عاشقان عمران نے نہایت لگن سے پاکستانیوں کی اکثریت کوقائل کردیا ہے کہ پیمرا کے دئے لائسنس کے ساتھ چلائے ٹی وی چینلوں پر نظر آنے والے تمام صحافی اور اینکر بکائو ہیں۔ سچ جاننا ہے تو ان جی دار افراد صحافیوں سے رجوع کرو جو یوٹیوب چلاتے ہیں۔ اخبارات میں جو چھپتا ہے اس پر نوجوان نسل ویسے ہی توجہ نہیں دیتی۔ ہماری آبادی کی ایک مخصوص (اگرچہ محدود) تعداد اب بھی اخبارات میں لکھے مضامین وکالم ہی بہت توجہ سے پڑھتی ہے۔ نوجوان نسل کا فکر مند حصہ بھی کالموں کو سنجیدگی سے لیتا ہے۔ اخبارات میں لکھے کالم بے وقعت ہوگئے ہوتے تو کم از کم میں ہفتے میں پانچ دن صبح اٹھتے ہی یہ کالم لکھنے کی عادت عرصہ ہوا چھوڑ چکا ہوتا۔
ایک دو بار ٹھوس وجوہات کی بنا پر میں یہ کالم لکھنے سے وقفہ لینے کو مجبور ہوا۔ دو سے تین دن گزر گئے تو پاکستان کے کئی شہروں سے کامل اجنبی افراد نے کسی نہ کسی طرح میرا فون نمبرحاصل کرنے کے بعد مجھ سے رابطہ کیا۔ اپنا تعارف کروانے کے بعد پریشانی سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ میرا کالم شائع کیوں نہیں ہورہا۔ مہربانوں کا فکرمند لہجہ مجھے احساس جرم میں مبتلا کردیتا۔ وقفہ تو بہت دور کی بات ہے۔ کالم "نوائے وقت" کے انٹرنیٹ ایڈیشن پر پوسٹ ہونے میں دیر ہوجائے تب بھی قارئین کی مناسب تعداد اس کی وجہ جاننے کوبے چین رہتی ہے۔
جو تمہید لکھی مقصد اس کا ہرگز یہ ثابت کرنا نہیں کہ نصرت جاوید نامی شخص کو پڑھے بغیر قارئین کا گزارہ نہیں ہوتا۔ عرض فقط یہ کرنا ہے کہ روایتی اخبار میں لکھے الفاظ آج بھی سنجیدگی سے لئے جاتے ہیں۔ اپنی بات ثابت کرنے کو حوالہ فقط ذاتی تجربات کا ہی دے سکتا تھا۔ آج مگر ایک نئی مثال سامنے ہے۔
ذاتی طورپر مجھے انصار عباسی صاحب کی نظریاتی سوچ سے شدید اختلاف ہے۔ ان کی کٹھ ملائیت سے خوف آتا ہے۔ اس کے باوجود نہایت دیانتداری سے یہ تسلیم کرتا ہوں کہ موصوف میری طرح رپورٹنگ کے لئے درکار مشقت سے فرار اختیار کرنے کو رضا مند نہیں ہوئے۔ "خبر" کے تعاقب میں رہتے ہیں۔ ان کی جانب سے دی ایک "خبر" منگل کے دن پاکستان کے ریگولر نہیں بلکہ سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارموں پر بھی چھائی رہی۔ "بکائو" اور "جی دار" صحافی اسے زیر بحث لانے کو مجبور ہوئے۔
موصوف کی دی خبر کے مطابق ایک "اعلیٰ حکومتی شخصیت" تحریک انصاف کے "ٹاپ لیول" رہ نما کے ساتھ رابطے میں ہے۔ تحریک انصاف کو وہ شخصیت اس امر پر قائل کرنا چاہ رہی ہے کہ وہ 24نومبر کے روز اسلام آباد پر آخری دھاوا بولنے کا ارادہ ترک کردے۔ تحریک انصاف مگر "حکومت" کی بات ماننے کو تیار نہیں۔ "مقتدرہ" سے براہ راست گفتگو کی خواہش مند ہے۔ "مقتدرہ" کی جانب سے مگر اسے بتایا جارہا ہے کہ تحریک انصاف کو اپنی بات منوانے کے لئے حکومتی نمائندوں ہی سے بات کرنا ہوگی۔
خبر چھپی تو اسے پڑھ کر میرے خبطی ذہن میں برجستہ سوال یہ اٹھا کہ انصار عباسی نے جو "خبر" دی ہے اس میں "نیا"کیا ہے۔ جھکی پن سے ہٹ کر اس سوال پر دوبارہ غور کیا تو احساس ہوا کہ انصار عباسی کی دی "خبر" کی "ٹائمنگ" (وقت) بہت معنی خیز ہے۔ اس سے ایک روز قبل وہ علی امین گنڈاپور کے حوالے سے بھی ایک خبر دے چکے تھے۔ جس دن یہ خبر چھپی اس روز ایپکس کمیٹی کا اجلاس متوقع تھا۔ ایسے اجلاس میں وزیر اعظم اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے علاوہ آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ بھی موجود ہوتے ہیں۔
بطور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخواہ علی امین گنڈاپور اس کے اجلا س میں شرکت سے قبل جائزوجوہات کی بنا پر اپنی جماعت کے بارے میں "نرم" رویہ کی راہ بنانے کا حق رکھتے تھے۔ اسی باعث انصار عباسی سے گفتگو کی۔ اس گفتگو کے بعد جو خبر آئی وہ عندیہ دے رہی تھی کہ جس "حکومتی شخصیت" سے تحریک انصاف کی "ٹاپ قیادت" رابطے میں ہے اسے "مقتدرہ" کا اعتماد بھی حاصل ہے۔ منگل کی صبح چھپی خبر میں "نیا پن" لہٰذا یہ تھا کہ تحریک انصاف "مقتدرہ" سے براہ راست گفتگو کے بجائے ایک ایسی "حکومتی شخصیت" سے رابطہ برقرار رکھے ہوئے ہے جس سے گفتگو کا مقصد بالواسطہ انداز میں "مقتدرہ" ہی سے گفتگو کرنا ہے۔
رابطوں کی خبر چھپ گئی تو ایپکس کمیٹی کے اجلاس سے قبل علی امین گنڈاپور اڈیالہ جیل گئے۔ وہاں ان کے لئے عمران خان سے ملاقات کی خاطر "کانفرنس روم" کھلوایا گیا۔ عمران خان کی "نااہلی" کے سبب تحریک انصاف کے وقتی سربراہ ہوئے بیرسٹر گوہر بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔ ملاقات ختم ہوگئی تو اس کے بارے میں پریس کو بیان عمران خان صاحب کی ہمشیرہ علیمہ خان صاحبہ نے دیا۔ کلیدی پیغام محترمہ نے یہ دیا کہ تحریک انصاف کے سربراہ نے بیرسٹرگوہر اور علی مین گنڈاپور کو جمعرات تک کی مہلت دی ہے۔ اس وقت تک اگر "حکومتی شخصیت" کی کاوشوں سے "مقتدرہ" کے ساتھ بھی کسی نوعیت کا رابطہ ہونے کے بعد مذاکرات کی راہ بنی تو 24نومبر کی "فائنل کال" ملتوی ہوسکتی ہے۔ مذاکرات کے ذریعے کیا حاصل کرنا ہے؟ اس سوال کا جواب تھا: "چوری شدہ مینڈیٹ کی واپسی"۔
بعدازاں ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اس کے دوران وزیر اعظم شہبازشریف نے بھی درد مند آواز میں تحریک انصاف کا نام لئے بغیر دھرنے کے بجائے مذاکرات کی درخواست کردی۔ آرمی چیف کے خطاب کی توجہ البتہ دہشت گردی کے خاتمے کے عزم کے اظہار پر مرکوز رہی۔ کم از کم مجھے یہ تاثر نہیں ملا کہ "مقتدرہ" عمران خان کی خواہش کے مطابق تحریک انصاف سے براہ راست مذاکرات کی متمنی ہے۔ تحریک انصاف کو موجودہ حکومت ہی سے مذاکرات کا آغاز کرنا ہوگا۔ عمران خان اس کے لئے رضا مند کیوں ہوں گے؟
اس سوال کا جواب میں فی الوقت اعتماد کے ساتھ فراہم نہیں کرسکتا۔ علی امین گنڈا پور کی "آنیاں جانیاں" مگر عندیہ دے رہی ہیں کہ تحریک انصاف کی اب تک جیل سے محفوظ رہی قیادت دل سے یہ چاہتی ہے کہ ان کے قائد 24نومبر کی "فائنل کال" کو کچھ دنوں تک موخر کردیں اور حکومت اور مقتدرہ ان رہ نمائوں کو 24نومبر کا امتحان ٹالنے کے لئے "محفوظ راستہ" فراہم کرے۔ اس کے علاوہ میرا جھکی ذہن کوئی اورتعبیر ڈھونڈنے سے قطعاََ قاصر ہے۔