علی امین گنڈاپور سے کبھی سرِ راہ تعارفی ملاقات بھی نہیں ہوئی۔ انہیں فقط ٹی وی سکرینوں اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی کلپس کی بدولت جانتا ہوں۔ اپنے حلیئے، رویے اور بول چال سے وہ ایک روایات شکن سیاستدان نظر آتے ہیں۔ عمران خان کے وفادار اور ان کی خاطر جان دینے کو ہمہ وقت تیار۔ ذات کے اس رپورٹر کو لیکن فروری 2024ء کے انتخاب کے قریب موصوف کے بارے میں انتہائی قابل اعتماد ذرائع کی مہربانی سے خبر یہ ملی کہ وطن عزیز میں "حکومتی بندوبست" تشکیل دینے والی قوتوں کو بھی وہ بہت پسند ہیں۔ ان کی سرپرستی میں علی امین بلکہ ضرورت سے زیادہ "انقلابی" ہونے کی سہولت سے بھی مالا مال ہیں۔
"حکومتی بندوبست" کے جانے پہچانے "معمار"مگر جس کے سر پہ شفقت کا ہاتھ رکھتے ہیں انہیں "سیاست" کے میدان میں اکثر ناکام ہوتے پایا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جن دنوں "تحریک نظام مصطفیٰ" بہت جوش وخروش سے جاری تھی تو رفیق باجوہ نام کے ایک صاحب بہت مشہور ہوئے۔ جلسوں میں سٹیج پر آنے کے بعد مائیک سنبھالتے تو لاہور کے بزرگوں کو عطاء اللہ شاہ بخاری یاد آجاتے۔ تحریک ہی کے دوران مگر وہ بھٹو صاحب سے "خفیہ ملاقات" کے لئے اسلام آباد گئے۔ ان کی ملاقات تاہم "خفیہ" نہ رہ پائی اور باجوہ صاحب ہمیشہ کیلئے گمنامی کی نذر ہوگئے۔
باجوہ صاحب کے بعد "معماران حکومتی بندوبست" کے مزید چہیتوں کا ذکر شروع کردیا تو یہ کالم طویل مضمون میں بدل جائے گا۔ اصل موضوع کی جانب آتے ہوئے اعتراف کرتا ہوں کہ میں گزشتہ کئی ہفتوں سے علی امین گنڈاپور کا دورِ حاضر کے رفیق باجوہ بن جانے کا منتظر تھا۔ ہفتے کے دن بالآخر وہ میرے خدشات میں سمائی منزل کی جانب بڑھنے کو چل پڑے ہیں۔ اڈیالہ جیل میں تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل سے گفتگو کرتے ہوئے بانی تحریک انصاف نے علی امین گنڈاپور کو اپنی جماعت کی صوبائی صدارت سے ہٹادیا ہے۔ ان کی جگہ جنید اکبر خان کو آگے بڑھایا گیا ہے جو اس سے قبل قومی اسمبلی کی سب سے طاقتور کمیٹی یعنی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین بھی منتخب ہوچکے ہیں۔ جنید اکبر کا تعلق مالاکنڈ سے ہے اور وہ ڈیرہ اسماعیل خان سے ابھرے ٹرمپ نما علی امین گنڈاپور کے خیر خواہ نہیں۔ نجی ہی نہیں بلکہ اکثر صحافیوں کے سامنے بھی ان پر تنقید سے گھبراتے نہیں۔
علی امین گنڈا پور کو تحریک انصاف کی خیبرپختونخواہ تنظیم کی صدارت سے ہٹایا گیا تو میں نے ان دنوں Xکہلاتے ٹویٹر پر ایک سوال اٹھادیا۔ تحریک انصاف کے اندورنی معاملات سے بخوبی آگاہ لوگوں سے رہ نمائی کی درخواست کی۔ جاننا چاہا کہ علی امین گنڈا پور وزیر اعلیٰ کے منصب پر بھی فائز رہ پائیں گے یا نہیں۔ اگر جواب نفی میں ہے تو ان کی جگہ کون لے سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر چھائے عمران خان کے جاں نثاروں کو میرا سوال پسند نہیں آیا۔ اکثریت نے حسب عادت مجھے "اچھے" القاب سے پکارنے کے بعد جاننا یہ چاہا کہ فلاں فلاں چیف منسٹر کب تبدیل ہورہا ہے۔ لونڈے لپاڑوں کے برعکس تحریک انصاف کے سنجیدہ لوگوں کی اکثریت نے عاطف خان کو ان کا متبادل بناکر پیش کیا۔ تحریک انصاف کے چند جانے پہنچانے کارکن البتہ خیبرپختونخواہ اسمبلی کے سپیکر کو علی امین کے ممکنہ متبادل کے طورپر دیکھ رہے تھے۔ مجھے جواب دینے والوں کی اکثریت اگرچہ مصررہی کہ علی امین گنڈاپور ہی وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز رہیں گے۔ مجھ ایسے "لفافوں" کو ویسے بھی تحریک انصاف کے بجائے دیگر جما عتوں کے معاملات پر توجہ مرکوز رکھنا چاہیے۔
پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا ذکر ہو تو میں ایک حوالے سے ان میں کوئی فرق ہی محسوس نہیں کرتا۔ ہماری سب بڑی جما عتوں میں "اندرونی جمہوریت" موجود ہی نہیں۔ مسلم لیگ (نون) دربارِ جاتی امراء کے اشاروں پر لبیک کہتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے ہر شخص کو آصف علی زرداری کے "وژن" سے رجوع کرنا لازمی ہے اور ایسا ہی معاملہ تحریک انصاف کے ساتھ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان دنوں مخصوص حالات کے سبب عمران خان کو ایسے سیاستدان کی صورت محض دیکھا نہیں بلکہ تقریباََ "پوجا" جارہا ہے جس نے "لوگوں کو شعور" دیا ہے۔ نظام کہنہ کی سیاست کے پرخچے اڑادئے ہیں۔
عمران خان میں نظام کہنہ کے پرخچے اڑانے والا دیکھنے والوں کو ذوالفقار علی بھٹو یاد نہیں۔ موصوف نے بھی 1970ء کے انتخابات میں "پرانی سیاست دفن" کردی تھی۔ 1977ء تک پہنچتے ہوئے مگر عطار کے ان ہی لڑکوں سے رجوع کرنا شروع ہوگئے جو برطانوی سامراج کے دنوں سے ہمارے عوام کو رعایا بنائے ہوئے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگاکر انہیں دوبارہ نظام کہنہ کا ویری بناکر پیش کرنا شروع کردیا۔ سچ مگر یہ بھی ہے کہ بھٹو فوجی آمر کے آگے جھکے نہیں۔ پھانسی پر لٹک کر تاریخ کی نگاہ میں سرخرو ہوگئے۔ عمران خان صاحب کا میری دانست میں "اصل امتحان" اب شروع ہوا ہے۔ 8فروری 2024ء کے روز وہ اپنی کشش کا چیک کیش کرواچکے ہیں۔ مستقبل کے لئے اب انہیں کوئی نئی گیم لگانا ہوگی۔ اس گیم کے خدوخال نما یاں ہونے تک میں خاموش رہنے کو ترجیح دوں گا۔
علی امین گنڈا پور کا عمران خان صاحب گزشتہ کئی مہینوں سے شک وشبہ کی نگاہ سے جائزہ لے رہے تھے۔ کسی بھی سیانے سیاستدان کی طرح تحریک انصاف کے بانی بھی "حکومتی بندوبست" کے معماروں کی سوچ جاننے کے لئے "ذرائع" کی تلاش میں رہتے ہیں۔ علی امین گنڈا پور اس تناظر میں ان کے بہت کام آئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کم از کم تین بار وفاقی اور پنجاب حکومت کو کنٹینروں کی پناہ میں محصور ہونے کو مجبور بھی کیا۔ معاملات کو مگر وہاں تک لے جانہ سکے جسے انگریزی میں "اینڈ گیم" کہا جاتاہے۔ "اینڈ گیم" تک پہنچنے میں ناکامی نے عمران خان کو مجبور کیا کہ وہ اپنی اہلیہ کو جو شرعی پردے میں رہنے کو ترجیح دیتی ہیں "اجازت" دیں کہ وہ فدائین عمران خان کا ایک گروہ لے کر 24نومبر2024ء کے روز اسلام آباد کے ڈی چوک آئیں۔ ڈو اور ڈائی" کے حکم پر عمل کرتے ہوئے بشریٰ بی بی تمام تر رکاوٹوں کے باوجود 26نومبر کی شام اسلام آباد میں داخل ہوگئیں۔
ڈی چوک کے نہایت قریب پہنچ جانے کے بعد مگر علی امین گنڈاپور نے "حکومتی بندوبست" کے معماروں کے ساتھ تخت یا تختہ والا پھڈا ڈالنے سے گریز کیا۔ دریں اثناء پراسرار حالات میں وہ کنٹینر بھی "اچانک" جل گیا جس میں بیٹھ کر بشریٰ بی بی نے ڈی چوک پہنچ کر اس وقت تک وہاں دھرنا دئے رکھنا تھا جب تک حکومت عمران خان کو رہا کرنے کو آمادہ نہ ہوتی۔ علی امین کی ناقص حکمت عملی نے مگر 26نومبر کی رات "ڈو اور ڈائی" والی گیم ناکام بنادی۔ اس ناکامی نے عمران خان کو ایک "ٹرمپ کارڈ" سے بھی محروم کردیا۔
ٹرمپ سے میری مراد امریکی صدر نہیں بلکہ انگریزی محاورے والا کارڈ ہے۔ میری دانست میں گھریلو اور پردہ دار خاتون ہوتے ہوئے فدائینِ عمران خان کے کاررواں کے ساتھ بشریٰ بی بی کا اسلام آباد داخل ہوجانا "ٹرمپ کارڈ" ہی تو تھا۔ اسے بھرپور ا نداز میں کھیلنے کے بجائے علی امین حکومتی بندوبست کے معماروں سے مذا کرات کے بعد خیبرپختونخواہ لوٹ گئے اور بشریٰ بی بی کے لئے بھی اس کے علاوہ کوئی راہ نہ چھوڑی۔ ڈی چوک کے بہت قریب پہنچ کر پشاور لوٹ جانا علی امین گنڈاپور کی وہ غلطی ہے جسے فراموش کرنے کو عمران خان کبھی آما دہ نہیں ہوں گے۔ وہ اسی غلطی کی سزا دینے کے لئے مناسب وقت کے انتظار میں تھے۔ بشریٰ بی بی کے پشاور میں طویل قیام کی بدولت عمران خان کو وہاں کے حکومتی بندوبست کا بھی بخوبی اندازہ ہوچکا ہے۔ وہ اس بندوبست کو براہ راست چلانا چاہتے ہیں۔ دونوں طرف کھیلنے والے اب انہیں درکار نہیں۔