Friday, 14 March 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Nusrat Javed
    4. Imran Khan Ki Rihai Ke Liye Americi Senator Joe Wilson Ki Mantaq

    Imran Khan Ki Rihai Ke Liye Americi Senator Joe Wilson Ki Mantaq

    امریکہ سے اپنے قائد کی رہائی کے لئے پاکستان پر دبائو کی توقع باندھنے والے عاشقان عمران خان گزشتہ ہفتے سے خوش ہیں۔ چند دن قبل جنوبی کرولینا سے کانگریس کے لئے منتخب ہوئے جوولسن نے صدرپاکستان اور وزیر اعظم کے علاوہ آرمی چیف کو بھی ایک خط لکھا۔ اس خط میں پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلق کا ذکر کرتے ہوئے موصوف نے دعویٰ کیا کہ ان دو ممالک کے مابین دوستی کے رشتے ان دنوں مضبوط تر رہے جب پاکستان جمہوری نظریات اور قانون کی حکمرانی پر سختی سے عمل پیرا ہوا نظر آتا تھا۔

    گزرے جمعہ کے روز رکن کانگریس نے یہ بات ایوان میں ایک منٹ کی تقریر کرتے ہوئے دہرائی اور مصررہے کہ پاکستان کو اپنا "جمہوری تشخص" برقراررکھنے کے لئے عمران خان کو رہا کردینا چاہیے۔ جوولسن کچھ دنوں سے X کہلاتے ٹویٹر کے پلیٹ فارم پربھی "عمران کو رہا کرو" والے پیغامات پوسٹ کررہے ہیں۔

    کانگریس مین کی کہی بات کوبآسانی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ موصوف امریکی ایوانِ نمائندگان کی دوکمیٹیوں کے اہم رکن ہیں جو امریکہ کے خارجہ امور کے علاوہ وہاں کے دفاعی اداروں پر بھی نگاہ رکھتی ہیں۔ اس کمیٹی کی ایک ذیلی کمیٹی کی سربراہی بھی ان کے پاس ہے جو مشرق وسطی، شمالی افریقہ اور سنٹرل ایشیاء کے معاملات کا جائزہ لیتی ہے۔ جوولسن کا لکھا خط اور ایوان میں کیا خطاب حکومت پاکستان کو عمران خان کی رہائی کے لئے آمادہ کرپائے گا یا نہیں؟ اس سوال پر فی الوقت توجہ مبذول نہیں کر پائوں گا۔

    حیرت مجھے جوولسن کے اس دعویٰ کی بابت ہورہی ہے کہ "گزشتہ75 برسوں کے دوران پاکستان اورامریکہ کے تعلقات محض ان دنوں نہایت گرمجوش" رہے جب پاکستان میں جمہوریت پوری قوت سے عمل پیراہوئی نظر آتی۔ میں نے امریکہ کا ذکر ہوش سنبھالنے کے بعد ان دنوں سنا جب پاکستان میں امریکی صدر کنیڈی سے زیادہ اس کی اہلیہ جیکولین کنیڈی کا ذکرہوتا تھا۔ ہمارے لاہوریوں کی اکثریت اس گماں میں فخر سے مبتلا تھی کہ جیکولین ہمارے پہلے فوجی آمر اور خودساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان کی مردانہ وجاہت سے بہت متاثر ہے۔ جس انداز میں ان دونوں کا ذکر ہوتا بزرگ افراد اسے میری عمر کے بچوں کے سامنے دہرانا پسند نہیں کرتے تھے۔ صدرکنیڈی کو مگر گولی ماردی گئی۔ ان کے انتقال کے بعد جیکولین پاکستان نہیں آئی۔ یونان کے ایک نہایت مالدار اور بے تحاشہ بحری جہازوں کے مالک سے شادی کرلی۔

    کنیڈی کے بعد جانسن امریکہ کا صدر بنا۔ وہ غالباََ بطور نائب صدر ایک مرتبہ پاکستان بھی آیا تھا۔ کراچی میں اس کی ملاقات بشر نام کے ایک ساربان سے ہوگئی۔ اسے صدر منتخب ہوجانے کے بعد اس نے امریکہ بلوایا۔ میں اب سکول میں داخل ہوچکا تھا۔ سکول جاتے اور آتے ہوئے میرے کئی محلہ دار مجھے اردو اخبار تھماکر یہ جاننا چاہتے کہ ہمارا ساربان امریکہ میں کیسے دن گزاررہا ہے۔

    ایوب خان کے اے ڈی سی رہے ارشد سمیع مرحوم نے سابق صدر کے ایوانِ اقتدار کے آخری دنوں کا ذکر اپنی کتاب میں کررکھا ہے۔ ایوب خان کے مستعفی ہونے کے بعد ارشد صاحب ایوانِ صدر سے سامان پیکنگ کے لئے اکٹھا کررہے تھے۔ اس دوران انہوں نے ایوب خان کے بستر کے ساتھ رکھی میز پرجیکولین کنیڈی کی تصویر دیکھی۔ وہ اس کے دستخطوں سمیت فریم میں لگی ہوئی تھی۔ امریکہ کے اتنا قریب ہونے کے باوجود مگر 1965ء کی جنگ کے بعد فیلڈ مارشل اتنا بددل ہوئے کہ غصے میں "جس رزق سے آتی ہو، " والی سوانح عمری نما کتاب اپنے انفارمیشن سیکرٹری الطاف گوہر سے لکھوادی۔

    میٹرک کا امتحان دینے کے قریب میں ایوب خان کے سخت خلاف ہوچکا تھا۔ ان کے خلاف طلبہ کی تحریک چلی توسکول کا طالب علم ہوتے ہوئے بھی کلاس سے بھاگ کرجلوسوں میں شامل ہوجاتا۔ ایوب خان نے 1962ء میں بنائے اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بطور صدر استعفیٰ دینے کے بعد یہ عہدہ ان دنوں کے سپیکرنیشنل اسمبلی کے حوالے کرنے کے بجائے آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کے سپرد کیا۔ یحییٰ خان نے امریکہ اور چین کے درمیان پل کا کام کرتے ہوئے ڈاکٹر کسنجر کو پاکستان سے خفیہ طورپر چین بھجوادیا تھا۔

    اس "خدمت" کے عوض نکسن اور ہنری کسنجر یحییٰ خان کی بھرپور حمایت کرتے رہے۔ یحییٰ خان نے "جمہوریت کو فروغ دینے" کے بجائے 1970ء میں ہوئے انتخاب کے نتائج پر عمل نہیں کیا۔ اس کا انجام سقوط ڈھاکہ تھا۔ مشرقی پاکستان کھودینے کے باوجود مگر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت یحییٰ خان کا احتساب نہ کرپائی۔ امریکی وزارت خارجہ کی وہ دستاویزات اب بآسانی گوگل کے ذریعے ڈھونڈی جاسکتی ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ صدر اور بعدازاں وزیر اعظم ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کو بارہا یاد دلایا جاتا تھا کہ "ہمارے دوست" یعنی یحییٰ خان کو عزت واحترام سے ان کے گھر ہی نظربند رکھا جائے۔

    جمہوریت کی تھوڑی بہت شکل میں نے ذوالفقارعلی بھٹوکی حکومت کے دوران دریافت کی تھی۔ امریکہ نے مگر اس حکومت کا جینا دوبھر کررکھا تھا۔ مسلسل یہ الزام لگاتا رہا کہ وہ پاکستان کوایٹمی ملک بنانا چاہتی ہے۔ جنرل ضیاء نے جب بھٹو حکومت کا تختہ الٹا تو امریکہ اس کے حوالے سے منافقانہ طورپر خاموش رہا۔ کمیونسٹ روس کے کابل میں داخل ہوتے ہی مگر جنرل ضیاء امریکہ کی دانست میں نام نہاد "آزاد دنیا" کا "محافظ" بن گیا۔ اس کے 11سالہ دور میں ہمارے 4صحافیوں کو برسرعام کوڑے بھی لگائے گئے۔ امریکہ کو مگر جمہوریت یاد نہ آئی۔ روسی افواج کی کابل سے واپسی تک اس فوجی آمر کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا رہا۔

    نائن الیون کے بعد ویسی ہی محبت ایک اور فوجی آمر -جنرل مشرف- کے ساتھ برتی گئی۔ کانگریس مین جوولسن کومگر وہ سب یاد نہیں رہا حالانکہ وہ خود بطور کرنل امریکی فوج سے ریٹائر ہوکر سیاست میں آئے ہیں۔ عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے جوولسن نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ذاتی طورپر وہ ان کی سیاست کا حامی نہیں۔ اس نے بانی تحریک انصاف کو روسی صدر اور چینی کمیونسٹ پارٹی کا خیرخواہ ٹھہرایا۔ ساتھ ہی مگر اصرار کیا کہ سیاستدان کا مقابلہ سیاست دان ہی کریں۔

    عمران خان کو لہٰذا رہا کریں۔ اس کے بعد وہ جانیں اور ان کے سیاسی دشمن۔ امریکی سیاست کو سمجھنے والے عاشقان عمران جوولسن کے ان کلمات سے خوش نہیں جن کی بدولت عمران خان روس اور چین کے دوست بتائے گئے۔ ان کی تقریر کے دوران شمالی کوریا کے "آمرانہ نظام" کی ایک تصویر بھی چلائی گئی تھی۔ جوولسن سے اب درخواست ہورہی ہے کہ وہ عمران خان کو روسی صدر اور چین کی کمیونسٹ پارٹی کا "دوست" تصور نہ کریں۔

    About Nusrat Javed

    Nusrat Javed

    Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.