ اس وجہ سے بھی قابل مذمت تھا کہ وہ ایک دینی گھرانے کے نمائندہ ہیں۔ مجھے شبہ ہوا کہ احسن اقبال پر حملہ کرنے والے انتہا پسند جنونیوں ہی نے ان کے فرزند کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہوگی۔ یاد رہے کہ نارووال اور شکرگڑھ میں مذہبی انتہا پسندی گزشتہ چند برسوں میں بہت تیزی سے پھیلی ہے۔ 2024ء کے انتخابات میں وہ اپنا اثر دکھانے کو ڈٹے ہوئے ہیں۔
اتوا ر کی شام تک مگر میرے فون پر آئے بے تحاشہ پیغامات کے ذریعے اندازہ ہوا کہ مقامی پولیس کو اس امر پر مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ دانیال عزیز اور اس کے سرکردہ حامیوں کو "نامعلوم افراد" کی اس فہرست میں ڈال کر گرفتار کرلے جن پر احسن اقبال کے فرزند کی کارپر گولی چلانے کا الزام لگایا گیا ہے۔ علاقے میں اس کی وجہ سے خوف وہراس پھیلا ہوا ہے۔ کچھ لوگوں نے اس شبے کا اظہار بھی کیا کہ دانیال عزیز کو بھی اب اپنی "جند بچانے" کیلئے حفاظتی ضمانت کروانا ہوگی۔
اگر ایسا ہوا تو یہ ایک درد ناک کہانی ہوگی۔ احسن اقبال امریکہ کی اعلیٰ ترین یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ شخص ہیں جنہیں دور اندیش "مفکر" اور استاد تصور کیا جاتا ہے۔ مذہبی انتہا پسندوں کی جانب سے ہوئے حملے کے علاوہ وہ بے بنیاد الزامات کے تحت احتساب بیورو کی زیادتیوں کا بھی مسلسل نشانہ رہے ہیں۔ دانیال عزیز بھی بوسٹن یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ کتابوں کا رسیا اور تحقیق کے جنون میں مبتلا۔
احسن اقبال اور دانیال عزیز کی نارووال اور شکرگڑھ کی مقامی سیاست میں خود کو ہر صورت مثبت سیاست کی قابل تقلید علامتیں بناکر پیش کرنا چاہیے۔ وہ سیاستدان جو تھانہ کچہری کی مداخلت کے بغیر ایک دوسرے کے خلاف دلیل کے ذریعے انتخابی میدان میں جنگ لڑتے ہیں۔ فرض کیا اگر یہ تاثر گہرا ہونا شروع ہوگیا کہ احسن اقبال مقامی پولیس کو سیاسی دشمنوں کو نیچادکھانے کے لئے استعمال کررہے ہیں تو ان کی جماعت کو بھی ازحد نقصان ہوگا۔
پہلے ہی خلق خدا کی اکثریت میں یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ اس جماعت کو چوتھی با اقتدار میں لانے کے لئے تحریک انصاف کے خلاف ریاستی جبرانتہائوں کو چھورہا ہے۔ دانیال عزیز کے حوالے سے شکرگڑھ میں ابھرتے تصور سے پیغام یہ پھیلے گا کہ اب مسلم لیگ (نواز) اپنی صفوں ہی میں سے جائز وناجائز وجوہات کی بنا پر ناراض ہوئے افراد کو بھی دیوار سے لگانا شروع ہوگئی ہے۔ بہتر یہی ہوگا کہ مذکورہ تصور شدت سے جھٹلانے کی کوشش کا آغاز ہو۔