Saturday, 15 March 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Nusrat Javed
    4. Chairman Senate Ki Ruling, Samp Ke Munh Mein Chachundar

    Chairman Senate Ki Ruling, Samp Ke Munh Mein Chachundar

    یہ کالم جب انٹرنیٹ کے مختلف پلیٹ فارموں پر پوسٹ ہوجائے تو اس کے نیچے عموماََ عاشقان عمران کی گالیاں ہی پڑھنے کو ملتی ہیں۔ گالی دینے سے پرہیز کے عادی پرانی وضع کے اس صحافی کو صرف یاد دلانے پر اکتفا کرتے ہیں کہ زمانہ بدل چکا ہے۔ میرا فرسودہ اور مفلوج ہوا ذہن عمر کے آخری حصے میں داخل ہونے کی وجہ سے بدلتے وقت کی ضروریات اور حرکیات سمجھنے کے قابل نہیں رہا۔ بہتر یہی ہے کہ ماضی کے اسیر رہتے ہوئے خود کو دہراتے رہنے کے بجائے ریٹائر ہوکر موت کا انتظار کروں۔ میری ڈھیٹ ہڈی گالیوں اور ریٹائرمنٹ کے مشوروں کو نظرانداز کرتی رہی۔

    پیر کی صبح چھپا کالم پوسٹ ہونے کے بعد مگر چند ای میل پیغامات آئے۔ ان کے ذریعے اعتراف ہوا کہ یوسف رضا گیلانی کی جانب سے پی ٹی آئی کے گرفتار شدہ سینیٹروں کی ایوان بالا کے اجلاس کے دوران موجودگی یقینی بنانے کے لئے ہفتے کے دن سنائے احکامات قابل ستائش ہیں۔ ان کے ذکر تک محدود رہنے کے بجائے لیکن میں "پروڈکشن آرڈر" کی "تاریخ" بیان کرناشروع ہوگیا۔ کالم کی طوالت نے اسے مزید بوجھل بنادیا۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے ابھرے "بدزبان" کی داستان اگرچہ پرلطف لگی۔

    ای میل لکھنے کا تردد کرنے والوں کی اصل شکایت یہ تھی کہ اگر میں اتفاق سے گزرے ہفتے کی صبح پارلیمان پہنچ ہی گیا تھا تو سینٹ اجلاس کے مشاہدے کے بعد مجھے "پریس گیلری" لکھنے کے طویل تجربے کو استعمال کرتے ہوئے کچھ ایسے پہلو بھی قارئین کے روبرو لانا چاہیئں تھے جو موجودہ سیاست کو نئے انداز میں سمجھانے کی کوشش کرتے۔ ای میل لکھنے والوں کی خلوص بھری تنقید نے مجھے شرمندہ کردیا۔ سچی بات ہے کہ سینٹ کی پریس گیلری میں نشست سنبھالتے ہی میرے ذہن میں پہلا سوال یہ اٹھاکہ حکومت نے یوسف رضا گیلانی کے حکم پر عون عباس بپی کی سینٹ اجلاس میں شرکت یقینی بنادی ہے۔ اعجاز چودھری کو مگر یہ سہولت فراہم نہ کی۔ اس خیال کا مگر پیر کی صبح چھپے کالم میں اظہار نہ کیا۔

    عون عباس نے خود پر ہوئے "ظلم" کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا کہ انہیں جمعہ کی رات بہاولپور سے اسلام آباد کے سفر پر روانہ کیا گیا۔ سفر سے نڈھال ہوئے وہ ہفتے کی صبح سیدھا سینٹ میں داخل ہوئے۔ یہاں پہنچے تو علم ہوا کہ ان کے ساتھی اعجاز چودھری کو لاہور سے یہاں نہیں لایا گیا۔ اپنی داستان سنانے اور اعجاز چودھری کی عدم موجودگی کا ذکر کرنے کے بعد عون عباس نے اعلان کیا کہ وہ سینٹ کے اجلاس میں اعجاز چودھری کے بغیر شرکت کرنے کے بجائے اس امر کو ترجیح دیں گے کہ خود کو پولیس کے سپرد کریں اور ان سے درخواست کریں کہ وہ انہیں بہاولپور واپس لے جاکر جیل میں بند کردے۔

    یہ کہنے کے بعد وہ ہال سے باہر نکل رہے تھے تو چیئرمین سینٹ نے ان سے درخواست کی کہ ہال سے نکلنے سے پہلے وہ ان کی رولنگ سن لیں۔ پیپلز پارٹی کی سینئررکن شیری رحمن بھی عون بپی کو ہال ہی میں موجود رہنے کی تجویز دیتے ہوئے یہ کہتی سنائی دیں کہ "ہم (غالباََ پیپلز پارٹی) آپ" کی یعنی پی ٹی آئی کے (گرفتار) سینیٹروں کی مشکلیں آسان کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہمارے ساتھ تعاون کیا جائے۔ گیلانی صاحب اور شیری رحمن کی گفتگو کے بعد عون عباس اپنی نشست پر لوٹ گئے۔ ان کے نشست سنبھالتے ہی چیئرمین سینٹ نے رولنگ پڑھنا شروع کردی۔

    معاملہ اب سینٹ کی استحقاق کمیٹی کو بھجوادیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے انتہائی سینئر رہ نما تاج حیدر اس کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ پروفیسر کرار حسین کے فرزند پارلیمانی بالادستی کے شدید حامی ہیں۔ ان دنوں مگر خرابی طبع کی وجہ سے اتنے متحرک نہیں رہے۔ مجھے خبر نہیں کہ وہ چیئرمین سینٹ کی جانب سے جاری ہوئے احکامات پر عملدرآمد نہ ہونے کے مسئلے کو بھرپور توانائی سے تیز تر بنیا دوں پر منطقی انجام تک لے جاسکیں گے یا نہیں۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین کی عدم موجودگی میں کمیٹی کے بقیہ اراکین مل کر اپنے میں سے کسی کو عارضی سربراہ چن سکتے ہیں۔ استحقاق کمیٹی میں پیپلز پارٹی کی پلوشہ بہرام اور مسلم لیگ (نون) کی سعدیہ عباسی بھی شامل ہیں۔ دونوں خواتین اپنا موقف دھڑلے سے پیش کرنے کی عادی ہیں۔

    سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کی جانب سے منتخب ہوئے چیئرمین سینٹ یوسف رضا گیلانی کی حکم عدولی کا معاملہ استحقاق کمیٹی میں تاج حیدر یا پلوشہ بہرام کے ذریعے بھرپور انداز میں اٹھایا گیا تو ان افراد کی نشان دہی لازمی ہوگی جنہوں نے اعجاز چودھری کو ہفتے کے روزبھی واضح احکامات کے باوجود اسلام آباد روانہ نہیں کیا۔ عون عباس کے ضمن میں اس کے برعکس گیلانی کے جاری کئے پروڈکشن آرڈرپر عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے موصوف کو پوری رات سفر کی اذیت سے گزارا گیا۔ نظر بظاہر "پروڈکشن آرڈر" کے حوالے سے جودوعملی اختیار ہوئی اس کی ذمہ دار پنجاب حکومت ہے۔ وہاں مسلم لیگ (نون) برسراقتدار ہے اور وزیر اعلیٰ ہیں مریم نواز شریف صاحبہ جن کے علم میں آئے بغیر سنا ہے انتظامی معاملات کے حوالے سے پتا بھی نہیں ہلتا۔

    پنجاب حکومت کے رویے سے پیپلز پارٹی پہلے ہی ناراض ہے۔ نجی محفلوں میں اس کے صوبائی رہ نما ہی نہیں دیگر صوبوں کے نمائندے بھی گلہ کرتے ہیں کہ ان کے قائد آصف علی زرداری جب پنجاب جاتے ہیں تو وزیر اعلیٰ مریم نوازشریف انہیں کماحقہ پروٹوکول فراہم نہیں کرتیں۔ انہیں ایئرپورٹ پر خوش آمدید کہنے بھی کبھی تشریف نہیں لائیں۔ آصف علی زرداری کے ساتھ سلوک سے کہیں زیادہ پیپلز پارٹی پنجاب کے لوگوں کا یہ شکوہ ہے کہ اس صوبے کی پولیس اور مقامی انتظامیہ ان کے نمائندوں کو "لفٹ" نہیں کرواتی۔ چند اضلاع میں بلکہ پیپلز پارٹی کے مقامی مخالفین کی خواہش پر پولیس اور انتظامی محکموں کے سربراہان"انتقام" لینے کو تعینات ہوئے ہیں۔

    مذکورہ پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ فرض کیا جاسکتا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کی جانب سے ہفتے کی صبح جاری ہوئی رولنگ کا اصل مقصد پنجاب حکومت کو شرمندہ کرنا ہے۔ تاج حیدر یا پلوشہ بہرام کی جانب سے اس رولنگ کی بھرپور عملداری یہ پیغام دے گی کہ پیپلز پارٹی پنجاب حکومت کے ساتھ جارحانہ رویہ اختیار کرنے کی تیاری کررہی ہے۔ تاج حیدر صاحب کی عدم موجودگی میں سعدیہ عباسی بھی استحقاق کمیٹی کے اس اجلاس کی صدارت کرسکتی ہیں جو گیلانی صاحب کی سنائی رولنگ پر عملدرآمد یقینی بنائے۔ وہ مگر مسلم لیگ سے جدا ہوئے شاہد خاقان عباسی کی بہن ہیں۔ ان کا رویہ "متعصبانہ" تصور ہوگا۔ قصہ مختصر چیئرمین سینٹ کی جانب سے ہفتے کے روز سنائی رولنگ سانپ کے منہ میں چھچھوندر کا کردار ادا کرسکتی ہے۔

    ذاتی طورپر اگرچہ میں مصر رہوں گا کہ یوسف رضا گیلانی نے ہفتے کے روز جو رولنگ سنائی ہے اس کا مقصد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) کے مابین اختلافات بھڑکانا نہیں ہے۔ موصوف نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دوران بھی راولپنڈی کی لال حویلی سے ابھرے بقراطِ عصر کی گرفتاری کے بعد بطور سپیکر نیشنل اسمبلی ایسا ہی رویہ اختیار کیا تھا۔ سازشی ذہن سے ہٹ کر سوچیں تو معاملہ "اصولی" ہے۔ گرفتار رکن اسمبلی یا سینیٹر کی ایوانِ زیریں یا بالا میں موجودگی حکومت کو گوارہ نہیں تو دونوں ایوانوں کے قواعد میں موجود ان شقوں کو ختم کیا جاسکتا ہے جو اس امر کو یقینی بناتی ہیں۔ موجودہ حکومتی بندوبست آئین میں 26ویں ترمیم متعارف کرواچکا ہے۔ یہ چٹکی بجاکر مذکورہ شق بھی ختم کرسکتا ہے۔

    About Nusrat Javed

    Nusrat Javed

    Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.