عمران خان صاحب کے اندازِ سیاست وحکومت کے بارے میں ہزاروں تحفظات کے باوجود میں خلوص دل سے یہ سوچتا ہوں کہ انہیں محلاتی سازشوں کے ذریعے تیار ہوئی تحریک عدم اعتماد کے استعمال سے وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے سے گریز اختیار کرنا چاہیے تھا۔ انہیں اگر ہر صورت گھر بھیجنا ہی مقصود تھا تو رواں برس کے جون کا انتظار کرلیا جاتا۔
اس ہفتے کا آغاز ہوتے ہی آئندہ مالی سال کا بجٹ قومی اسمبلی سے منظوری کے لئے تیار کر نا لازمی ہے۔ یہ بات دیوار پر لکھی نظر آرہی ہے کہ روس کے یوکرین پر حملے کے علاوہ پاکستان کے آئی ایم ایف سے سنگین تر ہوتے معاملات عمران حکومت کو ایسا بجٹ تیار کرنے کے قابل ہی نہیں چھوڑیں گے جو عوام کو مطمئن رکھ پائے۔ اپوزیشن جماعت کو اس بجٹ کے خلاف یکسو ہوکر اسے قومی اسمبلی سے مسترد کروانے پر توجہ مرکوز رکھنا چاہیے تھی۔ وہ بجٹ مسترد ہوجاتا تو عمران خان صاحب ازخود اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لئے قومی اسمبلی سے ایک بار پھر اعتماد کا ووٹ لینے کو مجبور ہوجاتے۔ اب کی بار شاید وہ اس ضمن میں ناکام بھی رہتے۔
منطقی اعتبار سے معقول ومناسب نظر آنے والے ٹائم ٹیبل پر انحصار کے بجائے اپوزیشن جماعتوں نے لیکن مارچ کے پہلے ہفتے ہی میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی کے سپیکر کو بھجوادی۔ اس ضمن میں جو بے صبری اپنائی گئی اس کی وجوہات اپوزیشن رہ نما خلوت میں ہوئی گفتگو کے دوران بھی کھل کر بیان کرنے سے کترارہے ہیں۔ یہ مگر "سب سمجھتے ہیں اور سب چپ ہیں " والا معاملہ ہے۔
تحریک عدم اعتماد کے تناظر میں اپنائی بے صبری کی وجوہات کا مجھ دو ٹکے کے رپورٹرکو بخوبی اندازہ ہے۔ آزادیٔ اظہار کے رواں موسم میں تاہم انہیں کھل کر بیان کرنے کی جرأت سے محروم ہوں۔ گزشتہ تین برس سے محض صحافت کی بدولت ر زق کمانے کے راستے میرے لئے محدود سے محدود تر ہوچکے ہیں۔ یہ کالم ہی واحد وسیلہ رہ گیا ہے۔ محض یہ عرض کرتے ہوئے آگے بڑھ جانے کو لہٰذا ترجیح دوں گا کہ وطن عزیز کے طاقت ور عہدے پر تعیناتی کے حوالے سے رواں برس کا نومبر بہت اہم ہے۔ اس مہینے کی جانب بڑھتے ہوئے ہمیں 29مئی 2022ء کے دن سے بھی گزرنا ہوگا۔ وہ دن گزرگیا تو مذکورہ تعیناتی کے حوالے سے وزیراعظم کا منصب حتمی انداز میں بااختیار ہونا شروع ہوجائے گا۔ مارچ 2022ء میں پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد اسی باعث مجھے محلاتی سازش محسوس ہورہی ہے۔
بہت سوچ بچار کے بعد تیار ہوئی محلاتی سازشیں عموماََ ناکام نہیں ہوتیں۔ سیاسی منظر نامے پر نمایاں حقائق کا اگرچہ منطقی اعتبار سے جائزہ لیں تو عمران خان صاحب کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف اکتوبر1989ء میں پیش ہوئی تحریک کی طرح ناکام ہوجانا چاہیے۔ 1989ء میں ایک بااختیار صدر مملکت اور آرمی چیف کے علاوہ آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے اور باوسائل صوبے کے وزیر اعلیٰ نواز شریف صاحب بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کو گھر بھیجناچاہ رہے تھے۔ ان دنوں کے آئین میں "فلورکراسنگ" کی راہ مسدود کرنے والی شقیں بھی موجود نہیں تھیں۔ عمران خان صاحب ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر محترمہ کے برعکس کہیں زیادہ تگڑے نظر آتے ہیں۔ نظر آنے والے حقائق اور ان کے منطقی جائزے کی بدولت اخذ کردہ نتائج تاہم ہمارے آدھا تیتر آدھا بٹیر والے نظام کے لئے کسی وقعت کے حامل نہیں۔ دو جمع دو کا نتیجہ ہمارے ہاں 22کی صورت بھی برآمد کیا جاسکتا ہے۔ اشرافیہ کے "بڑے جانور" کا جی چاہے تو وہ بچے کی جگہ انڈہ بھی دے سکتا ہے۔
محض نظر آتے حقائق کی وجہ سے عمران حکومت پر اعتماد ہوتی تو تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی کے دفتر میں جمع ہوجانے کے تین دن بعد ہی مذکورہ ایوان کا اجلاس بلالیتی۔ وہاں اپنی اکثریت دکھا کر اپوزیشن کو خفت سے دو چار کردیتی۔ قومی اسمبلی کا اجلاس جلد ازجلد طلب کرنے کے بجائے اسے زیادہ سے زیادہ دنوں تک ٹالنے کی ہر ممکن کوشش ہوئی۔ اس کے علاوہ مضحکہ خیز خبر یہ بھی سنائی گئی کہ حکومتی جماعت کے اراکین قومی اسمبلی تحریک عدم اعتماد پر گنتی کے لئے ہوئے اجلاس سے غیر حاضررہیں گے۔ اس حیران کن اطلاع کے بعد یہ چورن بھی بازار میں لایاگیا کہ وزیر اعظم صاحب تحریک عدم اعتماد پر گنتی کے لئے بلائے اجلاس سے قبل سپیکر قومی اسمبلی کو باقاعدہ چٹھی کے ذریعے آگاہ کریں گے کہ ان کے خلاف حکومتی اراکین کی جانب سے ڈالے ووٹوں کو مسترد ٹھہراتے ہوئے شمار ہی نہ کیا جائے۔ منحرف اراکین کی نااہلی کے لئے الیکشن کمیشن کو متحرک کرنے کو سپیکر ہی کی جانب سے سرکاری چٹھی بھی اسی دن لکھ دی جائے۔
ممکنہ طورپر بغاوت کو آمادہ ہوئے حکومتی اراکین اسمبلی کو "ان کے گھر میں ڈرادینے" کی خاطر جس بچگانہ حکمت عملی کا ڈھول پیٹا گیا وہ عمران حکومت پر حاوی گھبراہٹ کا بے ساختہ اظہار تھا۔ مذکورہ حکمت عملی نے مطلوبہ اہداف کے حصول کے بجائے واضح کردیا کہ حکومت کے اپنے بندے پورے نہیں ہیں۔ اسی باعث اتحادی جماعتیں بھی فیصلے کی اس گھڑی میں عمران خان صاحب کی حمایت میں ڈٹے رہنے کے عوض اپنے جثے سے کہیں زیادہ کی طلب گار ہیں۔
مذکورہ حکمت عملی کو رعونت سے پیش کرتے ہوئے یہ حقیقت بھی فراموش کردی گئی کہ کسی بھی رکن اسمبلی کو ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم رکھنا آئین کی سنگین ترین خلاف ورزی ہے۔ تحریک عدم اعتماد پر گنتی کے دوران حکومتی صفوں سے باہر آیا رکن اسمبلی فلور کراسنگ کے خلاف بنائے قوانین کی وجہ سے یقینا نااہل ہوسکتا ہے۔ اس کی نااہلی یقینی بنانے کے لئے مگر لازمی ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد پر گنتی کے لئے بلائے اجلاس میں موجود ہو اور وہاں وزیر اعظم کے خلاف ووٹ ڈالنے کھڑا ہوجائے۔ حکومتی اراکین کو محض ایک چٹھی لکھ کر تحریک عدم اعتماد پر ہوئی گنتی کے اجلاس میں شرکت سے روکا نہیں جاسکتا۔ اس ضمن میں لکھی چٹھی بلکہ کئی حکومتی اراکین کو وزیر اعظم کے خلاف تحریک استحقاق پیش کرنے کا حق فراہم کردے گی اور حکومتی اراکین کی جانب سے اپنے ہی قائد کے خلاف پیش ہوئی تحریک استحقاق ہماری سیاسی تاریخ کو ایک اور شرمسار کردینے والی نظیر مہیا کرسکتی ہے۔
جمعرات کی صبح یہ کالم لکھ کر دفتر بھجوادینے کے بعد اپنے گھر کے کونے میں تنہا بیٹھ کر دہی کھانے سے قطعاََ محروم رہا ہوں۔ طویل وقفے کے بعد گھر سے نکل کر رات گئے تک سیاسی احباب کی محفلوں میں جانا پڑا۔ اتوار کی صبح اٹھ کر یہ کالم لکھتے ہوئے محسوس کررہا ہوں کہ حکومت ابھی تک اپنی اکثریت صاف شفاف انداز میں دکھانے کے اعتماد سے محروم ہے۔ عمران خان صاحب کے چند وفادار مصاحب مگر یہ امید باندھے ہوئے ہیں کہ اتوار کی رات تک شاید کچھ "اہم ملاقاتیں " ہوجائیں گی۔ ان کے نتیجے میں "باہمی اعتماد"بحال ہونے کی راہ نکل آئے گی۔ اس کے بعد فون کھڑکیں گے اور اپوزیشن جماعتیں ہاتھ ملتی رہ جائیں گی۔ حکومتی ذرائع کے برعکس مگر اپوزیشن جماعتیں اتوار ہی کے دن حکومت کی (اب تک)اتحادی جماعتوں سے "مثبت خبر" آنے کی امید باندھے ہوئے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے لہٰذا پیر کا سورج طلوع ہونے کے انتظار کو ترجیح دوں گا۔