Saturday, 15 March 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Nusrat Javed
    4. Hukumati Bando Bast Ke Sadar Ka Hukumat Par Yak Tarfa Faislon Ka Ilzam

    Hukumati Bando Bast Ke Sadar Ka Hukumat Par Yak Tarfa Faislon Ka Ilzam

    دنیا کے لئے "جمہوری" ملک کے طورپر پہچانے جانے کے لئے ہم نے کئی روایتیں محض دکھاوے کے لئے اپنارکھی ہیں۔ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت کا ہر پارلیمانی سال کے آغاز کے ساتھ ہواخطاب بھی ایسی ہی ایک روایت ہے۔ سچ مچ کی پارلیمانی جمہوریت میں سربراہ مملکت جب یہ خطاب کرنے آتا ہے تو اس کا واحد مقصد منتخب حکومت کی کارکردگی اور آئندہ کے عزائم کو "سب اچھا ہے" دکھاکر پیش کرنا ہوتا ہے۔

    صدر ہمارے ہاں مگر عموماََ فوج یا نوکرشاہی سے آتے رہے ہیں۔ یہ دونوں ادارے جبلی طورپر سیاستدانوں کو نکما اور بدعنوان سمجھتے ہیں۔ ان سے ابھرے صدور لہٰذا ناصح بزرگ کی طرح پارلیمان کے مشترکہ اجلاسوں سے خطاب کرتے رہے۔ اصولی طور پر مذکورہ خطاب کا مسودہ وزیر اعظم کے دفتر میں تیار ہونا چاہیے۔ مختلف وزارتوں سے ان کی کارکردگی اور آئندہ کے منصوبوں کی تفصیلات جمع کرنے کے بعد اسے لکھا جاتا ہے۔ "مادر پارلیمانی جمہوریت" برطانیہ میں وزیر اعظم کے دفتر سے بھجوائے مسود ے میں بادشاہ یا ملکہ کومہ اور فل سٹاپ بھی بدل نہیں سکتے۔

    میری پارلیمانی رپورٹنگ کا آغاز جنرل ضیاء کے دور میں ہوا تھا۔ آٹھ برس کے سخت گیر مارشل لاء کے بعد موصوف نے 1985میں "غیر جماعتی انتخاب" کروائے تھے۔ انتخابات کے بعد جو قومی اسمبلی قائم ہوئی اس کے لئے محمد خان جونیجو کو نامزد کرتے ہوئے جنرل ضیاء نے کھل کر آگاہ کیا کہ وہ عوامی نمائندوں کو اقتدار "منتقل" نہیں کررہے۔ انہیں اقتدار میں شریک کررہے ہیں۔ شراکت داری میں لیکن "میں (یعنی جنرل ضیاء) اور میرے رفقاء " کلیدی ریاستی فیصلے کریں گے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور "افغان جہاد" اس تناظر میں سرِفہرست تھے۔ منتخب لوگوں کا بنیادی فریضہ لوگوں کو نوکریاں دلوانا یا "اپنے حلقوں" میں بجلی اور گیس کی فراہمی پر توجہ دینا تھا۔ "غیر جماعتی" بنیادوں پر منتخب ہوئی قومی اسمبلی مگر "ثانوی کردار" ادا کرنے کو تیار نہ ہوئی۔ بتدریج اپنے پر نکالنا اور بعدازاں پھیلانا شروع ہوگئی۔ بالآخر اس کا خالق ہی اسے 1988ء میں برطرف کرنے کو مجبور ہوا۔

    جنرل ضیاء کی فضائی حادثے میں ہلاکت کے بعد ریاست کے دائمی اداروں نے باہم مل کر افسر شاہی سے ابھرے غلام اسحاق خان کو ایوان صدر میں بٹھایا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو مجبور کیا کہ وہ انہیں "متفقہ" طورپر منتخب ہوئے صدر کی صورت قبول کریں۔ آئین میں 8ویں ترمیم کی وجہ سے ان دنوں کا صدرِ پاکستان درحقیقت منتخب حکومت کا نگران ونگہبان تھا۔ اسے منتخب وزیر اعظم اور قومی اسمبلی کو کسی بھی وقت گھر بھیجنے کا اختیار حاصل تھا۔ مذکورہ اختیار کو ضیاء نے جونیجو حکومت کے خلاف استعمال کیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت دو سال سے کم وقت میں برطرف کردی گئی۔ نواز شریف کی پہلی اور دوسری حکومتوں کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ ہوا۔

    جمہوری حکومتوں کی بے ثباتی کو بخوبی جانتے ہوئے آصف علی زرداری نے 2008ء میں پاکستان کا صدر منتخب ہونے کے بعد نہایت دیانتداری سے تمام سیاسی جماعتوں کی مشترکہ معاونت سے آئین میں آٹھویں ترمیم متعارف کروائی۔ صدر اس کے بعد پارلیمانی روایات کے مطابق محض ایک علامتی عہدہ رہ گیا۔ حالات مگر اب بدل چکے ہیں۔ 2014ء سے ہمارے ہاں کا سیاسی بندوبست "ہائی برڈ" کہلاتا ہے۔ یہ تیتر ہے نہ بٹیر۔ دکھاوے کی جمہوریت ہے۔ ریاست کے "کلیدی" فیصلے منتخب نمائندے نہیں ریاست ہی کے طاقتور ترین ادارے کرتے ہیں۔ ایسے حکومتی بندوبست کے ہوتے ہوئے کسی بھی صدر کا محض "علامتی" رہنا ناممکن ہے۔ آصف علی زرداری کے لئے "علامتی صدر" ہونا اس لئے بھی بہت مشکل ہے کیونکہ وہ ایک جماعت کے سربراہ بھی ہیں۔ اس جماعت کی "نظریاتی" شناخت بتدریج معدوم ہوچکی ہے۔ سندھ میں لیکن وہ 2008ء سے مسلسل برسراقتدار ہے۔ اپنا "کلہ" مضبوط رکھنے کی خاطر اس کے لئے چند معاملات پر سخت موقف اختیار کرنا ضروری ہے۔

    سندھ میں عوامی سطح پر پانی ایک حساس ترین معاملہ ہے۔ دنیا بھر کے کئی ممالک میں ایسے صوبے یا ملک جو پانی کے لئے بالائی خطوں کے محتاج ہوں اس معاملہ پر بہت جذباتی محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں کی زراعت بنیادی طورپر دریائوں سے انگریز دور میں نکالی نہروں کے پانی پر کامل انحصارکی عادی ہے۔ "پانی چوری" کا الزام وافر پانی سے مالا مال دیہاتوں میں بھی خاندانی دشمنیوں کی جانب لے جاتا ہے اور سندھ میں برطانوی دور ہی سے یہ تاثر عوام میں مقبول رہا ہے کہ آبادی کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ اس کے حصے کا پانی چوری کرتا ہے۔ وسیع تر حلقوں میں پھیلے اس تصور کی ہمارے ہاں کسی بھی حکومت نے ٹھوس اعدادوشمار اور آسان الفاظ میں تشکیل دئیے بیانیے سے نفی کی کوشش ہی نہیں کی۔ سچ کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں موجود خدشات دور کرنے کے بجائے 1980ء کی دہائی میں کالا باغ ڈیم کا قضیہ کھڑا کردیا گیا۔

    بھاشا جیسے ڈیموں کی تعمیر نے اس قضیے کا خاتمہ کیا تو گزشتہ چند مہینوں سے یہ تاثر عام ہونے لگا کہ چولستان کے ریگستان کو "کارپوریٹ فارمنگ" کے ذریعے گلستان میں بدل دیا جائے گا۔ اتفاقاََ گزشتہ دوبرسوں کے دوران سندھ طاس معاہدے کے ذریعے بھارت کے حصے میں گئے دریائے ستلج میں سیلاب آتا رہا ہے۔ بھارت کے پاس سیلابی پانی کا رخ پاکستان کی طرف موڑنے کے سوا کوئی راستہ ہی موجود نہیں تھا۔ دریائے ستلج نے بپھرنا شروع کیا تو ہمارے فیصلہ سازوں کو خیال آیا کہ سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے اور کاشتکاری کے لئے استعمال کرنے کے لئے نہریں بنائی جائیں۔ اس فیصلے پر عوامی پنچائتوں پر غور کا انتظام نہیں ہوا۔ عوامی سوچ نظرانداز کرنے کی وجہ سے سندھ میں یہ تاثر بہت تیزی سے پھیلنے لگا کہ "اس کے حصے کا پانی" چولستان کو آباد کرنے کے لئے چرالیا جائے گا۔

    گزشتہ 4مہینوں سے میں نے بارہا اس کالم اور ٹی وی سکرینوں کے ذریعے حکمرانوں کو متنبہ کرنے کی کوشش کی کہ چولستان کو آباد کرنے کے لئے نئی نہریں کھودنے کا خیال سندھ میں اضطراب پھیلارہا ہے۔ طوطی کی آواز نقار خانے میں کسی نے سنی نہیں۔ پیر کی سہ پہر مگر پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں کھڑے ہوکر "بطور صدر پاکستان اور محب وطن پاکستانی" حکومتی بندوبست پر الزام لگایا کہ اس نے چولستان آباد کرنے کی خاطر نئی نہریں کھودنے کا فیصلہ "یکطرفہ" طورپر کیا ہے۔ اس فیصلے سے فقط سندھ ہی نہیں دیگر چھوٹے صوبوں میں بھی بدگمانیاں پیدا ہوں گی۔

    صدرِ پاکستان کے خطاب کے دوران اسلام آباد میں تعینات سفارتی نمائندوں کے لئے مختص گیلری میں ایک بھی نشست خالی نہیں تھی۔ پریس گیلری میں بیٹھ کر آپ اپوزیشن کے شور شرابے کی وجہ سے صدر کی تقریر کا ایک لفظ بھی نہیں سن سکتے تھے۔ سفارت کاروں کی نشستوں کے ساتھ مگرمائیک لگے ہوتے ہیں۔ دنیا کو پیر کے روز لہٰذا پیغام یہ گیا ہے کے موجودہ حکومتی بندوبست کا "صدر" حکومت پر "یک طرفہ فیصلوں" کا الزام لگاتے ہوئے انہیں ملکی یکجہتی کے لئے خطرہ قرار دے رہا ہے۔

    About Nusrat Javed

    Nusrat Javed

    Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.