Tuesday, 18 March 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Nusrat Javed
  4. Daur e Hazir Ke Samraj

Daur e Hazir Ke Samraj

روایتی ہو یا سوشل میڈیا۔ "صحافت" کا بنیادی کام ہمارے ہاں ان دنوں محض چسکہ فروشی رہ گیا ہے۔ ٹی وی کے "کرنٹ افیئرز" کے لئے مختص پروگراموں پر توجہ ڈالیں تو وہ ایک ہی موضوع کے بارے میں فکر مند سنائی دیتے ہیں اور وہ موضوع ہے شیر افضل مروت صاحب کے تحریک انصاف کے چند سرکردہ رہ نمائوں سے اختلافات۔ مذکورہ اختلافات کے نت نئے پہلواجاگر کرتے ہوئے طے یہ کرنے کی بھی کوشش ہورہی ہے کہ شیر افضل مروت اگر عمران خان کی بنائی تحریک انصاف سے الگ ہوگئے تو یہ جماعت اپنی وحدت وتوانائی برقرار رکھ پائے گی یا نہیں۔ تحریک انصاف کے مستقبل کو زیر بحث لاتے ہوئے ہمیں ملک کے دیگر اور کئی اعتبارسے حساس ترین مسائل بھی یاد نہیں رہتے۔ شترمرغ کی طرح ریت میں سردباکر ہم انہیں بھلائے بیٹھے ہیں۔

اپنے قارئین کو عالمی صورتحال کے تناظر میں تازہ ترین معاملات کے بارے میں باخبر رکھنا اخبارات کی بنیادی ذمہ داریوں میں اہم ترین شمار ہوتی تھی۔ قیام پاکستان کے روز اوّل سے ہم اپنا تقابل بھارت سے کرتے رہے ہیں۔ اسے اپنی بقاء کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ اس کے دیگر ممالک سے تعلقات کا وسیع تر تناظرمیں رکھ کر جائزہ لینا ضروری سمجھا جاتا تھا۔

20جنوری 2025ء کے دن امریکی صدر کا حلف اٹھانے کے بعد ڈونلڈٹرمپ نے جن چار غیر ملکی سربراہوں سے اپنے اقتدار کے پہلے تین ہفتوں کے دوران ملاقات کی بھارتی وزیر ا عظم ان میں شامل تھا۔ امریکہ میں قیام کے دوران مودی نے ٹرمپ کے ساتھ جو معاہدے کئے ان کی بدولت محض دفاع کے شعبے ہی میں نہیں بلکہ زراعت سے لیکر مصنوعی ذہانت تک پھیلے بے شمار شعبوں میں مشترکہ سرمایہ کاری کی راہ نکالنے کے علاوہ اس امر کو بھی یقینی بنایا گیا ہے کہ بھارت فقط امریکہ میں تیار ہوئی جدید ترین اشیاء کی خریداری تک ہی محدود نہ رہے۔ انہیں اپنے ہاں تیار کرنے کی صلاحیت بھی ا مریکی ٹیکنالوجی کی بدولت حاصل کرے۔

مودی کے دورہ امریکہ کے اختتام پر جو مشترکہ اعلامیہ جار ی ہوا ہے اسے غور سے پڑھیں تو بآسانی دریافت کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ بھارت کو محض چین کے مقابلے کی قوت بنانے کا متمنی نہیں۔ اسے پورے بحرہند کا چودھری بنانا چاہ رہا ہے۔ بحر ہند کی وسعت سمجھنے کے لئے آپ کو نقشہ دیکھنے کی زحمت اٹھانا ہوگی۔ اس سمندر کے ذریعے ہوئی تجارت پر اجارہ داری کی بدولت ہی برطانیہ دوسوبرس تک ناقابل تسخیر سامراجی قوت شمار ہوتا رہا۔ چین کے ہمسائے میں صرف پاکستان اور روس ہی نہیں۔ مشرقی ایشیاء میں ویت نام وغیرہ بھی شامل ہیں۔ ان ممالک میں انڈونیشیاء کے جزیرہ بالی سمیت کمبوڈیا اور تھائی لینڈ جیسے ملک بھی ہیں جو "قدیم بھارت" کی ثقافت کا حصہ تصور ہوتے ہیں۔

حال ہی میں ولیم ڈال رمپل (William Dalrymple)نے ایک کتاب لکھی ہے۔ نام ہے اس کا "گولڈن روڈ"۔ 500کے قریب صفحات پر مشتمل اس کتاب کو توجہ سے پڑھیں تو ولیم جیسے مستند تاریخ دانوں کے ذریعے دنیا کو پیغام یہ دیا جارہا ہے کہ چین سے منسوب ہوا "سلک روڈ" تاریخی اعتبار سے "حالیہ" واقعہ ہے۔ "اصل روڈ" تو "گولڈن روڈ" تھا جو بھارت کو ہمالیہ کے ذریعے چین وتبت سے ملانے کے علاوہ سمندری راستوں سے مشرقی ایشیاء سے ملاتا تھا۔ بغیر کہے دورِ حاضر کے "سامراج" کو بات یہ سمجھائی جارہی ہے کہ بھارت کی "تاریخ"کو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے "مستقبل" کا کلیدی کردار بنانے میں معاونت فراہم کی جائے۔ ہم مگر تحریک انصاف کا مستقبل طے کرنے میں مصروف ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست سے ہزاروں اختلافات ہوسکتے ہیں۔ یہ بات مگر ان کے بدترین دشمن کو بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ مشرقی پاکستان کھودینے کے باوجود پاکستان نے ان کے دورِ حکومت میں "اسلامی شناخت" کی بنیاد پر عالمی کردار ادا کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات ان کے دور ہی میں گہرے اور وسیع تر ہوتے گئے۔ اس کے بعد مگر "افغانستان" ہوگیا اور ہم اسے کمیونزم سے "آزاد" اور بعدازاں اسی ملک کو "دہشت گردی" سے محفوظ رکھنے کے لئے امریکہ کی معاونت میں مصروف ہوگئے۔

ہماری تمام تر معاونت کے باوجود مگر جب طالبان سے مذاکرات کا وقت آیا تو قطر کے شہر دوحہ کو امریکہ اور اس کے مخالفین نے باہمی مذاکرات کے لئے چنا۔ پاکستان کا کردار اس کے بعد طالبان کو اس امر پر قائل کرنے تک محدود ہوگیا کہ وہ دوحہ میں زلمے خلیل زاد کی سجائی میز پر بیٹھیں۔ طالبان کو اس میز پر "ڈیلیور" کرنے کے بدلے ہم نے کیا حاصل کیا؟ اس کا جواب میسر نہیں۔ دوحہ مذاکرات کی بدولت امریکہ اگرچہ ذلیل ورسوا ہوکر افغانستان سے نکل چکا ہے۔ نو منتخب امریکی صدر کے کلیدی معاونین خصوصاََ جن کا تعلق دفاعی اور انٹیلی جنس امور سے ہے افغانستان سے اپنی افواج کی ذلت آمیز پسپائی کا ذمہ دار پاکستان کی "ڈبل گیم" کو ٹھہراتے ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ واشنگٹن پہنچتے ہی بھارتی وزیر اعظم کی پہلی ملاقات ٹرمپ کی مشیر برائے قومی انٹیلی جنس -تلسی گبارڈ- سے ہوئی۔ تلسی نے ہندو مذہب کی مقدس کتاب -گیتا- اٹھاکر امریکہ کی رکن کانگریس کا حلف لیا تھا۔

مودی کے قیام امریکہ کے دوران ڈونلڈٹرمپ اس امر پر مصر رہا کہ بھارت کو اپنی ضرورت کا تیل اور گیس اب امریکہ سے خریدنا چا ہیے۔ بھارت ان کے حصول کے لئے کئی دہائیوں سے روس سے رجوع کرتا رہا ہے۔ گیس کے حوالے سے وہ ایران پر انحصار کرتا رہا۔ ایران پر امریکہ کی لگائی اقتصادی پابندیوں نے اسے قطر سے رجوع کرنے کو مجبور کیا۔ امریکہ سے بھارت لوٹتے ہی مگر مودی نے بذاتِ خود ایئرپورٹ جاکر امیر قطر کو خوش آمدید کہا۔ گیس کے بے پناہ ذخائر سے مالا مال اس خلیجی امارت کا عالمی اثرورسوخ انتہائی کم آبادی ہونے کے باوجود حیران کن حد تک طاقتور ہے۔ طالبان اور امریکہ کے مابین معاہدہ دوحہ میں ہوا۔ اسرائیل کو حماس سے معاملات طے کرنے کے لئے بھی قطر ہی سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ قطر میں امریکہ کا طاقتور ترین فوجی اڈہ بھی ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے بھی قطر سے الجزیرہ نام کا ٹی وی چینل پوری عرب دنیا میں "عرب سٹریٹ" کی مستند آ واز تسلیم کیا جاتا ہے۔

امیر قطر کی نہایت مہارت سے دلجوئی کرتے ہوئے نریندر مودی نے درحقیقت یہ پیغام اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے کہ ٹرمپ کے تمام تر دبائو کے باوجود بھارت قطر کے ساتھ اس معاہدے پر قائم رہے گا جو گزرے برس کی فروری میں طے ہوا تھا۔ اس کے تحت قطر بھارت کو 2048ء تک "بازار سے نسبتا کم نرخوں پر" ہر سال 7.5 ملین ٹن ایل این جی فراہم کرے گا۔ ایل این جی خریدنے کے اس معاہدے کی پوری مالیت 78جی ہاں 78بلین ڈالر ہے۔ مذکورہ معاہدے کی شرائط پر بھارتی میڈیا میں کوئی سوال نہیں اٹھائے گئے۔ اپوزیشن جماعتیں بھی اسے سکینڈل بنانے سے کتراتی رہیں۔ اس کے مقابلے میں پا کستان جب قطر سے گیس کی فراہمی کے لئے مذاکرات کررہا تھا تو ہمارا میڈیا اسے سکینڈل کی صورت اچھالتا رہا۔

غالباََ اسی باعث قطر جیسے ملک جس کا "قطری خط" بھی سکینڈل کی زد میں رہا ہے، پاکستان میں سرمایہ کاری سے گھبرانا شروع ہوگئے ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اومان کی طرح وہ بھی بھارت ہی کے مختلف شعبوں میں سرمایہ لگانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ہم مگر اس پہلو کی جانب توجہ ہی نہیں دیں گے۔ اس بارے ہی میں چند دن سینہ پھلاکر خود کو تھپکیاں دیتے رہیں گے کہ بالآخر ہمارے ہاں کرکٹ کی چمپئن ٹرافی کا انعقاد ہورہا ہے۔ خدارا میں اس واقعہ کی اہمیت گھٹانا نہیں چاہ رہا۔ فقط یہ جاننا چاہ رہا ہوں کہ "مسلم اُمہ کی واحد ایٹمی قوت" سے حماس سے معاملات طے کرنے حتیٰ کہ افغانستان میں ابھرتی نئی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے کونسا ملک رجوع کررہا ہے۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.