ایک بات طے ہوگئی اور وہ یہ کہ ٹرمپ بھولا نہیں بلکہ بہت کائیاں شخص ہے۔ اس کے دل میں کئی دنوں سے جو بے تحاشہ منصوبے پل رہے ہیں۔ وہ ان منصوبوں کو محض خواب کی صورت نہیں دیکھتا۔ انہیں عملی جامہ پہنانے کی تیاری بھی کی ہوتی ہے۔ نظر بظاہر لیکن وہ ایک موڈی انسان دِکھتا ہے۔ دل میں جو آیا بول دیا اور اس کی کہی بات پر عمل نہ ہو تو اسے بھول گیا۔ ایسے شخص سے زیادہ خطرناک شخص کوئی ہوہی نہیں سکتا جس کے بارے میں ہم فیصلہ ہی نہ کرپائیں کہ وہ کس معاملہ میں سنجیدہ ہے اور کہاں انگریزی محاورے کے مطابق محض "پانی کا امتحان" لے رہا ہے۔
نومبر کا صدارتی انتخاب لڑنے سے قبل وہ نہایت ڈھٹائی سے خود کو امن کا پیغامبر کہتا رہا۔ 2016ء سے اس نے اپنے بارے میں یہ بات مشہور کررکھی ہے کہ ایک کاروباری شخص ہوتے ہوئے وہ جنگوں سے نفرت کرتا ہے۔ امریکہ کی عسکری قیادت جسے وہ حقارت سے "ڈیپ اسٹیٹ" پکارتا ہے مگر اس کے ملک کو کسی نہ کسی جنگ میں ملوث کردیتی ہے۔ امریکہ سے کہیں دور لڑنے والی جنگوں میں "قومی مفاد" کی تلاش ممکن نہیں۔ اس کی بدولت مگر اسلحہ ساز کارخانوں کی رونق لگ جاتی ہے۔ اسلحہ ساز کارخانوں کے علاوہ سفارت کاروں، تھنک ٹینکوں اور این جی اوز کا ایک بہت بڑا گروہ بھی امریکی عسکری قیادت کا چمچہ بن کر اپنی دوکانیں کھول لیتا ہے۔
سچی بات ہے کہ افغانستان کے علاوہ عراق پر مسلط کردہ جنگ کو برسرزمین جاکر رپورٹ کرنے کے بعد میں سادہ لوحی میں ٹرمپ کے خیالات کو اکثر سراہتا ہوں۔ امریکی افواج بڑے لائو لشکر سمیت افغانستان میں 21برس تک موجود رہیں۔ ان کے وہاں قیام کے دوران "فوجی ٹھیکے داروں" کے کئی گروہ میری آنکھوں کے سامنے ابھرے۔ ان میں سے کئی ایک کا تعلق ہمارے صوبہ خیبرپختونخواہ سے بھی تھا۔ وہ "ککھ سے لکھ" ہوئے محاورے کی عملی مثال بنے۔
ہمارے ہاں اگر تحقیق کو سنجیدگی سے لیا جاتا تو بآسانی ثابت کیا جاسکتا ہے کہ عمران خان کے نام پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچے خیبرپختونخواہ کے کئی لوگ امریکی افواج کی افغانستان میں موجودگی کے دوران اپنے ہاں کی پرانی "اشرافیہ" کے مقابلے میں "لکھ لٹ" نودولتیوں کی صورت ابھرے تھے۔ انہوں نے چارسدہ، مردان، صوابی اور نوشہرہ جیسے شہروں میں عمران خان کے نام پر ووٹ حاصل کئے۔ اسمبلیوں میں پہنچے تو اپنے اثرورسوخ کو نہایت بے دردی سے استعمال کیا۔ علی امین گنڈاپور کے دور میں بھی یہ چلن جاری ہے۔ تفصیلات بیان کرنے کو یہ دن مگر مناسب نہیں۔ آج توجہ ڈونلڈ ٹرمپ پر مرکوز رکھنا ہوگی۔
20جنوری 2025ء کے دن سے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد سے وہ عجیب وغریب فیصلے کئے چلے جارہا ہے۔ اپنی کابینہ کے لئے اس نے جو لوگ نامزد کئے ہیں ان کی اکثریت کسی بھی حوالے سے اس عہدے پر فائز ہونے کے قابل نہیں جن کے لئے انہیں نامزد کیا گیا ہے۔ ان کی نامزدگی کا جائزہ لیتے ہوئے بلکہ محسوس ہوتا ہے کہ ٹرمپ واقعتا دور حاضر کا "انقلابی" ہوتے ہوئے امریکی ریاست کے دائمی اداروں کو نیست ونابود کرنا چاہ رہا ہے۔ حق بات یہ بھی ہے کہ اس کی جانب سے پھیلائی افراتفری مجھ پرانے "سرخے" کو کبھی کبھار بہت بھاتی ہے جو سکول کے دنوں ہی سے "امریکہ کے یاروں" کو "غدار" پکارتا تھا۔ جوانی کے جذبات ذرا ٹھنڈے ہوئے تو کئی بار پیشہ وارانہ وجوہات کی بنیاد پر ا مریکہ جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک مرتبہ وہاں کے مشہور اور قابل رشک گردانے فلیچر سکول آف لاء اینڈ ڈپلومیسی میں چھ ماہ کی تربیت بھی میسر ہوئی۔
امریکہ میں قیام کے دوران روزمرہّ تجربات سے دریافت کیا کہ اپنی "سامراجی سرشت" کے باوجود یہ ملک انفرا دی آزادی کا نہ صرف احترام کرتا ہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔ عام امریکی شہری کو میں نے بالعموم انتہائی سادہ، صاف گو اور کئی حوالوں سے انسان دوست محسوس کیا۔ امریکہ کے ریاستی اور غیر ریاستی اداروں کے نظام نے بھی مجھے بہت متاثر کیا۔ مذکورہ پہلوئوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں دیانتداری سے یہ سوچتا ہوں کہ ڈونلڈٹرمپ کی وائٹ ہائوس آمد اس ملک کے لئے خیرکی خبر نہیں۔ پھر یہ سوچتے ہوئے خود کو تسلی دیتا ہوں کہ ٹرمپ جانے اور امریکی جنہوں نے اسے نہایت اشتیاق سے 2024ء کے صدارتی انتخاب میں ووٹ دئے ہیں۔
بدھ کی صبح مگر دریافت ہوا کہ ٹرمپ اپنے سے مختص افراتفری کو محض امریکہ تک ہی محدود رکھنا نہیں چاہتا۔ گزشتہ کئی مہینوں سے وحشیانہ ضد کے ساتھ غزہ میں مسلسل بمباری سے فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف اسرائیل کا وزیر اعظم نیتن یا ہو پہلا غیر ملکی سربراہ ہے جسے واشنگٹن ٹرمپ سے ملاقات کے لئے مدعو کیا گیا ہے۔ واشنگٹن آمد سے قبل تین مرتبہ نیتن یاہونے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اس وقت تک غزہ میں داعی امن کو آمادہ نہیں ہوگا جب تک وہاں نسلوں سے آباد 20لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو مصر اور اردن اپنے ہاں آباد کرنے کو آمادہ نہیں ہوتے۔ فلسطینی نیتن یاہو کے نزدیک انسان نہیں بلکہ "بدی" ہیں جن سے غزہ کی پٹی کو صاف کرنا ہوگا۔
صیہونی نسل پرستوں نے 1948ء سے جاری ہوئی "نقبہ "کے ذریعے فلسطینیوں کو ان کے آبائی قصبوں اور گھروں سے زبردستی نکال کر اسرائیل کو وسعت دینا شروع کی تھی۔ نیتن یاہو کی واشنگٹن جانے سے قبل غزہ کے متعلق ہوئی تقاریر صیہونی توسیع پسندی کا اظہارسنائی دیں۔ بدھ کے دن مگر غزہ کو فلسطینیوں سے "پاک" کرنے کا مشن ٹرمپ نے نیتن یاہو سے "اچک" لیا ہے۔ نیتن یاہو کے ساتھ کھڑے ہوکر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس نے کہا کہ فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر وہ اس پٹی میں امریکی فوج بھیجے گا۔ وہ اس علاقے کو دھماکہ خیز مواد اور بمباری سے جمع ہوئے ملبوں کے انبار سے صاف کردے گی تو امریکہ غزہ میں ایک نئی بستی بنائے گا۔ مجوزہ بستی اسرائیل یا فلسطینیوں کی نہیں بلکہ امریکہ کی "ملکیت" ہوگی۔
سمندر کے کنارے آباد جدید ترین سہولتوں سے آباد بستی۔ فلسطینیوں کو "شرپسند" ہونے کی وجہ سے لیکن وہاں رہنے کا حق نصیب نہیں ہوگا۔ ٹرمپ مصر اور اردن وغیرہ کو مجبور کرے گا کہ وہ انہیں اپنے ہاں آباد کرے۔ نظر بظاہر غزہ کی پٹی ہتھیانے کا جو اعلان ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا وہ "اچانک" وحیران کن ہے۔ تھوڑی تحقیق کا تردد کریں اور انٹرنیٹ پر جا ئیں۔ وہاں سرچ میں Middle East Initiativeلکھیں۔ یہ پروگرام امریکہ کا مشہور کنیڈی سکول آف گورنمنٹ چلاتا ہے۔ وہاں ایک تقریب سے ٹرمپ کے یہودی داماد جیرڈ کشنر نے خطاب کیا تھا۔ یہ خطاب 2024ء میں ہوا اور یوٹیوب پر بآسانی میسر ہے۔
فروری 2024ء میں ہوئے خطاب کے دوران جیرڈ کشنر واضح الفاظ میں یہ کہہ رہا ہے کہ غزہ جب فلسطینیوں سے خالی ہوجائے تو سمندر کے کنارے ایک جدید ترین بستی بنائی جائے۔ وہ دنیا کا ایک بہترین اور قیمتی Resort (تفریح گاہ یا تعطیلات گزارنے کا مقام) بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ قصہ مختصر نیتن یاہو کی امریکہ میں موجودگی کے دوران ٹرمپ نے غزہ پر "حق دعویٰ" اچانک نہیں کیا۔ اس کے لئے تیاری پہلے سے ہوچکی تھی۔ اب فقط اعلان ہوا ہے۔