Saturday, 15 March 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Nusrat Javed
  4. Beizzati Zelensky Ki Hui Ya Trump Ki?

Beizzati Zelensky Ki Hui Ya Trump Ki?

کیمروں کے سامنے بٹھاکر امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے نائب صدر کی معاونت سے یوکرین کے صدر زلنسکی کی جو بے عزتی کی ہے وہ دنیا بھر میں زیر بحث ہے۔ اس حوالے سے میرے بھی کچھ "دانشورانہ" خیالات ہیں۔ ان کے تمامتر پہلوئوں کے اظہار کے لئے مگر ایک کالم کافی نہیں۔ کلیدی نکتہ جس پر لوگوں نے توجہ نہیں دی میری دانست میں زلنسکی کی نہیں بلکہ بائیڈن کی بے عزتی تھی۔ ٹرمپ کو صدارتی انتخاب جیتے ہوئے تین سے زیادہ ماہ گزرچکے ہیں۔ اس کی جبلت میں شامل منتقم المزاج شخص مگر اپنے پیشرو کو ابھی تک بھولنے اور بخشنے کو تیار نہیں۔ جوبائیڈن کو وہ امریکی تاریخ کا "احمق ترین صدر" گردانتا ہے۔ اسے گماں ہے کہ اگر 2020ء کا انتخاب اس سے "چرایا" نہ گیا ہوتا تو پوٹن کبھی یوکرین پر حملہ آور نہ ہوتا۔ روسی صدر نے درحقیقت "نالائق" بائیڈن کی وائٹ ہائوس میں موجودگی کا فائدہ اٹھایا۔

روس کے یوکرین پر حملے کا "احمق بائیڈن" کو ذمہ دار ٹھہرانا سراسر زیادتی ہے۔ اسی باعث یوکرین کا صدر اسے یاد دلانے کو مجبور ہوا کہ روس نے یوکرین میں دراندازی اوبامہ کے دورِ صدارت ہی میں شروع کردی تھی۔ ٹرمپ اس کے بعد صدر منتخب ہوا تب بھی اس نے یوکرین کی ہتھیائی زمین اسے لوٹائی نہیں۔ جو رقبہ روس نے ہڑپ کیا تھا اس میں کریمیا کا جزیرہ بھی شامل ہے۔ یہ جزیرہ کبھی خلافت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ اس کے زوال کے بعد روس اس پر قابض ہوگیا تھا۔

روسی شہنشاہیت اور خلافت عثمانیہ کی تاریخ فی الوقت بھلادیتے ہیں۔ غور طلب یہ حقیقت ہے کہ پوٹن سے محبت سے زیادہ زلنسکی سے کیمروں کے روبرو مباحثہ کرتے ہوئے بنیادی طورپر امریکہ کا صدر اور نائب صدر بائیڈن کو حقارت کا نشانہ بنائے ہوئے تھے۔ کیمرہ ڈونلڈٹرمپ کی کمزوری ہے۔ کاروباری اعتبار سے بہت ذہین اور کامیاب نہ ہونے کے باوجود اس نے نیویارک کے میڈیا میں "دوست" تلاش کئے۔ مقامی اخبارات میں امیر لوگوں کی دعوتوں کے بارے میں جو کالم لکھے جاتے ہیں ٹرمپ اپنے دوستوں کی بدولت اکثر ان میں نمایاں طورپر قابل ذکررہتا۔

خود نمائی کی ہوس نے اسے TV Realty کی دنیا تک پہنچادیا۔ وہاں وہ ایسے پروگرام کا میزبان ہوا جس کے شرکاء کے مابین کامیاب کاروباری نسخے دریافت کرنے کا مقابلہ ہوتا۔ جو شریک پروگرام منافع بخش مگر قابل عمل منصوبہ پیش کرنے میں ناکام رہتا ٹرمپ اسے نہایت رعونت سے You Are Firedکہتے ہوئے پروگرام سے فارغ کردیتا۔ Apprentice(اپرنٹس) نام کا یہ پروگرام پورے 16برس تک چلتا رہا۔ اس کی وجہ سے ٹرمپ کو میڈیامیں چھائے رہنے کا ہر ڈھب آتا ہے۔ ہنر ابلاغ پرکامل گرفت کی وجہ سے امریکی معاشرے کے قدامت پرست شمار ہوتے حلقوں میں وہ انتہائی غیر اخلاقی حرکتوں کے ارتکاب کے باوجود قابل قبول ہوا۔ یوکرین کے صدر کی ڈانٹ ڈپٹ کے بعد اسی تناظر میں یہ کہنے سے باز نہیں آیا کہ کیمروں کے روبرو ہوئے اس واقعہ نے "اچھا ٹی وی (شو)" بنادیا ہے۔

ٹرمپ کی بائیڈن سے منتقم المزاج نفرت لیکن میرا درد سر نہیں۔ حیران میں اس وقت ہوا جب سوشل میڈیا پر چھائے میرے بے تحاشہ "انقلابی" ہم وطن اس امر پر حسرت کا اظہار کرتے پائے گئے کہ جس وقت ٹرمپ اپنے نائب صدر کے ساتھ مل کر وائٹ ہائوس آئے مہمان کی بے عزتی کررہا تھا تو وہاں زلنسکی کے بجائے پاکستان کا کوئی اہم عہدے دار بیٹھا ہونا چاہیے تھا۔ جوانی میں یہ بدنصیب بھی "انقلابی" رہا ہے۔ اپنے حکمران طبقات اور ہر نوع کی اشرافیہ کو آج بھی صدقِ دل سے خود غرض اور قابل تنقید محسوس کرتا ہوں۔ 2014ء سے بتدریج ہمارے ہاں صحافت کے روایتی ذرائع میں کھل کر لکھنے کی گنجائش ختم ہوچکی ہے اور پھونک پھونک کر لکھنے سے اکتاہٹ نہیں بلکہ شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔

مذکورہ جذبات کے باوجود نہایت دیانتداری سے اپنے کسی صدر، وزیر اعظم یا ریاستی ادارے کے سربراہ سے شدید نفرت کے ہوتے ہوئے بھی کبھی اس خواہش کا اظہار نہیں کیا کہ اسے کسی دوسرے ملک کا طاقتور تسلیم ہوا صدر تذلیل کا نشانہ بنائے۔ مذکورہ خواہش کا اظہار کسی بھی حوالے سے"حب الوطنی" کا دعویٰ نہیں ہے۔ کسی غیر ملکی کے ہاتھوں اپنے حاکم کی بے عزتی سے حظ اٹھانا درحقیقت میری کمزوری ہی کو اجاگر کرے گا۔ یہ پیغام دے گا کہ میں خود تو ہار کر بکری ہوگیا مگر اب جوش ملیح آبا دی کے ایک مصرعہ کے مطابق "اللہ جرمن کی توپوں میں کیڑے پڑیں" والا رویہ اختیار کرلیا ہے۔

سوشل میڈیا کی وجہ سے میسرگمنامی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے "انقلابی روپ" دھارنا میری دانست میں "احتیاط"نہیں بزدلی ہے۔ ہمارے ہاں آزادی اظہار پر جو قدغنیں یاریڈلائنز ہیں انہیں کئی بار عبور کرکے نوکریاں گنوائی ہیں۔ اب بھی میرے چند ساتھی ایسے امتحان سے گزررہے ہیں۔ میں بھی شایدبہت دیر تک اقبال کی بتائی "عقل" کی طرح لبِ بام کھڑا محو تماشہ نہ رہ سکوں۔ ایک منتقم المزاج ا ور خود پرست غیر ملکی کے ہاتھوں مگر اپنے بدترین دشمن کی بھی تذلیل برداشت نہیں کرسکوں گا۔ اس گماں میں مبتلا ہونے سے قطعاََ گریز سے کام لوں گا کہ جیسے اس نے "میرا بدلہ" لے لیا ہے۔ نئی نسل کے "انقلابی" جن کے Bulgeسے میرے بہت ہی پڑھے لکھے دوست خیر کی امیدیں باندھے ہوئے ہیں تاہم "دوسروں" کے ہاتھوں" وہ سب ہوتا دیکھنے کے خواہاں ہیں جو بذاتِ خود کرنے کے قابل نہیں رہے۔ ایسے "انقلاب" کو دور سے سلام۔

امریکہ اور یوکرین کے سربراہوں کے مابین ہوا ڈرامہ مجھے پہلے امریکہ اور بعدازاں پاکستان کی اندرونی سیاست میں الجھا گیا۔ کالم کے آغاز ہی میں لیکن عرض کردیا تھا کہ کیمروں کے روبرو TV Realty کے مہافنکار ٹرمپ نے جس انداز میں یوکرین کے صدر کی بے عزتی کی ہے وہ دنیا میں ہیجان وخلفشار کو مزید بھڑکائے گا۔

امریکہ کے قریب ترین اتحادی بھی اب مشکل وقت میں خود کو کاملاََ تنہا محسوس کریں گے۔ برطانیہ امریکہ کا حاکم رہا ہے۔ 1980ء کی دہائی سے مگر اسے واشنگٹن کی ہاں میں ہاں ملانے والے ادنیٰ کارندے کی طرح دیکھا جارہا ہے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم کی بھی ٹرمپ نے واشنگٹن میں کیمروں کے سامنے "کلاس" لینے کی کوشش کی۔ موصوف سفارت کارانہ مہارت سے بچ گئے۔ واشنگٹن سے لندن لوٹتے ہی مگر برطانیہ کے وزیر اعظم نے یوکرین کے صدر کو اپنے ہاں بلاکر روس کے خلاف مزاحمت پر ڈٹے رہنے کو سراہا۔ برطانیہ اور امریکہ کے مابین یہ تاریخی خلیج کا اظہار ہے اور اس کے اثرات سے دنیا کے کئی ممالک محفوظ نہیں رہ پائیں گے۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.