گزشتہ ہفتے کا آخری کالم معمول کے مطابق جمعرات کی صبح اٹھنے کے بعد لکھا تھا۔ مولانا فضل الرحمن صاحب نے اس سے قبل اطلاع یہ دی تھی کہ "آئندہ 48گھنٹوں " میں تحریک عدم اعتماد والا کارتوس چلادیا جائے گا۔ وہ چل گیا تو خزاں بہار میں بدل جائے گی۔ یہ کالم چھپنے کے دن ان کی جانب سے ہوئے اعلان کو 72سے زیادہ گھنٹے گزرچکے ہوں گے۔ تحریک عدم اعتماد مگر اس وقت تک قومی اسمبلی کے سپیکر کے دفتر بھی نہیں پہنچی ہوگی۔ میرے اور آپ جیسے اشرافیہ کی غلام رعایا کو اب تک یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ جس تحریک کے چرچے ہورہے ہیں وہ براہِ راست وزیر اعظم صاحب کے خلاف پیش ہوگی یا اس سے قبل عمران صاحب کی فراغت کو یقینی بنانے کے لئے قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر سے جان چھڑانے کی مشق سے گزرا جائے گا۔ سیاست کو دو جمع دو کی منطق سے دیکھیں تو تحریک عدم اعتماد کا پہلا ہدف اگرچہ سپیکر قومی اسمبلی ہی نظر آتے ہیں۔
وطن عزیز میں لیکن دو جمع دووالے فارمولوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔ سیاسی منظر نامے تشکیل دینے والے ہاتھی کی طرح "بڑا جانور"شمار ہوتے ہیں۔ ان کی مرضی۔ انڈہ دیں یا بچہ۔ ہم بے اختیار محض تماشائی ہیں۔ قدیم روم کی رعایا کی طرح بھوکے شیروں کے سامنے اکھاڑے میں پھینکے غلاموں کے دائوپیچ دیکھتے ہوئے جی کو بہلالیتے ہیں۔
تماشوں کا ذکر چلا ہے تو یاد رکھنا ہوگا کہ چند ہی روز قبل پی ایس ایل کے نام سے ہوئے ٹی- 20میچوں کا سلسلہ ختم ہوا ہے۔ اس کے فوری بعد آسٹریلیا کی ٹیم طویل وقفے کے بعد پاکستان آچکی ہے۔ حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفر موج اگرچہ مصر ہے کہ ان کی آمد سے ابھری خوشی کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کے لئے جمعہ کے دن پشاور کی امام بارگاہ میں خودکش حملہ کروادیا گیا۔ یہ تاثر پھیلانے کی کوشش ہورہی ہے جیسے ہمارے وطن عزیز میں دہشت گردی کا یہ پہلا واقعہ تھا۔ اس حقیقت کو سفاکی سے بھلاتے ہوئے کہ فرقہ واریت کی آگ ہمارے ہاں 1980ء کی دہائی سے بڑھک رہی ہے۔
صدام حسین کے عراق نے اس دہائی میں امام خمینی کے ایران پر جنگ مسلط کردی تھی۔ مذکورہ جنگ کو موصوف"قادسیہ" کی جنگ قرار دیتے ہوئے عرب عجم چپقلش کا ایک اور مرحلہ قرار دیتے رہے۔ اسلام کے نام پر قائم ہوئے پاکستان کو سوچی سمجھی وحشت کے ساتھ اس جنگ کا فریق بنادیا گیا۔ عراق اور ایران مذکورہ جنگ کے کلیدی کردار تھے۔ ہم مگر اپنے ازلی دشمن بھارت اور امریکہ کواس کا ذمہ دار ٹھہراتے رہے۔ امریکہ کو دوش دیتے ہوئے یہ حقیقت بھی نظرانداز کردی کہ مذکورہ ملک کی بھرپور معاونت سے ہمارے دیدہ ور جنرل ضیاء الحق نے سوویت یونین کو افغانستان میں گھیررکھا تھا۔ ہمارے "خاموش" نابغے اس ملک میں متحرک مجاہدین کے حتمی سرپرست تھے۔
روایتی اور سوشل میڈیا پر چھائے "ذہن ساز" اب یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ پشاور میں جو سانحہ ہوا اس کی بنیادی وجہ وزیر اعظم صاحب کا حال ہی میں ہوا "تاریخی" دورہ ماسکو ہے۔ امریکہ اور یورپ اس سے خفا ہوگئے۔ ہمیں "سبق" سکھانے کا فیصلہ ہوا۔ اسی دورے کو نگاہ میں رکھتے ہوئے دعویٰ یہ بھی ہورہا ہے کہ عمران خان صاحب کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے کے لئے اپوزیشن جماعتوں کو تحریک عدم اعتماد کے لئے امریکہ ہی نے اکسایا ہے۔
عمران خان صاحب کے خلاف ویسے ہی سازش ہورہی ہے جو 1950ء میں ایران کے قوم پرست وزیر اعظم ڈاکٹر مصدق کے خلاف رچائی گئی تھی۔ 1970ء کی دہائی میں چلی کا صدر بھی ایسی ہی سازش کا نشانہ بنا تھا۔ 1977ء میں اپنے خلاف چلی تحریک کا ہمارے ذوالفقار علی بھٹو صاحب بھی تواتر سے "ہاتھیوں " کو ذمہ دار ٹھہراتے رہے۔ ہمارے کئی نیک نام اور پارسا دانشور اور صحافی یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ افغانستان میں "اپنا کام نکلوانے کے بعد" امریکہ ہی نے جنرل ضیاء الحق کو بھی ایک فضائی حادثے کے ذریعے شہید کردیا تھا۔ اب کی بار عمران خان صاحب "Absolutely Not"کہنے کی وجہ سے معتوب نظر آرہے ہیں۔ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا جال بچھانے والے آصف علی زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن اس تناظر میں امریکہ کے سہولت کار ٹھہرائے جارہے ہیں۔
جس "گہری سازش" کے چرچے ہیں میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی اس سے قطعاََ لاتعلق ہیں۔ ہماری بے پناہ اکثریت کا بنیادی مسئلہ مہنگائی کی ناقابل برداشت لہر ہے۔ اس کے ازالے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ اکھنڈ روس کی بحالی کے لئے پوٹن یوکرین پر حملہ آور ہوچکا ہے۔ اس کی بدولت عالمی منڈی میں تیل کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ تیل کے علاوہ پریشان کن حقیقت یہ بھی ہے کہ یوکرین عالمی منڈی میں میسر گندم کا 29فی صد پیدا کرتا تھا۔ مکئی اور سورج مکھی بھی اس کے ہاں سے دنیا کے بے شمار ممالک بھجوائے جاتے ہیں۔ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے روزمرہ ّاستعمال کی مذکورہ تین اجناس عالمی منڈی میں بآسانی میسر نہ ہوں گی۔ اس کی وجہ سے مہنگائی کا جو طوفان امڈنے والا ہے اس کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہم محسوس ہی نہیں کررہے۔
امریکی ڈالر کی قدر بھی پاکستانی روپے کے مقابلے میں ایک بار پھر بڑھنا شروع ہوگئی ہے۔ ہماری درآمدات کے برآمدات کے ساتھ تقابل کی وجہ سے کرنٹ اکائونٹ کا جو خسارہ ہے وہ ریکارڈ حدوں کو چھورہا ہے۔ ہم ٹھوس حقائق سے مگر قطعاََ غافل ہوئے "عالمی سازشوں " کے خلاف سینہ کوبی میں مصروف ہیں۔ اپنے آقائوں سے یہ پوچھنے کی جسارت بھی نہیں دکھارہے کہ آج سے دو برس قبل اپوزیشن جماعتوں کی فدویانہ معاونت کی بدولت ریکارڈ سرعت کے ساتھ دس سے زیادہ قوانین متعارف کروانے کے باوجود ہم ابھی تک فنانشل ایکشن ٹاس فورس کی گرے لسٹ میں کس وجہ سے اٹکے ہوئے ہیں۔