Saturday, 15 March 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Nusrat Javed
    4. Hamari Cricket Ke Badshah

    Hamari Cricket Ke Badshah

    کرکٹ سے مکمل عدم دلچسپی کے باوجود ہفتے کی دوپہر دوبئی میں پاکستان اور بھارت کے مابین ہوا ایک روزہ میچ پہلی گیند سے آخری گیند تک دیکھا ہے۔ بھارت یہ میچ جیت گیا۔ اس کی جیت سے میں ہرگز اداس نہیں ہوا۔ کسی بھی کھیل میں ہار یا جیت فقط ایک فریق کا مقدرہی ہوسکتی ہے۔ بنیادی سوال یہ اٹھتا ہے کہ کون کس دھج سے ہارا یا جیتا۔ اس تناظر میں میچ کا جائزہ لیتے ہوئے یہ لکھنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ پاکستان کی ٹیم میچ کے آغاز ہی میں "جی ہارے" چہروں کے ساتھ میدان میں اتری تھی۔

    بھارت نے بھی کرکٹ کو "بائی چانس" نہیں رہنے دیا ہے۔ اس کے کھلاڑیوں کا اعتماد اپنی جگہ قابل ستائش تھا۔ اس اعتماد کی وجوہات بھی بیان کی جاسکتی ہیں۔ ہفتے کے روز ہوئے میچ کو انہوں نے "جذبات" نہیں کرکٹ کی تکنیک پر مہارت سے جیتا۔ شاذ ہی ایسے لمحے آنے دئے جہاں میچ ان کے کھلاڑیوں کی دسترس سے باہر نکلتا محسوس ہو۔

    کرکٹ سے تکنیکی اعتبار سے ناواقف ہونے کے باوجود پاکستان کی اننگز ختم ہوتے ہی سمجھ گیا تھا کہ بھارت کو آسان ہدف ملا ہے۔ اس کے باوجود میچ آخری لمحے تک دیکھا تو بنیادی طورپر یہ جاننے کے لئے کہ آسان نظر آتے ہدف کے حصول کے لئے بھارتی کھلاڑی اتاولاپن دکھائیں گے یا دھیرے دھیرے کوئی چانس لئے بغیر میدان میں ڈٹے رہیں گے۔ اتاولے پن اور ٹھنڈے مزاج میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کے لئے آپ کو اعصابی اعتبار سے بہت مضبوط ہونا پڑتا ہے۔ انسانوں کی لیکن نسبتاََ محدود تعداد ہی اپنے اعصاب پر کامل اختیار کی حامل ہوتی ہے۔ اعصاب قابو میں رکھنے کے لئے مشق درکار ہے۔ بدقسمتی سے ہماری ٹیم ایک لمحے کو بھی ایسی کسی مشق سے تیار نظر نہیں آئی جواعصاب پر گرفت مضبوط بناتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بھارتی ٹیم کی اعصاب پر گرفت نے ہفتے کے میچ کو "میکانکی" بنادیا۔

    اہم ترین بات مجھ جاہل نے یہ بھی نوٹس کی کہ پاکستان "ٹیم" کی صورت میدان میں نہیں اترا۔ اس کا ہر کھلاڑی ٹیم سے ہٹ کر انفرادی "کمال" دکھانے کو بے چین نظر آیا۔ ہماری جانب سے اجتماعی عزت وبے عزتی سے بے اعتنائی کے سبب بھارتی کھلاڑی ناقص فیلڈنگ کے وجہ سے وکٹ کے درمیان دوڑ کر ایک کے بجائے متعددبار2رنز کرنے کے قابل ہوئے۔ دونازک مواقع پر انتہائی اہم کیچ بھی چھوڑ دئے گئے۔ فیلڈنگ پر میدان میں کھڑے ہر کھلاڑی کی توجہ مبذول ہونا لازمی ہے۔ فیلڈنگ میں یکسوئی کے بغیر گیارہ کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم اکائی کی صورت ابھرنے میں ناکام رہتی ہے۔

    ہمارے کپتان نے اگرچہ میری دانست میں بھارت کو دبائو میں رکھنے کے لئے ہر ممکن حربہ استعمال کیا۔ حارث رئوف اور شاہین آفریدی کو میں چند دیگر میچوں میں دوستوں کے دبائو کے تحت دیکھ چکا ہوں۔ ہفتے کے میچ میں لیکن وہ ہماری ٹیم کے لئے خاطر خواہ جلوے دکھانے میں ناکام رہے۔ بھارت کو ہدف تک پہنچنے سے روکنے کے لئے ہمارے کپتان نے زیادہ تر ان بائولروں پر انحصار کیا جن کے ناموں سے میں واقف نہیں۔ وہ فاسٹ نہیں سپین بائولر تھے۔ ان میں سے چند ایک نے ویرات کوہلی جیسے مشہور کھلاڑی کو چوکے چھکے لگاکر پچ میں رونق لگانے نہیں دی۔

    وہ میدان میں دوڑ کر ایک کے بجائے دو رن بنانے پر ہی توجہ دیتا رہا۔ جو بائولر آزمائے گئے اس سے زیادہ ڈیلیور کرنہیں سکتے تھے۔ ہمارے بلے بازوں نے 50اوور کے لئے بڑا ٹارگٹ فراہم نہیں کیا تھا۔ اس کے بعد فقط یہ امید باندھی گئی کہ شاید میچ جلد ختم کرنے کی چاہت میں بھارتی بلے باز چوکے چھکوں پر توجہ دیں گے۔ ویرات کوہلی کی ٹیم مگر "آتش فشانی" کو آمادہ نہیں ہوئی۔ اہم ترین بات یہ بھی تھی کہ جب ویرات کوہلی نے 85سے زیادہ رنز بنا لئے تو اس کے ساتھ کریز کی دوسری جانب کھڑا ہوا کھلاڑی اس کوشش میں رہا کہ وہ زیادہ گیندوں کا سامنا کرتے ہوئے سینچری بنائے اور میچ کے آخری گیندپر ویرات نے چوکا لگاکر ایک اور ریکارڈ بنالیا۔

    ایک بار پھر اعتراف کرتا ہوں کہ مجھے کرکٹ سے قطعاََ دلچسپی نہیں۔ ہار جیت بھی دنیا کے ہر کھیل میں صرف ایک فریق کا مقدر ہوسکتی ہے۔ اس سب کے باوجود اپنی ٹیم سے بہتر کارکردگی کی توقع تھی۔ ہمارے ہاں کئی دہائیوں کے بعد کرکٹ کے حوالے سے ایک عالمی ایونٹ ہورہا ہے۔ اس ایونٹ کے لئے ہم نے اپنے اسٹیڈیم وغیرہ تیار کرنے میں کماحقہ دلچسپی دکھائی ہے۔ سکیورٹی کے انتظامات بھی فول پروف رکھے۔ یہ سب کرنے کیساتھ ہماری کرکٹ کے بادشاہوں کو یہ حقیقت بھی یاد رکھنا چاہیے تھی کہ جو ایونٹ ہورہا ہے اس کے لئے اسٹیڈیم کی شان وشوکت وسیع تر حوالے سے ثانوی اہمیت کی حامل ہے۔ ہماری ٹیم کا انتخاب اس ایونٹ سے کئی ماہ قبل ہوجانا چاہیے تھا۔ انہیں کھیل کی پریکٹس کے علاوہ نفسیاتی اعتبار سے ایسے ماہرین کی نگرانی میں چند مشقوں سے گزرنا بھی لازمی تھا جو انہیں اعصاب پر مکمل کنٹرول کی بدولت پراعتماد دکھائے۔ بدن بولی کی تربیت بھی اس ضمن میں درکار تھی۔

    مجھے خبر نہیں کہ ہمارے ہاں کرکٹ کے بادشاہوں نے ان امور پر توجہ کیوں نہیں دی۔ 1960ء کی دہائی سے کرکٹ سے عدم دلچسپی کے باوجود میں نے بے شمار پاکستانی کھلاڑیوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ رواں صدی کے آغاز تک ان کی اکثریت قابل رشک انداز میں فقط کرکٹ کے میدان ہی میں نہیں بلکہ روزمرہّ زندگی میں بھی کرشماتی دکھائی دیتی تھی۔ آج بھی اسلام آباد میں تقریباََ دو دہائیاں قبل ہوا ایک کھانا یاد ہے۔

    عمران خان صاحب اس کے میزبان تھے۔ وہ کھانا ان کے ایک قریبی دوست کے لان میں منعقد ہوا۔ ان کی مہمان بھارت کی کرکٹ ٹیم تھی جو راولپنڈی میں ایک میچ کھیلنے آئی تھی۔ ان دنوں برطانیہ کے افواہ ساز اخبار جمائمہ سے ان کی طلاق کے امکانات بڑھاچڑھاکر پیش کررہے تھے۔ میں نے انگریزی کالموں میں ان کے لتے لینا شروع کردئے۔ جمائمہ اور عمران خان میری جرأت سے بہت خوش ہوئے۔ شاید اسی کی بدولت میری اس کھانے میں شرکت یقینی بنائی گئی۔ اس کھانے میں جاکر لیکن میں خود کو بہت تنہا محسوس کرتا رہا۔ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کس کے ساتھ کھڑا ہوکر کیا بات کروں کیونکہ وہاں ہر کونے میں کرکٹ ہی زیر بحث تھی۔

    میرے سامنے ایک نسبتاََ چھوٹے قد کا آدمی بھی خاموش کھڑا تھا۔ میں سمجھا کہ شاید وہ بھی میرے جیسا کرکٹ سے نابلد زبردستی بلایا کوئی مہمان ہے۔ میری خوش قسمتی کہ ہمارے ایک اساطیری کھلاڑی ظہیر عباس وہاں داخل ہوتے ہی اس شخص کے پاس آئے۔ اس شخص کے پاس پہنچتے ہی انہوں نے اس کا نام لے کر پکارا اور تعارف کرواتے ہوئے مجھے "پاکستان کا مشہور اور تگڑا صحافی" بتایا۔ جس شخص سے مجھے ملوایا گیا اس کا نام سچن ٹنڈولکرتھا۔ بعدازاں مجھے یہ علم ہوا کہ وہ بھارت کا اساطیری کھلاڑی ہے۔

    ظہیر عباس کے سامنے مگر وہ انتہائی مؤدب انداز میں ان کی کرکٹ کا ذکر کرتا رہا۔ سچن کے بعد وہاں موجود جس بھارتی کرکٹر نے بھی ظہیرعباس کو دیکھا فوراََ ان کے پاس خود چل کر آیا اور انہیں عزت واحترام سے سنا۔ اپنے کھلاڑیوں کا عدم اعتماد دیکھ کر ہفتے کی رات گئے تک میں ظہیر عباس کی کشش اور اعتماد کو یاد کرتا رہا ہوں۔

    About Nusrat Javed

    Nusrat Javed

    Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.