Saturday, 15 March 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Nusrat Javed
  4. Ghair Mehfooz Mobile Data Ki Qabahaten

Ghair Mehfooz Mobile Data Ki Qabahaten

امریکہ میں ٹرمپ کے وائٹ ہائوس لوٹ آنے کے بعد دنیا کسی بھی صورت ویسی نہیں رہے گی جس کے ہم کئی دہائیوں سے عادی ہوچکے ہیں۔ "نئی دنیا" کاآغاز کئی دانشوروں کی نگاہ میں کمیونزم کے خاتمے کے بعد ہوا تھا۔ سرد جنگ ختم ہوئی تو دنیا نظر بظاہر سکڑ کر "عالمی گائوں" میں تبدیل ہوگئی اور پھر ہر جا پھیل گئے موبائل فون۔ ان میں فیس بک اور واٹس ایپ جیسی ایپس نصب ہوئیں تو گویا دور دراز شہروں اور قصبات میں مقیم ہرشخص ہمارا "ہمسایہ" بن گیا۔

سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ ہمسائیگی انسانوں کے مابین روحانی فیصلوں کو ختم کرنے میں ناکام ہوئی۔ اس سوال پر غور کریں تو جواب نفی میں ملتا ہے۔ دنیا سکڑی تو بلکہ انسانوں کو ایک دوسرے کے بہت قریب آکر اپنی جداگانہ شناخت کا مزید احساس ہونا شروع ہوگیا۔ انسان کی اصل بیماری ہی اس کا احساسِ "انفرادیت" ہے۔ اسی باعث آپ کو پرانے دیہاتوں میں ایک دوسرے کے "خاندانی ویری" کثیرتعداد میں نظر آتے ہیں حالانکہ محدود قطعہ زمین پر نسلوں سے قریب رہنے کی وجہ سے ان میں الفت وقربت کے رشتے گہرے ہونا چاہئیں تھے۔

وائٹ ہائوس میں ٹرمپ کی آمد در حقیقت اس "نئی دنیا" کے خاتمے کا اعلان ہے جو سردجنگ کے اختتام پر نمودار ہوئی تھی۔ انفرادیت قوم پرستی میں بدل کر انسانوں کو "عالمی ذمہ داریوں" سے بیگانہ بنارہی ہے۔ عالمی ذمہ داریوں سے بے اعتنائی کے سبب ہی 2022ء کے اپریل سے روس کی یوکرین کے خلاف جنگ جاری ہے۔ ہزاروں لوگ اس کی وجہ سے مارے گئے۔ لاکھوں بے گھر ہوکر غیر ملکوں میں پناہ گزین ہوچکے ہیں۔ بے تحاشہ تباہی کے باوجود جنگ بندی کے امکانات ابھرے تو ہیں مگر وہ بنیادی طورپر "جارح" کے حق میں جاتے نظر آرہے ہیں۔

اکتوبر2023ء سے غزہ کی پٹی بھی مستقل ظلم کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ وہاں نسلوں سے آباد فلسطینیوں کی مدد کوئی ملک کر نہیں پایا۔ ٹرمپ نے وائٹ ہائوس پہنچ کر بھی جو "امن فارمولا" سوچا ہے وہ غزہ کو فلسطینیوں سے پاک کرنا چاہ رہا ہے۔ نہایت سفاکی سے یہ "نہ بانس رہے نہ بانسری" والا رویہ ہے۔ غزہ سے فلسطینیوں کو نکال کر ٹرمپ وہاں جدید ترین سہولتوں سے مالا مال ایک بستی بسانا چاہتا ہے جہاں دنیا کے امیر ترین لوگ "سمندر کے کنارے زندگی کا لطف اٹھائیں گے۔ " اس کا فارمولا ابھی تک ظلم کا نشانہ بنے فلسطینیوں نے قبول نہیں کیا۔ وقتی طورپر جنگ اگرچہ تھم گئی ہے۔ دائمی امن کا حصول مگر ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔

یوکرین اور غزہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد قائم ہوئی "نئی دنیا" کی تباہی کا بدترین مظہر ہیں۔ انتشار ابتری مگر دنیا میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔ یورپ کئی صدیوں تک نئی ایجادات وخیالات کا مرکز رہا۔ ان دنوں بے بس ہوا قرون وسطی میں لوٹتا نظر آرہا ہے۔ ہمارے ہاں بھی زندگی بہت اداس ہے۔ کئی آمرانہ حکومتیں بھگتنے کے باوجود ہمارے ہاں زندہ دل مزاحمت کے رحجانات بھی اپنی جگہ برقرار رہے۔

گزشتہ چند برسوں سے وہ رویہ بھی ختم ہونا شروع ہوگیاہے۔ حکمرانوں میں برداشت باقی نہیں رہی۔ اپوزیشن جماعتیں کثیر تعداد کی حمایت کے باوجود کوئی قابل عمل حکمت عملی بنانے میں ناکام ہیں۔ ابتری کے موجودہ ماحول کو میں اس کالم میں کسی ایک واقع پر توجہ دیتے ہوئے نام نہاد "بگ پکچر" کی جانب بڑھنا چاہتا ہوں۔ رات سونے سے قبل جو موضوع طے کررکھا ہوتا ہے صبح اٹھتے ہی غیر متعلقہ محسوس ہوتا ہے۔ آج بھی کسی اور موضوع پر لکھنا تھا مگر گھر کی خبر لینا ضروری سمجھتا ہوں۔

بدھ کی صبح چھپے کالم میں آپ نے مصطفیٰ نامی نوجوان کے قتل کا ذکر سنا ہوگا۔ مبینہ طورپر اسے ارمغان نامی نوجوان نے بے دردی سے قتل کیا۔ مصطفیٰ اور ارمغان قریبی دوست ہوا کرتے تھے۔ شنید ہے کہ 2024کی آخری رات ایک لڑکی کی وجہ سے ان کے مابین تلخی ہوئی۔ اس تلخی کے بعد ارمغان نے اسے اغواء کرلیا۔ اغواء کرنے کے بعد وہ ظالم شخص "ٹاس" کرکے یہ فیصلہ کرتا رہا کہ مصطفیٰ کو جان سے مارا جائے یا نہیں۔ بدقسمتی سے ٹاس مصطفیٰ کے خلاف آتا رہا۔ ارمغان نے "ٹاس" ہی کی وجہ سے شدید زخمی مگر زندہ مصطفیٰ کو کراچی سے حب لے جاکر نذرِ آتش کردیا۔ بات رقابت سے شروع ہوکر ایک ہولناک قتل تک پہنچی ہوتی تو میں اسے نظرانداز کردیتا۔

مذکورہ قتل کے بعد نمایاں ہوئے واقعات نے مگر حیران کررکھا ہے۔ 7جنوری 2025ء کو "لاپتہ" ہوا مصطفیٰ "مقتول" کی صورت برآمد ہوا تو اس کے مبینہ قاتل کی گرفتاری کے لئے کراچی پولیس۔ متحرک ہوئی۔ قاتل ایسے گھر میں مقیم تھا جہاں "کال سنٹر" بھی چلایا جاتا ہے۔ یہ کال سنٹر مگر "ڈبہ" تھا جس کا حقیقی مقصد امریکہ اور یورپ میں مقیم بوڑھوں کے کریڈٹ کارڈ اور بینک اکائونٹس کی تفصیلات جمع کرکے انہیں ہتھیانا تھا۔ "ڈبہ" کال سنٹرفقط کراچی تک ہی محدود نہیں ہیں۔ لاہور اور فیصل آباد کے اکثر "سنٹر" بھی ایسی وارداتوں میں شامل ہیں۔ موبائل فون کا حامل ہر پاکستانی بھی اب ان کے نشانے پر ہے۔

آپ میں سے اکثر کوایسے فون نمبروں سے کال آتی ہوگی جو آپ کے پاس محفوظ نہیں ہیں۔ آپ اٹھاکر ہیلو کہیں تو وہ آپ کو نام لے کر پکاریں گے۔ ان کا تعلق کسی نہ کسی دھندے سے ہوگا۔ وہ اسے "مارکیٹ" کرنا چاہ رہے ہوں گے۔ آپ اکثر غصے میں ایسی کالز سے جان چھڑالیتے ہیں۔ یہ مگر شاذہی سوچا ہوگا کہ آپ کو کسی دھندے میں پیسہ لگانے کی جانب راغب کرنے والے نے آپ کو نام لے کر کیوں پکار اہے۔

میں اکثر اس کے بارے میں سوچتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ موبائل کمپنیوں کے پاس اپنے صارفین کا جو ڈیٹا ہے وہ محفوظ نہیں۔ اسے چرانے کے بعد فروخت کیا جاتا ہے۔ اسی باعث آپ کے فون پر جب اجنبی فون آتا ہے۔ آپ ہیلو کہتے ہیں تو دوسری طرف سے آپ کو "نصرت صاحب بات کررہے ہیں؟" کہا جاتا ہے۔ آپ کے موبائل سے جمع شدہ معلومات کو Dataکہا جاتا ہے۔ اس پر اجارہ داری کی بدولت "ذہن سازی" ہوتی ہے۔ اس "ذہن سازی" نے کئی ملکوں میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑکائے۔ خانہ جنگی کو ہوا دی۔ "ذہن سازی" کے "کارنامے" سامنے آئے تو امریکی کانگریس میں طویل تحقیقات ہوئیں۔ اس کے نتیجے میں فیس بک کو اپنے ہاں پوسٹ ہوئے مواد پر نگاہ رکھنے کو "چوکیدار" بٹھانے پڑے۔

ٹرمپ کی آمد کے بعد مگر ان چوکیداروں کی "آزادی اظہار" کے نام پر فراغت ہوچکی ہے۔ جو کبھی ٹویٹر کہلاتا تھا ان دنوں ایلان مسک کی ملکیت ہے۔ وہ اس پلیٹ فارم کو انتہائی بے دردی سے اپنے خیالات کے فروغ کے لئے استعمال کررہا ہے۔ یورپی یونین نے چونکہ ابھی تک انٹرنیٹ کے متعدد پلیٹ فارموں پر "چوکیدار" بٹھارکھے ہیں۔ اسی باعث ایلان اور اس کا دوست ٹرمپ مل کر یورپی یونین کی تباہی کو ڈٹے ہوئے ہیں۔ اتنی بڑی لڑائی کے پس منظر میں ہمارے ہاں قائم ہوئے کال سنٹرز کے ذریعے جو رحجانات فروغ پارہے ہیں وہ ہمیں مصطفیٰ اور ارمغان جیسے نوجوان ہی عطا کریں گے۔ جبکہ ہمارے دانشور ہمیں سمجھاتے رہے کہ ہمارے ہاں کاBulge Youth پاکستان کو بدل کررکھ دے گا۔ جن سے خیر کی امید تھی وہ ٹاس کرکے دوستوں کو زندہ جلارہے ہیں۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.