کسی بھی متعلقہ یا "قابل اعتماد ذرائع" سے گفتگو کئے بغیر اپنے گھر تک محدود ہوئے اور عملی صحافت سے ریٹائرڈ مجھ ایسے شخص کو نہ جانے کیوں یقین کی حد تک گماں ہے کہ اس کالم کے چھپنے تک امریکی صدر کے دفتر سے باقاعدہ اطلاع آجائے گی کہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی ٹرمپ سے ملاقات جولائی 2019ہی کی کسی تاریخ کو ہوگی۔ اندھی نفرت میں مبتلا میرے چند دوستوں کوشاید اس ملاقات کی "کنفرمیشن" سے مایوسی ہوگی۔ حقائق مگر میری اور آپ کی خواہشات کے تابع نہیں ہوتے۔ منگل کی رات میرے خاموش کئے فون پر "گھوں گھوں" ہوتی رہی۔ انگریزی زبان والے Sadistic Pleasure کے ساتھ جس کا اُردو متبادل سوچنے سے میں قاصر ہوں بہت سے افراد ایک کلپ بھیج رہے تھے۔ امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان سے پاکستانی وزیر اعظم کے متوقع دورئہ امریکہ کے بارے میں سوال ہوا۔ مجھے گماں ہے کہ سوال اٹھانے والا بھارتی تھا یا کم از کم اس کا تعلق جنوبی ایشیاء کے کسی ملک سے تھا۔ بہرحال خاتون ترجمان نے متوقع دورے کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا۔ وائٹ ہائوس سے رجوع کرنے کی بات کی اور آگے بڑھ گئی۔ مجھے یہ کلپ بھیجنے والوں کی اکثریت نے امریکی وزارتِ خارجہ کی ترجمان کی جانب سے ہوئے لاعلمی کے اظہار کو اس "خبر" کے ساتھ نتھی کیا جس کے ذریعے وزیر اعظم عمران خان کی روسی صدر پیوٹن کے ساتھ اس سال کے ستمبر میں ملاقات کا دعویٰ ہوا تھا۔ روسی وزارتِ خارجہ نے اس "خبر" کی تردید کر دی۔ کئی لوگوں نے اسے پاکستان کی "بے عزتی" شمار کیا تھا۔ خارجہ امور میں "عزت " اور "بے عزتی" فروعی باتیں ہوتی ہیں۔ سوال اٹھانا یہ ضروری تھا کہ ستمبر میں پاکستانی وزیر اعظم کی روسی صدر سے ملاقات "طے" کرنے والا کون تھا۔ یہ "خبر" کن صحافیوں تک کونسے "ذرائع" کے ذریعے پہنچائی گئی۔ "خبر" وصول کرنے کے بعد اسے اشتیاق سے چھاپنے یا نشر کرنے والوں میں سے کسی ایک کو بھی یاد کیوں نہیں رہا کہ اسلام آباد میں روس کا وسیع وعریض رقبے میں پھیلاایک سفارت خانہ بھی ہے۔ وہاں کوئی پریس منسٹر یا اتاشی بھی تعینات ہوگا۔ اپنے "قابل اعتماد ذرائع" سے "خبر" حاصل کرنے کے بعد مذکورہ افسر سے رجوع کرنا صحافتی اصولوں کی بنیاد پر بھی ضروری تھا۔ یہ تردد کرلیا جاتا تو روسی وزارتِ خارجہ کو ماسکو سے ستمبر میں "طے" ہوئی ملاقات کی تردید کرتے ہوئے ہماری مبینہ طورپر "بے عزتی" کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں سوشل میڈیا کے ذریعے فروغ پاتی نفرت وعقیدت کے سبب "خبر" نام کی شے کا دیہانت ہوچکا ہے۔ لوگ وہ دیکھنا، سننا اور پڑھنا چاہتے ہیں جو فوری اور مسلسل انداز میں ان کے دلوں میں جاگزیں تعصبات وخواہشات کا اثبات کرے یا انہیں پورا ہوتا بتائے۔ عمران خان صاحب کے چاہنے والے یہ ثابت کرنے کو بضد ہیں کہ جب سے انہوں نے پاکستانی وزیر اعظم کا منصب سنبھالا ہے دنیا بھر کے قدآور سربراہان مملکت یا حکومت ان سے ملاقات کو بے چین ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم کا دل جیتنے کی بے چینی میں اپنے باہمی اختلافات بھی بھلادیتے ہیں۔ قطر کا سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے کئی مہینوں سے مقاطعہ کررکھا ہے۔ ان تینوں ممالک کے سربراہان مگر پاکستان آئے اور ہماری معاشی مشکلات کو سنبھالنے میں اپنا حصہ ڈالا۔ عرب اور عجم کا اختلاف تاریخی ہے۔ چند ماہ سے یہ تاثر بھی پھیل رہا ہے کہ شاید ایران کے خلاف "آخری معرکے" کی تیاری ہورہی ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے سربراہان سے گرم جوش تعلقات استوار کرنے کے باوجود مگر پاکستانی وزیر اعظم ایران بھی گئے۔ چین تو ویسے بھی اپنا یار ہے اور اس پہ جان بھی نثار ہے۔ نئی صورت یہ بن رہی ہے کہ صدر پیوٹن بھی جس کے ملک کو افغانستان میں گھیر کر ہم نے سوویت یونین سے روس بنادیا تھا ہمارے وزیر اعظم کی دلجوئی کو بے چین ہے۔ دنیا بھر کے قدآور سربراہان مملکت اور حکومت کی جانب سے ہمارے وزیر اعظم کا دل جیتنے کے تاثر کو قائم رکھنے کے لئے ضروری تھا کہ "ستمبر میں ملاقات" والی "خبر" بھی چلائی جاتی۔ چال مگر اُلٹ گئی۔ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات والا قصہ مگر ٹھوس حقائق کی بنیاد پر اٹھا ہے۔ امریکی صدر بہت بے چین ہے کہ اس سال کے ستمبر تک اس کا طالبان کے ساتھ کوئی ایسا معاہدہ ہوجائے جس کی بنیاد پر وہ آئندہ برس ہونے والی صدارتی مہم میں سینہ پھلا کر اپنے لوگوں کو یہ بتاسکے کہ اس نے 17سال تک جاری رہی جنگ کا خاتمہ کیا۔ اپنی افواج کو افغانستان سے "باعزت" طورپر نکالا۔ ویسی "شکست" سے بچ گیا جو ویت نام میں امریکہ کا مقدر ہوئی تھی۔ ٹرمپ کو جبلی طورپر علم ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر وہ اپنی خواہش والا معاہدہ حاصل نہیں کرسکتا۔ ہماری قیادت کی دلجوئی کو لہذا مجبور ہے۔ ٹرمپ نے افغانستان کا اپنی مرضی کا حل ڈھونڈنے کی ذمہ داری زلمے خلیل زاد کے سپرد کررکھی ہے۔ زلمے خلیل زاد کو یقین ہے کہ اگر اس نے ٹرمپ کی پسند کا معاہدہ کروادیا تو اسے دورِ حاضر کا ہنری کسنجرشمار کیا جائے گا۔ اس کی "ذہانت" کو تسلیم کرتے ہوئے ٹرمپ آئندہ چار برسوں کے لئے منتخب ہونے کے بعد اسے جان بولٹن کی جگہ اپنا مشیر برائے قومی سلامتی لگاسکتا ہے۔ وہ امریکہ کا وزیر خارجہ بھی بن سکتا ہے۔ خود کو ملے Taskکی اہمیت کو سمجھتے ہوئے زلمے خلیل زاد امریکی وزارت ِ خارجہ کے افسروں کو کسی خاطر میں نہیں لاتا۔ گلی کی زبان میں بات کریں تو ٹرمپ کے ساتھ Direct ہے۔ حال ہی میں لکھے ایک کالم میں آپ کو اطلاع دی تھی کہ ٹرمپ کے وائٹ ہائوس کی بہت خواہش تھی کہ افغانستان کے بارے میں ستمبر کے اوائل میں اس کی مرضی کے معاہدے کو یقینی بنانے کیلئے امریکی صدر کی وزیر اعظم پاکستان سے ملاقات ہو۔ اس ملاقات کیلئے جون کے آخری دس دنوں میں سے کسی ایک کا ذکر ہوا تھا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے جون میں بجٹ سے جڑے معاملات کے سبب اپنی عدیم الفرصتی کا ذکر کیا۔ جولائی کے مہینے میں ملاقات پر رضامندی کا اظہار کیا۔ زلمے خلیل زاد اور ہم نواجون میں ملاقات طے نہ ہونے کے سبب بہت پریشان ہوئے۔ انہیں یقین تھا کہ ٹرمپ جولائی میں عمران خان صاحب سے ملاقات کا وقت نہیں نکال پائے گا۔ اب یہ ملاقات شاید ستمبر ہی میں ممکن ہوجب اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہوتا ہے۔
جولائی میں ٹرمپ-عمران خان ملاقات کا طے پاجانا، یقین مانیے زلمے خلیل زاد اور ہم نوائوں کیلئے بھی حیران کن بات تھی۔ یہ ملاقات کیوں طے ہوئی یہ جاننے کیلئے ضروری ہے کہ آپ ٹرمپ کے داماد Jared Kushner کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے مناسب "سکیورٹی کلیئرنس" کے بغیر ٹرمپ نے اسے Senior Advisor بنارکھا ہے۔ مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے کشنر نے "اس صد ی کی سب سے بڑی ڈیل" کے نام سے ایک منصوبہ تیار کیا۔ سی آئی اے یا امریکی وزارتِ خارجہ کا اس منصوبے سے کوئی لینا دینا نہیں۔ کشنر نے مگر اس کی پیروی کیلئے بحرین میں حال ہی میں ایک کانفرنس بھی کرڈالی ہے جہاں چند بڑے سرمایہ کاروں نے "پرامن فسطین" میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی نوید سنائی۔
Kushner اب اپنے سسر کے لئے افغانستان کے حوالے سے بھی اس کی پسند کا معاہدہ حاصل کرنے کی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالنا شروع ہوگیاہے۔ پاکستان کے حوالے سے اس کے Point Person کو تلاش کرنا ہو تو اس "صدیقی" کو یاد کریں جنہیں شاہد خاقان عباسی نے امریکہ میں پاکستان کا سفیر لگایا اور ہمارے ہاں دہائی مچ گئی۔ یہ صاحب غالباََ نیب کے راڈار پر بھی غلط یا صحیح وجوہات کی وجہ سے موجود ہیں۔ عمران حکومت نے مگر حال ہی میں انہیں "خصوصی سفیر"تعینات کردیا ہے۔ ان کی تعیناتی کے چند ہی دن بعد جولائی 2019 میں ٹرمپ-عمران خان کی متوقع ملاقات کی خبر آگئی۔
پاک-امریکہ تعلقات کو سمجھنا ہے تو ٹرمپ کے اندازِ کار پر نگاہ رکھیں۔ کشنر کی اہمیت کو بخوبی جانیں۔ زلمے خلیل زاد کا تعاقب کریں اور "صدیقی" جیسے صاحبان سے دوستی بنانے کی کوشش کریں۔ واشنگٹن اور اسلام آباد کی خارجہ امور کے بارے میں قائم وزارتوں کے "بابوئوں" کی اس ضمن میں کوئی حیثیت نہیں۔