Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Internet Se Mehroomi Ka Mera Raat Ka Qalaq

Internet Se Mehroomi Ka Mera Raat Ka Qalaq

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کئی بار جی چاہا کہ ہماری ریاست کے حتمی فیصلہ سازوں سے جان کی امان پاتے اور پاؤں رگڑتے ہوئے یہ عرض کروں کہ عمران خان کی تحریک انصاف کے مقابلے میں پراپیگنڈہ کے محاذ پر آپ بری طرح پٹ رہے ہیں۔ یہ سوچتے ہوئے لیکن دل میں مچلتی خواہش کو نظرانداز کرتا رہا کہ حکمرانوں کو رضا کارانہ مشورے دینا میرا فرض نہیں ہے۔ صحافتی کیرئیر کے بیشتر برس میں نے ویسے بھی ہر نوع کے حکمرانوں کی نازل کردہ ذلت و بے روزگاری کی نذر کئے ہیں۔ اب عمر کے آخری حصے میں د اخل ہونے کے بعد منہ بند رکھنا سیکھ ہی لینا چاہیے۔ چھٹتی نہیں ہے مگر۔

اتوار کی شام سات بجے کے قریب میں تھوڑی واک اور اپنے جانوروں سے "گپ شپ" کے بعد فارغ ہوا تو "گرم حمام" جیسے ماحول میں غسل کی لذت سے لطف اندوز ہوا۔ خود کو اپنے تئیں"بالم"بناکر لکھنے کی میز پر بیٹھا اور لیپ ٹاپ کھول لیا۔ اسے کھولا تو میرے فیس بک اور ٹویٹر (ایکس)اکائونٹ کھلنے کو آمادہ ہی نہیں ہورہے تھے۔ پریشان ہوکر موبائل فون دیکھا۔ وہاں بھی مذکورہ ایپس کے ساتھ یہی عالم تھا۔ فرض کرلیا کہ میرے گھر میں نصب ہوا وائی فائی سسٹم کسی مشکل میں گرفتار ہوگیا ہے۔ اپنے فون کو وائی فائی پر انحصار سے آ زاد کیا تب بھی لیکن فیس بک اور ٹویٹر (ایکس)کھل نہیں پائے۔

اتفاق یہ بھی ہوا کہ میری بیٹی اور اس کا خاوند ان دنوں تعطیلات گزارنے پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ وہ دونوں رزق کمانے کے لئے کمپیوٹر پر کامل انحصار کو مجبور ہیں۔ میرا داماد ایک ایسی عالمی کمپنی کے لئے کام کرتا ہے جو گھروں میں انٹرنیٹ کے ذریعے طلب کی اشیاء فراہم کرنے کے رحجان کی بانی شمار ہوتی ہے۔ وہ دونوں چند ہی روز بعد پاکستان سے پرواز کر جائیں گے۔ اتوار کے روز میں اور میری بیوی ان بے چاروں کو یہ بتاکر پریشان اور کافی حد تک احساس جرم میں مبتلا کرتے رہے کہ وہ ہم بڈھوں کے بغیر خوش رہتے ہیں۔

اپنے دفاع میں کچھ کہنے کے بجائے وہ شرمندہ ہوئے دیگر انداز میں ہم سے اپنی محبت جتاتے رہے۔ بازار سے کھانے پینے کی چند اشیا خرید کر گھر میں"پارٹی" کا ماحول بنانے کی کوشش کی۔ مجھے انٹرنیٹ تک رسائی کے بغیر پریشان ہوئے دیکھا تو ہمارے ہاں نصب وائی فائی سسٹم اور میرے ٹیلی فون کا جائزہ لینا شروع کردیا۔ اپنے زیر استعمال فونز بھی چیک کرتے رہے۔ بالآخر یہ نتیجہ نکالا کہ ملک بھر میں انٹرنیٹ نظام کسی تکنیکی خرابی کی زد میں ہے۔ یہ "خرابی" تاہم تھوڑی دیر کے بعد ختم ہوئی محسوس ہوئی۔ اس کے تقریباََ 70یا 90منٹوں کے بعد دوبارہ نازل ہوگئی۔

اپنا وقت برباد ہونے سے اکتاکر میں کتاب لے کر بستر میں گھس گیا۔ بہت دنوں سے ارادہ باندھ رکھا تھا کہ وارث شاہ کی لکھی "ہیر" کو غور سے ایک بار پھر پڑھاجائے۔ اسے پڑھتے ہوئے یہ جان کر بے حد شرمسار ہوا کہ اپنی ماں کی گود سے سیکھی پنجابی کے کئی الفاظ میں اب عرصہ ہوا بھول چکا ہوں۔ اس کے علاوہ چند ایسے الفاظ بھی تھے جن کا مطلب جاننے کے لئے مجھے اپنے پاس موجود "ہیر" کے ساتھ ہی چھپا اردو ترجمہ دیکھنا پڑا۔ اپنی مادری زبان بھلانے کی وجہ سے ازحد شرمسار محسوس کررہا ہوں۔

شرمساری کی شدت نے بتدریج یہ سوچنے کو مجبور کیا کہ حکمران قوتیں کسی قوم میں غلامی کی خصلت پیدا کرنے کے عمل کا آغاز اسے مادری زبان سے محروم کرنے سے کرتی ہیں۔ برطانوی سامراج نے پنجاب پر 1848ء میں قابض ہونے کے بعد اس عمل کا آغاز کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد ہم نے اس سلسلے کو جاری رکھا اور آج یہ عالم ہے کہ ہفتے کے پانچ روز اردو کا کالم اور زندگی کے کئی برس روزانہ کی بنیاد پر انگریزی اخباروں کے لئے خبریں اور کالم لکھنے کی وجہ سے نام نہاد "دانشور" کہلاتا نصرت جاوید اپنی مادری زبان کی حتمی اور اساطیری مظہر "ہیر" کو روانی سے پڑھنے اور سمجھنے کے قابل نہیں رہا۔ خدارا ذرا سوچیں کہ کوئی ایرانی "دیوان حافظ" یا فردوسی کے "شاہنامے" کو پڑھنے اور سمجھنے کے ناقابل ہوتے ہوئے بھی خود کو "دانشور کالم نگار" ثابت کرنے کی جرأت دکھاسکتا ہے؟ انگریزی میں لکھنے والوں کے لئے شیکسپیئر کے بیشتر ڈراموں اور کرداروں سے کامل آگاہی ہر صورت درکار تصور ہوتی ہے اور میں دونمبر کا قلم گھسیٹ "ہیر" پڑھنے کے قابل بھی نہیں۔

خود پر ملامت کرتے ہوئے یاد یہ بھی آیاکہ اتوار کی شام "ہیر" پڑھتے ہوئے میں اس مقام پر بھی پہنچا تھا جہاں رانجھا بھابھیوں کے دئے طعنوں سے اکتا کر اپنا آبائی گائوں چھوڑنے کو مجبور ہوجاتا ہے۔ سفر کے دوران بے وسیلہ رانجھے کو رات گزارنے کے لئے ایک مسجد میں قیام کرنا پڑتا ہے۔ اس کی وہاں موجودگی مگر "خدا کے گھر" پر قابض ہوئے مْلا کو پسند نہیں آتی۔ رانجھے اور مْلا کے درمیان اس کی وجہ سے جو تکرار ہوتی ہے وہ اگر ہمیں بچپن سے پڑھائی جاتی تو شاید "افغان جہاد" کو 1980ء کی دہائی میں ہمارے خطے سے رضا کاروں کے ہجوم ڈھونڈنے میں نہایت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا۔ ہمیں یہ بھی احساس رہتا کہ پنجاب کی عورت تاریخی وثقافتی اعتبار سے "بے زبان" نہیں تھی۔ وہ اپنے خاوند کے بھائی (رانجھے)کو ڈٹ کر طعنے دیا کرتی تھی۔ اس کے علاوہ ہیر اپنے پلنگ پر رانجھے کو سویا دیکھ کر اسے چھڑی سے مارکر جگانے کی ہمت سے مالا مال تھی۔

حسب معمول مرکزی خیال سے بھٹک گیا ہوں۔ بنیادی طور پر آپ سے اس دْکھ کا اظہار کرنا تھا کہ کئی دہائیوں سے بنیادی طو رپر پیشہ وارانہ ضرورتوں کی وجہ سے انٹرنیٹ کی فیس بک اور ٹویٹر(ایکس) جیسی ایپس کا عادی ہوا یہ بدنصیب اتوار کی شام سے رات گئے کئی گھنٹوں تک انہیں استعمال نہیں کرپایا۔ میں پاکستان کا شہری ہوں۔ سنا ہے "شہری" کے کچھ حقوق بھی ہوتے ہیں۔ "حقوق" کا ذکر کرتے ہوئے یاد یہ بھی دلانا ہے کہ عمران حکومت کے چار برس اصولی طورپر بے روزگار ہونے کے باوجود میں ہر برس باقاعدگی سے اپنے ٹیکس ریٹرن جمع کرواتا رہاہوں۔

یہ کالم لکھنے کا معاوضہ بھی مجھے اس پر واجب ٹیکس ادا کرنے کے بعد ملتا ہے۔ اپنی مادری زبان بھلائے ذہنی طورپر نسلوں سے غلام ہوئے مگر اس "صحافی" میں یہ ہمت وجرأت ہی باقی نہیں رہی کہ اپنے مالک ہوئے حکمرانوں سے پوچھ کر آپ کو بتاسکوں کہ درحقیقت وہ کونسی وجوہات تھیں جو پاکستان کو 2024ء کا آغاز ہوتے ہی انٹرنیٹ جیسی بنیادی ضرورت تصور ہوتی سہولت سے محروم رکھنے کا سبب ہوئیں۔ ایسے میں اگر تحریک انصاف یہ دعویٰ کرے کہ انٹرنیٹ میں خلل کا واحد سبب اس جماعت کی جانب سے ہوئی ایک کاوش تھی جس کا مقصد اس کی انتخابی مہم کے لئے چندہ جمع کرنا تھا تو مجھ جیسے افراد ان کے کہے پر اعتبار کرنے کو مجبور ہوں گے۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.