منگل کی دوپہر سے مسلسل سوچ رہا ہوں۔ جمعرات کی صبح اٹھ کر یہ کالم لکھتے وقت تک مگر یہ جاننے میں ناکام رہا کہ حکومت اسلام آباد میں اپوزیشن کا دو روزہ کنونشن روکنے کی ضد میں مبتلا کیوں رہی۔ وسیع تر تناظرمیں سوچیں تو تحریک انصاف 8فروری 2024ء کے روز ہوئے انتخاب کے نتیجے میں واحد اکثریتی جماعت کی حیثیت میں ابھرنے کے باوجود وفاق میں حکومت بنانے کی کوشش کرتی دکھائی ہی نہ دی۔ محض یہ الزام دہراتی رہی کہ اس کا مینڈیٹ چرایا گیا ہے۔ فروعی بحث میں وقت ضائع کرنے کے بجائے مان لیتے ہیں کہ الزام درست تھا۔
اس الزام کو مگر وہ حکومت تشکیل دینے کے بعد کئی اعتبار سے سچا ثابت کرسکتی تھی۔ واحد اکثریتی جماعت کی حیثیت میں ابھرنے کے بعد اسے تھوڑی لچک دکھانے کی ضرورت تھی۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ روابط استوار کرتے ہوئے ان سے کم از کم ویسی ہی حمایت حاصل کی جاسکتی تھی جو یہ جماعت ان دنوں شہباز حکومت کو فراہم کر رہی ہے۔ اس جانب مگر غصے سے مغلوب ہوئی تحریک انصاف نے توجہ دینے کا تردد ہی نہیں کیا۔ اپنی شناخت قربان کرکے سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوگئی تاکہ اسے "پارلیمانی جماعت" تسلیم کیا جائے اور اس حیثیت میں خواتین اوراقلیتی ارکان کے لئے نشستیں بھی میسر ہوجائیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سنی اتحاد کونسل میں ادغام کے باوجود یہ ہدف بھی حاصل نہ ہوپایا۔
تحریک انصاف کے کئی دوستوں کے روبرو مذکورہ بالا سوال اٹھائے تو وہ مصر رہے کہ "مقتدرہ" انہیں حکومت بنانے ہی نہ دیتی۔ اس حوالے سے اٹھایا ہر قدم رائیگاں کی سمت ہی لے جاتا۔ بحث میں الجھنے کے بجائے میں یہ کہنے کو مجبور ہوجاتا ہوں کہ تحریک انصاف نے ہمیں یہ موقعہ ہی نہ دیا کہ "مقتدرہ" کو انہیں حکومت بنانے سے روکتا ہوا دیکھیں۔ اس کی خواہش عیاں ہوجاتی تب تحریک انصاف اجتماعی استعفوں کے ذریعے ویسا ہی ماحول بناسکتی تھی جو حکومت مخالف اتحاد نے 7مارچ 1977ء کے انتخاب کے بعد دھاندلی کے الزام لگاتے ہوئے حاصل کیا تھا اور اس کی بنیاد پر حکومت مخالف تحریک کا آغاز کردیا۔
ملکی سیاست کا دیرینہ طالب علم ہوتے ہوئے سنجیدگی سے محسوس کرتا ہوں کہ فروری 2024ء کے آخری ہفتے میں تحریک انصاف کیلئے عوامی ہمدردی کے جذبات انتہا کو چھورہے تھے۔ تحریک انصاف کی قیادت یا تو ان جذبات کا درست اندازہ نہ لگاپائی یا انہیں سیاسی طورپر استعمال کرنے میں قطعاََ ناکام رہی۔ اس کی صفوں میں پھیلے کنفیوڑن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شہباز شریف نے ایم کیو ایم وغیرہ کے ساتھ مل کر اتحادی حکومت بنالی۔ پیپلز پارٹی نے اس میں شمولیت کے بغیر حمایت کا اعلان کردیا ا ور اس کے بدلے صدر، گورنر اور چیئرمین سینٹ جیسے "آئینی عہدے" حاصل کرلئے۔ کئی حوالوں سے اپنے جثے سے زیادہ حصہ وصول کرلیا۔
حکومت تشکیل دینے میں ناکام ہوجانے کے بعد تحریک انصاف کو پارلیمان کی کارروائی میں بھی حصہ لینا چا ہیے تھا۔ پارلیمانی قواعد وضوابط کے ماہرانہ استعمال کی بدولت 1985ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب ہوئی قومی اسمبلی میں موجود اپوزیشن نے جنرل ضیاء کے سائے تلے قائم ہوئی حکومت کو دیوار سے لگائے رکھا۔ 1997ء میں نوازشریف دوسری بار "ہیوی مینڈیٹ" کے ساتھ وزیر اعظم کے منصب پر لوٹے تو پیپلز پارٹی صرف 18اراکین کے ساتھ اپوزیشن نشستوں پر موجود تھی۔ پارلیمانی قواعد وضوابط کو مہارت سے استعمال کرتے ہوئے اس نے بھی "ہیوی مینڈیٹ" والی حکومت کو پریشان رکھا۔
پارلیمانی دائو پیچ پر توجہ دینے کے بجائے تحریک انصاف نے تین مرتبہ خیبرپختونخواہ کے وزیر اعلیٰ کے ہمراہ آئے لشکرکے ذریعے "قلعہ اسلام آباد" فتح کرنے کی کوشش کی۔ ناکام رہی۔ مسلسل ناکامیوں نے تحریک انصاف کو بالآخر مجبور کیا کہ وہ "شہرجاناں" میں خود کو یک وتنہا مردِ مجاہد تصور نہ کرے۔ دیگر سیاسی جماعتوں کی اہمیت بھی تسلیم کرے اور ان سے روابط کے ذریعے حکومت کے خلاف وسیع تر اتحاد قائم کرنے پر توجہ دے۔
بدھ اور جمعرات کے دو روز تحریک انصاف اسی مقصد کی خاطر "قومی کنونشن" منعقد کرنا چاہ رہی تھی۔ اس کا انعقاد ہی اس امر کا اعتراف تھا کہ حکومت کولشکری یلغار کے ذریعے گرایا نہیں جاسکتا۔ لمبا سفر ہے جس کے لئے زیادہ سے زیادہ اتحادی درکار ہیں۔ اس پہلو پر توجہ دینے کی بجائے حکومت اس امر پر ڈٹ گئی کہ حکومت مخالف جماعتوں کو اسلام آباد میں "قومی کنونشن" کے انعقاد کے لئے کوئی ہوٹل اپنا ہال نہ دے۔ تمام ہوٹلوں کی جانب سے انکار ہوگیا تو میرے ایک عمومی طورپر قابل اعتبار ذریعے کے مطابق اپوزیشن کے چند رہ نمائوں نے مولانا فضل الرحمن سے رابطے کئے۔ ان کی کاوشوں سے مبینہ طورپر اسلام آباد کے ایک ہوٹل نے منگل اور بدھ کی درمیانی رات کے تین بجے اپوزیشن کے قاصدوں سے "دو روزہ کنونشن" کا بیعانہ وصول کرلیا۔
بدھ کی صبح سے شام تک کنونشن بھی ہوگیا۔ اس سے خطاب کرتے ہوئے صحافیوں سے متعلقہ سیشن کے دوران ہمارے کئی ساتھیوں نے تحریک انصاف کے رویے کو سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ سول سوسائٹی کے اکثر رہ نمائوں نے بھی بدھ کے روز ہوئی تقاریر کے دوران سیاسی جماعتوں کے اجتما عی رویوں کو مقامی جمہوریت کے منافی ٹھہرایا۔ حکومت کے لئے یہ تنقید تسکین کا باعث ہونا چاہیے تھی۔ "قومی کنونشن" میں ہوئی تنقیدی تقاریر کے باوجود حکومت نے ہوٹل کی انتظامیہ پر دبائو ڈالا کہ وہ جمعرات کے دن یہ کنونشن منعقد ہونے نہ دے۔ کنونشن کے منتظمین کو جب اس کی اطلاع دی گئی تو وہ چراغ پا ہوگئے۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ایک ٹی وی شو کی ریکارڈنگ چھوڑ کر اس ہوٹل کے گیٹ کے باہر تشریف لائے۔ وہاں اپوزیشن کے دیگر عمائدین کے ہمراہ انہوں نے اعلان کیا کہ جمعرات کے دن بھی کنونشن "ہر صورت" جاری رہے گا۔
یہ کالم لکھنے تک مجھے علم نہیں کہ جمعرات کے روزبھی "قومی کنونشن" جاری رہ سکا یا نہیں۔ میں تو مسلسل اس سوال کا جواب ڈھونڈرہا ہوں کہ "یلغار" بھلاکر کسی ہوٹل میں بیٹھ کر نئی حکمت عملی کی تلاش کے لئے مجبور ہوئی تحریک انصاف کو حکومت دیوار سے لگانے کو کیوں بضد ہے۔ اس کا رویہ اب صرف تحریک انصاف کے خلاف ہی جارحانہ نہیں رہا۔ دیگر کئی سیاسی جماعتیں اور رائے عامہ کے نمائندے جو تحریک انصاف پر واجب تنقید سے بھی باز نہیں رہتے اب "دشمنوں" کی صف میں بے سبب دھکیلے جارہے ہیں۔