طبیبوں نے کئی ماہ قبل شفایابی کی تسلی دینا بھی ترک کردیا تھا۔ ڈاکٹر مہدی حسن مگر معمول کی زندگی بسر کرنے کو ڈٹے رہے۔ "موت کا ایک دن معین ہے" والی حقیقت تسلیم کرنے کے علاوہ ان کا رویہ زندگی سے بھرپور محبت اور بدترین حالات میں بھی امید نہ کھونے کا توانا ترین اظہار تھا۔
ان کی رحلت کے بارے میں صحافیانہ کالم لکھ نہیں سکتا۔ وہ میری بیوی کے ماموں تھے۔ اس کے والد جب بینکاک میں تعینات تھے تو اسے تعلیم کے حصول کے لئے لاہور کے کنیئرڈکالج داخل ہونا پڑا۔ اس شہر میں میری بیوی کے دادا کا ذاتی گھر بھی تھا۔ ان کے ہوتے ہوئے بھی تاہم اس نے ہاسٹل میں رہنے کو ترجیح دی اور "ماموں مہدی" کو اپنا گارڈین قرار دیا۔ ویک اینڈ کے دنوں میں وہ اسے اپنی موٹرسائیکل پر بٹھا کر فلمیں دکھانے لے جاتے۔ "آوارہ گردی" کے مواقع فراہم کرتے۔ ماموں مہدی کے ساتھ اپنی بیوی کی جذباتی وابستگی کی بدولت میں جبلی طورپر جان لیتا ہوں کہ ان کی نگرانی میں تعلیم حاصل کرنے والے سینکڑوں طالب علم عمر بھر کے لئے ان سے والہانہ عقیدت میں مبتلا کیوں رہتے ہیں۔
ڈاکٹر مہدی حسن سے ذاتی رشتہ قائم ہونے سے کئی برس قبل ان کی ثابت قدمی کی خبریں مجھ تک پہنچ چکی تھیں۔ 1978ء میں اسلام آباد سے انگریزی کے روزنامہ "دی مسلم" کا اجراء ہونا تھا۔ اس ادارے سے اردو اور انگریزی کے دو ہفت روزہ جرائد کی اشاعت کا منصوبہ بھی تھا۔ میں اردو ہفت روزہ کا نائب مدیر ہوا۔ جنرل ضیاء کے چند منصوبوں کو ٹھوس حقائق کی بنیاد پر منکشف کرنے کی بدولت مگر چھ ماہ بعد ہی ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔ مذکورہ تناظر میں کوئی اور صحافتی ادارہ مجھے ملازمت دینے کا رسک نہیں لے سکتا تھا۔
دربدری کے ان ایام میں جب کبھی لاہور جانے کا اتفاق ہوتا تو آزادیٔ اظہار سے محروم ہوئے بے تحاشہ افراد ڈاکٹر مہدی حسن کا ذکر بھی بہت احترام سے کرتے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے بانی استادوں میں شمار ہوتے تھے۔ جنرل ضیاء کی دہشت سے مغلوب ہوئی یونیورسٹی انتظامیہ مگر ان سے جان چھڑانے کے چکر میں تھی۔ اس ضمن میں اپنے تئیں "اسلام کے دفاع" کو مامور ایک سیاسی جماعت کی طلبہ تنظیم پُرجوش سہولت کاری کا کردار بھی ادا کررہی تھی۔ ڈاکٹر صاحب مگر نہایت صبر واستقامت سے اپنی سوچ پر ڈٹے رہے۔
صحافت حقیقی معنوں میں ان کی زندگی کا کلیدی عشق تھا۔ مرتے دم تک اس امر کے خواہاں رہے کہ نوجوانوں اور خاص طورپر خواتین کی زیادہ سے زیادہ تعداد صحافت کے ہنر اوراصولوں کو دورِحاضر میں مسلسل ایجاد ہوتے ہرنوع کے ذرائع ابلاغ کے ماہرانہ استعمال کے ذریعے زندہ وتوانا رکھے۔ اپنے شاگردوں کو اس ضمن میں رہ نمائی فراہم کرنے کو وہ ہمہ وقت میسر رہتے۔ ان کے ذاتی مسائل بھی نہایت توجہ اور ہمدردی سے جاننے کی کوشش کرتے اور ان کے ازالے میں خاموشی سے اپنا حصہ ڈالنے کی راہ ڈھونڈتے۔
صحافت کے حوالے سے ڈاکٹر مہدی حسن کے عزم واستقلال کے عاجزانہ اعتراف کے باوجود میں یہ لکھنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ وہ درحقیقت اس سوچ اور نسل سے تعلق رکھتے تھے جو بتدریج معدوم ہورہی ہے۔ 1980ء کی دہائی سے ہمارے ہاں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ جواذہان بنائے جارہے ہیں وہ نفرت وتعصب کی آگ میں جھونک دئے گئے ہیں۔ سچ کو ٹھوس حقائق کی بنیاد پر جاننے کی تڑپ تقریباََ عنقا ہوچکی ہے۔ عوام کی اکثریت صحافت کے نام پر فقط وہ پڑھنا، سننا اور دیکھنا چاہتی ہے جو ان کے دل ودماغ میں پہلے سے موجود تعصبات کا اثبات کرے۔ اسی باعث دنیا کے کئی محقق اعدادوشمار کی بنیاد پر ہوئے جائزوں کی بدولت "اخبار کی موت" کا اعلان کرچکے ہیں۔ سوشل میڈیا اس کے برعکس ہیجان خیزی کی علت کو مسلسل بھڑکا رہا ہے۔ ایسے عالم میں کھلے ذہن کے ساتھ نئے امکانات کی تلاش اور نشاندہی ممکن نہیں رہی۔ ڈاکٹر مہدی حسن کی نسل اور اس سے عقیدت میں گرفتار مجھ جیسے لوگ اب "ہارا ہوا لشکر" ہیں۔ ہماری باتوں پر توجہ دینے والوں کی تعداد مسلسل سکڑرہی ہے۔
میں عہدرفتہ کا فقط ماتم ہی کرسکتا ہوں۔ میرے دعویٰ نے اگر آپ کو برگشتہ بنادیا ہے تو خدارا تھوڑی توجہ سے اس "رپورٹنگ " پر نگاہ ڈالیں جوگزشتہ چند دنوں سے وزیر اعظم پاکستان کے "تاریخ ساز" دورئہ ماسکو کے بارے میں ہورہی ہے۔ روایتی اور سوشل میڈیا پر سرکاری سرپرستی کی بدولت چھائے "ذہن ساز" مصر ہیں کہ مذکورہ دورے کی بدولت پاکستان سرعت سے چین اور روس کے ساتھ مل کر ایک ایسا بلاک تشکیل دینے کی جانب بڑھ رہا ہے جو امریکہ کو کم از کم ہمارے خطے ہی نہیں بلکہ پورے ایشیاء کے لئے بھی غیر متعلق بنادے گا۔ عمران خان صاحب کے ناقد اس کے برعکس مذکورہ دورے کی "ٹائمنگ" پر طنزیہ سوالات اٹھارہے ہیں۔ مداح سرائی اور تنقید کی بدولت اٹھے شوروغوغا میں کوئی ایک صحافی بھی ٹھوس حقائق پر توجہ دلاتے ہوئے انگریزی زبان والی "بگ پکچر" دکھانے کی گنجائش سے قطعاََ محروم ہوچکا ہے۔
یہ کالم لکھنے سے قبل انٹرنیٹ پر نگاہ ڈالی تو روس یوکرین کی جانب مزید جارحانہ انداز میں بڑھتا دکھائی دیا۔ میری دانست میں مذکورہ پیش قدمی دوسری جنگ عظیم شروع ہونے سے پہلے والے مناظر دہرارہی ہے۔ اس کا انجام کیا ہوگا۔ اس کی بابت فی الوقت کوئی رائے دینے سے قاصر ہوں۔ حالات مگر جس جانب بڑھ رہے ہیں اس کے نتیجے میں آنے والے چند ہفتوں میں ہمارے ہاں پیٹرول کی قیمتیں مزید ناقابل برداشت ہوجائیں گی۔ یورپ اور امریکہ میں ہماری مصنوعات کی فروخت میں گرانقدر اضافہ ممکن نہیں رہے گا۔ عالمی معیشت کے نگہبان اداروں کا رویہ بھی ہمارے ساتھ مزید مخاصمانہ ہوجائے گا۔ امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی روسی پیش قدمی کو کسی صورت برداشت نہیں کر پائیں گے۔ دونو ں فریقین کے مابین تنائو کی جو شدت نمودار ہورہی ہے پاکستان کے لئے خیر کی خبر ہرگز نہیں لائے گی۔
جو مشکلات نازل ہونے والی ہیں اس کا ذمہ دار مگر عمران خان صاحب کے دورہ روس ہی کو ٹھہرادینا بھی تاہم ایک متعصبانہ خیال ہے۔ پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے جنرل مشرف ہی کی نہیں بلکہ ان کے بعد آئی حکومتوں کے دوران بھی روس کے ساتھ تعلقات کے حولے سے ایک نیا باب کھولنا چاہ رہا تھا۔ حال ہی میں ہمارے دیرینہ دوست عوامی جمہوریہ چین نے بھی اس ضمن میں سہولت کارانہ کردار ادا کیا۔ عمران خان صاحب مذکورہ تناظر میں اپنا دورہ ماسکو آخری لمحات میں منسوخ کردیتے تو طویل المدت تناظر میں یہ فیصلہ بھی ہمارے لئے خیر کی خبر نہ لاتا۔ تاریخ کا جبر اور ہماری بدقسمتی کہ وزیر اعظم پاکستان کا دورئہ ماسکو ایسے لمحات میں ہورہا ہے جو سانپ کے منہ میں چھچھوندر والا ماحول بنائے ہوئے ہے۔