انقلابی ہونے کا دعوے دار نہیں۔ نوکر پیشہ آدمی ہوں۔ عمر تمام رزق کے حصول کے لئے ضروری مشقت کی نذر کردینے کے باوجود وطن عزیز میں جمہوری نظام کے قیام واستحکام اور آزادی اظہار کی عملی صورتوں کو توانا بنانے میں اپنی بساط کے مطابق حصہ ڈالتا رہا۔ یہ لکھنے کے بعد عرض یہ بھی کروں گا کہ ہمارے ہاں ان دنوں جو حکومتی بندوبست ہے وہ میری خواہشات وتوقعات پر ہرگز پورا نہیں اترتا۔ اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
ناپسندیدہ نظام کو بدلنے کے لئے مگر اس نظام کے بنجر پن سے اُکتائے افراد ہی کی بے تحاشہ تعداد کو کم از کم نکات پر متحد ہونے کے بعد طویل جدوجہد کی ضرورت ہے۔ موبائل فون پر نصب سوشل میڈیا ایپس پر مخالفین کے خلاف گالیوں کی بوچھاڑ اور آپ سے اتفاق نہ کرنے والوں کو "بکائو" وغیرہ ٹھہرانے سے "تبدیلی" نہیں آتی۔ پاکستان سے کسی نہ کسی طرح نکل کر امریکہ جیسے ملکوں میں مقیم ہوئے "انقلابیوں" کے دئیے طعنے ویسے بھی بے تحاشہ وجوہات کی بنیاد پر دوستوں کو بھی دشمن بنانے کے لئے کافی ہیں۔
پاکستان کے سیاسی منظر نامے بدلنے میں دنیا کی سب سے بڑی طاقت کہلاتا امریکہ یقیناََ اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ کہانی 1950ء کی دہائی سے شروع ہوگئی تھی۔ نوجوان نسل کو یاد دلانے کے لئے البتہ حالیہ تاریخ سے شروع کرتے ہوئے جنرل مشرف کے نو سالہ دورِ اقتدار کے انجام میں امریکہ کے دبائو پر ہوئے "این آر او" کا ذکر کافی ہوگا۔ امریکہ میں مقیم "انقلابی" مگر اس رہ نما کے "پچاری" ہیں جو مصر ہیں کہ ان کی حکومت کو امریکہ کی بائیڈن انتظامیہ نے روس کے صدر پوٹن کے ساتھ ملاقات سے خفا ہوکر پاکستان میں موجود اپنے "میر جعفروں "کی مدد سے برطرف کیا تھا۔
اسی باعث وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے برطرف ہوجانے کے بعد وہ روزانہ کی بنیاد پر شہر شہر گئے۔ وہاں عوامی اجتماعات سے خطاب کیا۔ فضا میں امریکہ میں مقیم پاکستانی سفیر کی جانب سے آئے "سائفر" کا حوالہ دیتے ہوئے "ہم کوئی غلام ہیں" کے نعرے بلند کرتے رہے۔ 1970کی دہائی میں میری نسل کی جوانی بھی "امریکی سامراج" کے خلاف نعرے لگانے اور اس کی وجہ سے پولیس کی لاٹھیاں کھانے کی نذر ہوگئی تھی۔ اس کے باوجود جوانی سے بڑھاپے کی طرف بڑھتے ہوئے امریکہ کی کامل معاونت کے ساتھ جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے لگائے مارشل لاء بھگتے۔ عمر کے آخری حصے میں پہنچ کر دریافت ہوا کہ امریکہ کے ساتھ ہماری اشرافیہ کا "ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے، "والا معاملہ ہے۔
بدقسمتی سے وسوسوں کا مارا دل اس وقت درست ثابت ہوا جب بائیڈن انتظامیہ ہی کے دوران امریکہ میں مقیم عاشقان عمران کی کاوشوں سے وہاں کی ا یوان نمائندگان کی بھاری بھر کم تعداد نے نظر بظاہر "امریکی سازشوں "کی بدولت پاکستان کے وزیر اعظم کے منصب سے فارغ ہوئے عمران خان کی حمایت میں ایک قراردادمنظور کی۔ ان کیلئے "انصاف" اور بہتر سلوک کا مطالبہ کیا۔ بائیڈن نے جب اس قرارداد کو توجہ کے قابل ہی نہ گردانا تو امریکہ میں مقیم عاشقان عمران نے ان کے مخالف ٹرمپ کا دامے، درمے، سخنے ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا۔
ٹرمپ کی حمایت کرتے ہوئے مجھ جیسے جاہل پاکستانیوں کو یہ بھی سمجھانے کی کوشش ہوئی کہ اس کی سابقہ صدارت کے دوران عمران خان بطور وزیر اعظم پاکستان وائٹ ہائوس گئے تھے۔ وہاں انہیں ٹرمپ ایوان صدر کے اس حصے میں لے گیا جو خاندان کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس حصے میں ٹرمپ کی اہلیہ نے بڑے چائو سے خان صاحب کے ساتھ سیلفی کھچوائی۔ بات فقط اس ملاقات تک ہی محدود نہ رہی۔
ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ ٹرمپ نہایت سنجیدگی سے یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ کی ڈیپ اسٹیٹ (دریں دولت یا وہ جسے ہمارے ہاں "مقتدرہ" کہا جاتا ہے) کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتی ہے۔ وہ 2020ء کا انتخاب بھی جیت گیا تھا۔ "ڈیپ اسٹیٹ" نے مگر جو بائیڈن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ عاشقان عمران سنجیدگی سے یہ سوچتے ہیں کہ "ڈیپ اسٹیٹ" کے ہاتھوں زخمی ہونے کی وجہ سے ناراض ہوا ٹرمپ عمران خان کو بھی اپنے جیسا سیاستدان سمجھتا ہے جسے "میر جعفروں" نے چلنے نہیں دیا۔ پاکستان میں عمران خان کے علاوہ وہ کسی سیاستدان کو ویسے بھی جانتا ہی نہیں۔ وہ اقتدار میں آیا تو عمران خان پر "مزید ظلم" نہیں ہونے دے گا۔ انہیں جیل سے نکلوانے کے لئے دبائو بڑھائے گا۔ امید بلکہ یہ بھی دلائی گئی کہ دبائو بڑھانا تو دور کی بات ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے امریکی صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اس کا ایک ٹیلی فون ہی عمران خان کی رہائی کے لئے کافی ہوگا۔
ٹرمپ کو اقتدار سنبھالے اب چوتھا مہینہ شروع ہوگیا ہے۔ عاشقان عمران کی توقع والا فون مگر اس نے کیا نہیں۔ گزشتہ ماہ البتہ امریکی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس نے پاکستان کی موجودہ حکومت کا خصوصی شکریہ ادا کیا جس نے داعش سے تعلق رکھنے والے ایک اہم دہشت گرد کو گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کیا ہے۔ پیر کے روز امریکی وزیر خارجہ کی پاکستان کے وزیر خارجہ سے ٹیلی فون پر طویل گفتگو بھی ہوئی۔
اس گفتگو کے بارے میں جو پریس ریلیز جاری ہوئی ہے اس میں افغانستان کا ذکر نمایاں ہے اور اس ملک کے تناظر میں اس اسلحے کے ذکر کی بازیابی کا تذکرہ بھی ہوا جو امریکی افواج 2021ء میں اس ملک سے رخصت ہوتے ہوئے کابل چھوڑ آئی ہیں۔ پیر کے روز امریکہ اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کے مابین ہوئی گفتگو کے بارے میں جاری ہوئی پریس ریلیز پر غور کریں تو میرے جھکی ذہن میں بچپن کی ایک فلم میں شمیم آراء پر فلمایا گانا "یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے" گونجنا شروع ہوگیا۔
امریکہ میں مقیم عاشقان عمران مگر اب بھی مصر ہیں کہ امریکہ کے ایک رکن ایوان نمائندگان -جوولسن- نے جو بل متعارف کروایا ہے وہ جلد ہی قانون کی صورت اختیار کرلے گا۔ وہ پاس ہوا تو ہماری "مقتدرہ" کے کلیدی افسران امریکہ جانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ ان پر کئی نوعیت کی پابندیاں لگ جائیں گی۔
میں عاشقان کے دعوے دیکھتا، پڑھتا اور سنتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ اقتصادی ہیجان کے موجودہ عالم میں جبکہ چین، جاپان، سنگاپور اور تائیوان جیسی مضبوط منڈیوں کے سٹاک ایکس چینج بھی ٹرمپ کی ٹیرف پالیسیوں کی وجہ سے کریش کرچکے ہیں تو امریکی عوام اپنے نمائندگان سے ٹرمپ کی ٹیرف پالیسیوں کے بارے میں سوالات پوچھیں گے یا عمران خان صاحب کی جیل سے فی الفور رہائی اور پاکستان کے وزیر اعظم کے منصب پر بحالی سے ہی دنیا کسادبازاری کے بڑھتے ہوئے سیلاب سے محفوظ رہ سکتی ہے؟