Saturday, 15 March 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Nusrat Javed
  4. Fraud Ke Manba Dabba Call Center

Fraud Ke Manba Dabba Call Center

جرائم کی خبروں کا تعاقب کرنا جوانی میں میرا جنون تھا۔ اس کی بدولت کئی ایوارڈ بھی ملے اور اس سے زیادہ اہم کئی بے کسوں کی دعائیں بھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مگر میں سیاسی کے علاوہ خارجہ امور پر بھی لکھنے لگا۔ خارجہ امور میں گھسا تو کوٹ کے ساتھ ٹائی لگاکر فلمی گانے والا "صاب" بن گیا۔ عرصہ ہوا اب اخبار میں چھپی کسی بڑے جرم کی کہانی بھی تفصیل سے نہیں پڑھتا۔

چند دن قبل مگر کراچی کا ایک نوجوان پراسرار حالات میں قتل ہوگیا۔ نظر بظاہر اس کے ایک قریبی دوست نے اسے قتل کیا اور کراچی سے نکل کر بلوچستان کی سرحد کے آغاز میں واقعہ حب کے کسی سنسان مقام پر شعلوں کے سپرد کردیا۔ مذکورہ خبر کا ہمارے ایک موقر روزنامے نے نہایت لگن سے پیچھا کیا۔ ان دنوں اخبارات کے صفحات درآمد ہوئے کاغذ کی قیمت میں ناقابل برداشت اضافے کی وجہ سے محدود سے محدود تر ہورہے ہیں۔ اس کے باوجود مصطفیٰ کے وحشیانہ قتل کے مختلف پہلو مذکورہ اخبار میں نمایاں انداز میں چھاپے گئے۔ جس انداز میں اس خبر کا تعاقب ہوا اس نے پولیس کو مصطفیٰ کی قبر کشائی کو مجبور کیا۔ قبر کشائی ہوئی تو مذکورہ قتل سے جڑے بے شمار پہلو عیاں ہونے لگے۔

ذات کے رپورٹر بنیادی طورپر جھکی مزاج ہوتے ہیں۔ شک مگرسچائی کی جانب بڑھنے کا پہلا زینہ ثابت ہوتا ہے۔ مصطفیٰ کے قتل کو جس انداز میں اچھالا گیا اس نے مجھے یہ سوچنے کو اُکسایا کہ شاید اس کے والدین ہمارے معاشرے کے طاقتور لوگ ہوں گے۔ پولیس نے ابتداََ ان کے بیٹے کے قتل کی تفتیش میں دلچسپی نہیں دکھائی ہوگی۔ انہوں نے اخبارات سے دادفریاد کی تو بات آگے بڑھی۔ وجہ کچھ بھی رہی ہو دنیا کے کسی بھی معاشرے میں ایک نوجوان کا نظر بظاہر "دوست" کے ہاتھوں قتل ہمیشہ اہم واقعہ ہوتا ہے۔ اس کا تعاقب صحافتی تقاضہ ہے۔

بات چل نکلی تو اس کی بدولت اب بے شمار ایسے پہلو سامنے آرہے ہیں جن پر غور لازمی ہے۔ مصطفیٰ کے جس دوست پر قتل کا الزام ہے وہ کال سنٹر چلاتا رہا ہے۔ پاکستان کے کئی شہروں میں ایسے کال سنٹر کام کررہے ہیں۔ سستی اجرت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا بھر کے بینک، انشورنس کمپنیاں اور ٹرانسپورٹ کے ادارے اپنے صارفین کی مدد کے لئے پاکستان جیسے ملکوں میں ایسے سنٹر بنانے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

فرض کیا آپ ا مریکہ کے کسی شہر اے ٹی ایم لے کر گئے۔ وہاں پیسے حاصل کرنے میں ناکام رہے تو ہیلپ لائن پر کال کرتے ہیں تب آپ کا فون اس شہر میں نہیں اٹھایا جائے گا جہاں آپ موجود ہیں۔ اسے کراچی یا لاہور میں قائم کوئی سنٹرپر کام کرنے والا بچہ یا بچی اٹھائے گی اور آپ کی مدد کرنے کی کوشش کرے گی کال سنٹر پر آئے فون پر گفتگو کے لئے آپ کو چند ہفتوں کی تربیت دی جاتی ہے۔ اس کے دوران آپ امریکی یا برطانوی لہجے کو سمجھنے اور اس میں بولنے کے قابل ہوجائیں تو کم عمری میں معقول تنخواہ پر آپ کو اچھی نوکری مل جاتی ہے۔

پاکستان جیسے غریب ملکوں کے لئے ایسے سنٹر بابرکت ثابت ہورہے تھے۔ زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی ہوس میں مبتلا چند شیطان صفت افراد نے مگر اس دھندے کو اب تباہ کرنا شروع کردیا ہے۔ رواں مہینے کے آغاز میں امریکہ اور ہالینڈ کے تفتیشی اداروں نے باہم مل کر پاکستان میں ایسے "کال سنٹرز" کا پتہ چلایا جن کا مقصد صارفین کی مدد نہیں بلکہ ان کی عمر بھر کی کمائی کو انٹرنیٹ کی بدولت رقوم ترسیل کے تمام تر ذرائع پر کامل کنٹرول کے ذریعے لوٹنا تھا۔

آج سے محض دس دن قبل میری بیوی بھی جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے علاوہ فیلڈریسرچ کا بھرپور تجربہ رکھتی ہے اپنی عمر بھر کی بچت سے محروم ہونے والی تھی۔ اس کے پاس جس نیٹ ورک کی سم ہے (نظر بظاہر) اس کے کسی ملازم نے اسے فون کیا۔ اس نے شکایت کی کہ میری بیوی کو موبائل کمپنی کی جانب سے مسلسل آگاہ کیا جارہا ہے کہ آپ فون کے ذریعے جس طریقے سے مختلف اشیاء کی خریدپر ادائیگی کررہی ہیں وہ خطرے میں ہے۔ وہ ہیک ہونے والا ہے۔

بیوی نے اعتبارنہ کیا تو کال کرنے والے نے اپنے "سپروائزر" سے بات کروائی۔ سپروائزر نے انتہائی شائستگی سے میری سخت گیر بیوی کو قائل کردیاکہ اس کے فون میں نصب بینکنگ کا نظام واقعتا خطرے میں ہے وہ نیا کوڈ لگائے۔ میری بیوی کو جو کوڈ دیا گیا اسے استعمال کرلیا تو "سپروائزر" نے کہا کہ اب وہ اپنی ای میل کھولے اور بینک کے ساتھ اپنے پن اور کوڈ وغیرہ کو دوبارہ سیٹ کرے۔ خدا کا شکر کہ اس موقعہ پر میری بیوی کو شک ہوا۔ اس نے مجھ سے فون پر رائے مانگی تو میں نے سرپکڑلیا۔ اس سے درخواست کہ فوراََ اپنے بینک سے رابطہ کرے۔ اس نے میری بات مان لی اور بینک کی مدد سے حفاظتی نظام لگاکر بچت ہوگئی۔

امریکہ اور یورپ میں لیکن بے تحاشہ بوڑھے لوگ ہمہ وقت "ہیلپ لائن" کے محتاج ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کو بیماری کی صورت میں اپنی انشورنس کمپنی کی نامزدگی پر کسی ڈاکٹر کے پاس جانا ہوتا ہے۔ دونمبر کے "کال سنٹر" جنہیں سنا ہے کراچی میں "ڈبہ" کہا جاتا ہے بنیادی طورپر انشورنس کمپنی کے ایجنٹ بننے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے بوڑھے گاہکوں کے ہمارے کال سنٹرز کے بچے اور بچیاں "دوست اور خدمت گزار" بن کر کریڈٹ کارڈ اور بینک اکائونٹس وغیرہ کی تمام تر تفصیلات جمع کرلیتے ہیں۔

ہمارے چند "ڈبہ سنٹر" مگر اس سے کہیں آگے بڑھ چکے ہیں۔ وہ آپ کے فونز میں گھس کر اطلاعات جمع کرنے کے کئی طریقے بھی "ایجاد" کرچکے ہیں جنہیں دیگر ملکوں کے نوسربازوں کو بھی بھاری قیمت پر بیچا جاتا ہے۔ بھارت میں بھی یہ دھندہ عروج پر تھا۔ اس حوالے سے نیٹ فیلکس پر ایک فلم بھی بنی۔ اسے دیکھا نہیں مگر شاید اس کا نام جنم تارہ تھا۔ بھارت کی تمام جاسوسی اور تفتیشی ایجنسیوں نے لیکن یکسوہوکر "ڈبہ" کال سنٹروں کا صفایا کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔

مجھے ہرگز سمجھ نہیں آرہی کہ مصطفیٰ کے اندوہناک قتل کے ڈبہ کال سنٹر سے تعلق واضح ہونے کے باوجود فقط کراچی پولیس ہی کو اس کی تفتیش پر کیوں لگایا گیا ہے۔ ایف آئی اے اور خاص طورپر اس کا سائبرکرائم ونگ اس میں ایکٹو کیوں نہیں ہوا؟ اب تو اس قتل سے کراچی کے پوش علاقوں میں غیر ملکوں سے منگوائی منشیات کا تعلق بھی نکل آیا ہے۔ معاملہ فقط کراچی پولیس کے بس میں نہیں رہا۔ سائبر کرائم اور منشیات کنٹرول کے ادارے کو مل کر ایک جے آئی ٹی کے ذریعے مصطفیٰ کے قتل کے بعد منکشف ہوئے حقائق کا پیچھاکرنا ہوگا۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.