پیر کی صبح چھپے کالم میں تفصیل سے بیان کیا تھا کہ گزشتہ جمعرات کرکٹ کے کھیل سے عدم دلچسپی کے باوجود میں ورلڈ کپ کے حوالے سے امریکہ اور پاکستان کے مابین ہوا میچ دیکھنے کو مجبور ہوا۔ پاکستان کی مذکورہ میچ میں شکست نے جی اداس کردیا۔ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ برسوں سے کرکٹ کھیلنے والی ٹیم جس نے اس کھیل کو عمران خان سمیت بے شمار ریکارڈ ساز کھلاڑی دئے ہیں، امریکہ کی نووارد ٹیم سے ہار جائے گی۔ اپنے دل پر چھائی فسردگی کے باوجود اس امر پر اگرچہ بہت حیران ہوا کہ میری بیٹیاں اپنے دوستوں کے ہمراہ ہمارے گھر کو سینما کی صورت دے کر بڑی سکرین پر اتوار کی شام کے لئے طے ہوا پاک-بھارت میچ دیکھنے کی تیاریوں میں محو ہیں۔ ان کی تیاریاں واضح عندیہ دے رہی تھیں کہ امریکہ کے ہاتھوں پاکستان کی ہارنے انہیں دل شکستہ نہیں کیا۔ ان کے امید بھرے دل بلکہ بھارت کی مضبوط اور تجربہ کار ٹیم کی ہار انجوائے کرنے کے متمنی ہیں۔
اپنے بچوں اور ان کے دوستوں کے امید بھرے دلوں نے مجھے شرمسار کردیا۔ تنہائی میں بیٹھ کر اپنی قنوطیت کے اسباب ڈھونڈنا شروع کردئے۔ چند ایک کی نشاندہی کرلی تو ان سے نجات کا ارادہ باندھ لیا۔ اپنے دل میں امید کی لو جلانے کے لئے یہ ارادہ بھی باندھا کہ اتوار کی شام نیویارک میں ہوا پاک-بھارت ٹاکرا کمرے میں اکیلے بیٹھ کر پہلے گیند سے آخری مراحل تک پوری توجہ سے دیکھوں گا۔ نیویارک کی بارش اگرچہ میرے منصوبے کو ناکام بنانے میں مصروف رہی۔
بہرحال پہلے اوور کے اختتام پر بارش کی وجہ سے ہوئے وقفے کے باوجود میچ دوبارہ شروع ہوا تو قدرت سمیت ہر شے پاکستان کی جیت کی گارنٹی دیتی نظر آئی۔ تقریباََ تمام تجزیہ کاروں کا اتفاق تھا کہ بارش نے نیویارک میں کرکٹ کیلئے عارضی طورپر تیار کردہ پچ کو "بائولر فرینڈلی" بنادیا ہے۔ بلے باز گیلی گھاس کی وجہ سے چوکے وغیرہ نہیں لگاپائیں گے۔ بھارتی بلے باز شاہین آفریدی، حارث رئوف اور محمد عامر جیسے توانائی سے بھرپور بائولروں کے سامنے ڈھیر ہوجائیں گے۔
کھیل شروع ہونے سے قبل پی ٹی وی (سپورٹس) پر شعیب اختر کے ساتھ بیٹھے کئی تجربہ کار کھلاڑیوں کے اندازے سنے تو دل مزیدپرامید ہوگیا۔ میچ شروع ہونے سے چند ہی لمحے قبل اینکرنے تبصرہ نگاروں کے پینل سے سوال پوچھا کہ ان کی دانست میں پہلے کھیلتے ہوئے بھارتی ٹیم کتنے سکوربناپائے گی۔ مارٹن کیٹل نام کے ایک غیر ملکی تبصرہ نگار نے نہایت اعتماد سے دعویٰ کیا کہ ٹاس ہارنے کی وجہ سے بلے بازی کو بھیجی بھارتی ٹیم 115رنز سے زیادہ سکور بنانہیں سکتی۔ وہ بالآخر تقریباََ درست ثابت ہوا کیونکہ بھارتی ٹیم 119رنز پر ہی ڈھیر ہوگئی۔ شاہین آفریدی اور نسیم شاہ نے میچ کے ابتدائی تین اووروں ہی میں ویرات کوہلی اور روہت شرما جیسے تگڑے اوپنر گرائونڈ سے باہر بھیج دئے۔
نیویارک کی ناسائو کائونٹی میں پاک-بھارت میچ کیلئے جو میدان تیار ہوا تھا وہ تماشائیوں سے بھرا ہوا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ وہاں 34ہزار تماشائیوں نے ٹکٹ خرید کر یہ میچ دیکھا ہے۔ تماشائیوں کی غالب اکثریت بھارتیوں پر مشتمل تھی۔ ابتدائی مراحل میں ان کی دانست میں ناقابل تسخیر شمار ہوتے کوہلی جیسے کھلاڑیوں کی فراغت نے لیکن انہیں مایوس کردیا۔ پاکستانی بائولر میچ پر چھائے نظر آئے اور فقط تربیت اور تجربے کی بدولت ہی بھارتی ٹیم 119کے سکور تک پہنچ پائی۔ اس کی اننگز ختم ہوئی تو میں نے دل ہی دل میں اپنے بچوں کی امید پرست ڈھٹائی کو سراہا اور خود سے وعدہ کرنے لگا کہ قنوطیت کو اب قریب پھٹکنے بھی نہیں دینا۔
اچھے سکور کے امکان کو مسترد کرتی بارش، ٹاس جیتنا اور بائولروں کی جارحانہ کامیابیوں کے باوجود پاکستانی کھلاڑی بلے سنبھالنے کے بعد ضرورت سے زیادہ محتاط نظر آئے۔ غالباََ ان کے اجتماعی لاشعور میں یہ بات سمائی ہوئی تھی کہ 120کا ہدف 20اوور کے میچ میں چوکے چھکے لگائے بغیر بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ انہیں لگانے سے لہٰذا پرہیز کرو۔ آئوٹ ہونے کے بجائے پچ پر ڈٹے رہو اور نیویں نیویں رہتے ہوئے یہ میچ جیت لو۔ نظر بظاہر ضرورت سے زیادہ احتیاط پر مبنی یہ حکمت عملی کام نہیں آئی۔ پاکستان کی ٹیم نسبتاََ آسان ہدف بھی حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ جبکہ اس کے پاس بابر اعظم، فخرزمان اور شاداب جیسے ریکارڈ ساز کھلاڑی بھی موجود تھے۔ پاکستان بالآخر یہ میچ 6سکور سے ہار گیا۔
پاکستان کی شکست نے دل مضطر کو پرامید رکھنے کے ارادوں کو شدید دھچکہ لگایاہے۔ دلِ افسردہ کے ساتھ رات دیر تک پاکستان کی شکست کے عقل کا غلام دل ٹھوس اسباب ڈھونڈنے میں مصروف رہا۔ سوچ کی اس گھڑی میں نجانے کہاں سے یہ خیال ذہن میں کوندا کہ بحیثیت قوم ہم فاسٹ بائولر کی نفسیات اختیار کرچکے ہیں۔ ہمارے دل میں صرف ایک ہی جذبہ موجزن رہتا ہے کہ "دوسرے" کو میدان میں ٹکنے نہ دیا جائے۔ اسے ہر صورت ہر نوع کا ہتھکنڈہ اختیار کرتے ہوئے میدان سے باہر نکال دیا جائے۔ شاہین آفریدی، نسیم شاہ، حارث رئوف اور محمد عامر جیسے بائولروں نے یہ سب کچھ بھارتی ٹیم کے ساتھ کردیا تو بلاسنبھالنے کے بعد ہماری ٹیم یکسوئی کے ساتھ ایسی حکمت عملی سے قطعاََ محروم نظر آئی جو ہمارے کھلاڑیوں کو نسبتاََ آسان ہدف تک پہنچنے میں مدد فراہم کرتی۔ اس پہلو پر غور کرتے ہوئے یہ سوچ دماغ میں ریکارڈ کی سوئی کی طرح اٹک گئی کہ ہم فقط "جارحانہ بائولنگ" کے ذریعے اپنے اپنے شعبوں میں مقابلے پر آئے افراد کو ٹکنے نہیں دیتے۔ انہیں میدان سے بھگادیتے ہیں۔ میدان مخالفوں /دشمنوں / مدمقابل افراد سے خالی کروالینے کے بعد مگر خود کوئی کارنامہ نہیں دکھاپاتے۔ وہ ہدف بھی بلکہ حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں جو ہمارے جارحانہ انداز کی بدولت ہمارے دشمن یا مخالف ناقابل تسخیر انداز میں سیٹ نہیں کرپاتے۔
مخالف کو جارحانہ بائولنگ سے گھر بھیجنا ہی مگر کھیل حتیٰ کہ دنیا کے ہر شعبے میں یکا وتنہا ہدف نہیں کہلاتا۔ مقابلے کی فضا میں دشمن کو نیچا لگانے کے بعد خود کو ایک بہتر متبادل کے طورپر پیش کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس جانب مگر ہماری طبیعت مائل ہی نہیں ہوتی۔ ہمہ وقت دوسرے کی وکٹ لے کر اسے خجل خوار کرنے کا جنون ہی ہمارے دل ودماغ پر چھایا رہتا ہے۔ میں اس سوچ کو تخریبی کہوں گا جو بہتر متبادل تیار کرنے کی خواہش سے محروم کردیتی ہے۔ نہایت خلوص سے مگر یہ دعا بھی مانگ رہا ہوں کہ امریکہ میں پاکستان کی ایک اور کرکٹ میچ میں ہار سے فسردہ ہوئے دل میں آیا یہ خیال دْکھ کی لہر میں ابھرا ناقص خیال ہی ثابت ہو۔