Wednesday, 26 March 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Nusrat Javed
    4. Jaffer Express Ka Aghwa Aur Hamari Azad Sahafat

    Jaffer Express Ka Aghwa Aur Hamari Azad Sahafat

    گزرے جمعہ کی شام سے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں امن وامان کی صورتحال تسلی بخش نہیں۔ حکومت مقابلہ کررہی ہے بلوچ یکجہتی کونسل کی جانب سے برپا کیے احتجاج کا۔ مذکورہ تنظیم کی پہچان ماہ رنگ بلوچ ہیں۔ مسنگ پرسنز، کے معاملہ کو کئی برسوں سے اٹھانے کی وجہ سے یہ خاتون بلوچ نوجوانوں کے وسیع تر حلقوں میں مقبول سے مقبول تر ہوچکی ہیں۔

    آخری خبریں آنے تک انھیں گرفتار بھی کیا جاچکا تھا۔ وجہ حالیہ احتجاج کی جعفر ایکسپریس کے اغوا کے بعد ہوئی کارروائی کے دوران ان دہشت گردوں کی ہلاکت بتائی جارہی ہے جن کی لاشوں کے ورثا تو سامنے نہیں آئے مگر بلوچ یکجہتی کونسل ان کی وارث، بن کر لاشوں کو وصول کرکے نظر بظاہر ان کے ورثا کے حوالے کرنا چاہ رہی ہے۔ حکومت اس کے لیے آمادہ نہیں۔ اسے خدشہ لاحق ہے کہ وہ ٹرین کے اغوا میں ملوث مبینہ دہشت گر دوں کی لاشیں وصول کرنے کے بعد انھیں احتجاج بھڑکانے کے لیے استعمال کرے گی۔

    جو حقائق، بیان کیے ہیں وہ ٹی وی سکرینوں یاسوشل میڈیا پر مختلف فریقین کی جانب سے لگائے پیغامات کی وجہ سے مجھ تک پہنچے ہیں۔ تفصیل سے جاننے کے لیے مجھے کسی صحافی، سے گفتگو کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ اصل خبر، کی کھوج لگانے کو دل محض ریٹائر ہونے ہی کی وجہ سے نہیں مچلا۔ عمر تمام صحافت کی نذر کرنے کی وجہ سے دل تو گزشتہ دو دنوں سے یہ جاننے کو بھی بے چین رہا ہے کہ ترکیہ میں کیا ہورہا ہے۔ وہاں سلطان اردوان، کے مخالفین کی بڑی تعداد سڑکوں پر کیوں آگئی ہے۔ ترکیہ کے ساتھ ساتھ طالبان کی امریکا سے آئے سرکاری وفد، کی ملاقاتوں پر بھی کافی توجہ دی ہے۔ بلوچستان تو ویسے ہی میرے دل کے 1970ء کی دہائی سے بہت قریب رہا ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ وہاں کے تازہ ترین واقعات مستند ذرائع سے معلوم کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟

    میری لاتعلقی کی بنیادی وجہ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے ہماری آزاد، صحافت کے پاس بلوچستان کے حقائق بیان کرنے کے حوالے سے فقط دو راستے بچے ہیں: پہلا یہ کہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں بیٹھے حکمرانوں کو وہاں کے تمام مسائل کا یک وتنہا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ دوسرا راستہ اس امر پر مصر رہنا ہے کہ پاکستان مخالف قوتیں جن میں چند طاقتور ممالک بھی شامل ہیں معدنی وسائل سے مالامال پاکستان کے رقبے کے اعتبار سے اس سب سے بڑے صوبے کو پرامن وخوشحال دیکھنا نہیں چاہتیں۔ طالبان کی بطور فاتح کابل واپسی کے بعد سے اس صوبے کے پشتون علاقوں میں مذہبی انتہا پسند خلافت، کے احیا کو بے چین ہیں۔ پشتون علاقوں کے برعکس بلوچستان کے اکثریتی علاقوں میں علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے دہشت گردی کی وارداتیں ہورہی ہیں۔

    تقریباً روزانہ کی بنیاد پر رونما ہوئے دہشت گردی کے واقعات کو ہم بطور، خبر رپورٹ کرنے کے عادی نہیں رہے۔ صحافی، پاکستان اور دنیا کے اخبار پرھنے والوں، ٹی وی ناظرین یا سوشل میڈیا کے صارفین کو یہ بتانے میں بھی شرمناک حد تک ناکام رہے ہیں کہ جعفر ایکسپریس کا روٹ کیا ہے؟ اسے کس مقام پر اغوا کیا گیا؟ وہ مقام جہاں یہ ٹرین اغوا ہوئی اس کی تاریخ اور جغرافیہ کیا ہے؟ سندھ سے اس ٹرین کو بذریعہ سبی بلوچستان لے جانے کا اصل سبب کیا تھا؟ برطانوی دور میں اسے تعمیر کرنے کا فیصلہ کن وجوہات پر کس برس ہوا تھا؟ کراچی، اسلام آباد یا لاہور سے صحافیوں کے گروپ 10سے 15گھنٹوں کے درمیان جائے وقوعہ تک پہنچ سکتے تھے۔ نام نہاد سٹار، ہوئے صحافیوں نے بھی لیکن جائے وقوعہ، تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی۔ غالباً اس خوف سے مفلوج رہے کہ مغوی ٹرین کو بازیاب کروانے میں مصروف ادارے انھیں وہاں جمع ہونے نہیں دیں گے۔

    ہمارے مقابلے میں بھارتی میڈیا نے وادیِ بولان میں اغوا ہوئی ٹرین کے فوراً بعد اس کے بارے میں لائیو، نشریات شروع کردی تھیں۔ انھیں جائے وقوعہ سے اغوا کنندگان سیٹلائٹ فونوں کے ذریعے تصاویرو پیغامات بھیجتے رہے۔ اس کے علاوہ ان دنوں پاکستان چھوڑ کر امریکا وغیرہ میں مقیم ہوئے کئی جی دار صحافی، بھی بھارتی میڈیا کی بدولت بلوچ عوام کی حقیقی خواہشات، دنیا کے روبرو رکھتے رہے۔ عموماً یہ صحافی اپنے یوٹیوبز کے ذریعے تحریک انصاف کے دُکھ، بیان کرتے ہیں۔

    جعفر ایکسپریس کے ا غوا کے بعد بلوچستان کے حوالے سے بھارتی میڈیا کے توسط سے بیانیہ، بک گیا تو ہماری سرکار مائی باپ کو ہوش آیا۔ جوابی بیانیہ اجاگر کرنے کے لیے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے کمان سنبھالی۔ حقائق بیان کرنے پر توجہ دینے کی بجائے وہ پنجاب میں موجود ان دانشوروں، کے لتے لیتے رہے جو ان کی دانست میں بلوچستان سے قطعی ناواقف ہونے کے باوجود وہاں کے احساسِ محرومی، کے مرثیے پڑھتے ہوئے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ پنجابی دانشوروں کی بلوچستان کے بارے میں جہالت، سے اُکتا کر انھوں نے یہ بھی طے کرلیا کہ پنجابی اپنے قاتلوں سے محبت کرتے ہیں۔

    بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے پنجابیوں کو اپنے قاتلوں سے محبت کا ذمہ دار ٹھہرایا تو مجھ بدنصیب کو احساس ہوا کہ بلوچ علاقوں میں دہشت گرد بسوں کو روک کر مسافروں کی پہچان طلب کرتے ہیں۔ پنجاب کے مختلف مقامات سے وہاں گئے غریب دیہاڑی داروں کو الگ کرکے ماردیتے ہیں۔ میں پنجابی ہوں اور اپنی اس پہچان کے بارے میں ہرگز شرمندہ نہیں۔ اس کے باوجود بلوچستان کے احساسِ محرومی، کو اس صوبے کے دور دراز علاقوں میں بسااوقات بہت خطرناک حالات میں برسرزمین جاکر اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔

    مجھے یقین ہے کہ اب اگر میں کسی گاڑی یا بس میں سفر کرتے ہوئے وہاں پہنچا اور کسی مقام پر دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گیا تو میری پنجابی شناخت موت کا پروانہ بن جائے گی۔ اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی، والے حالات میں سچ بیان کروں تو کیسے؟ نفرت نے ہمارے ذہنوں کو مائوف بنادیا ہے۔ دور دور تک اس امر کے امکان نظر نہیں آرہے کے چند معتبر افراد آگے بڑھیں اور بلوچستان کے حقائق کو مسائل حل کرنے کی نیت سے بیان کرنے کی راہ ڈھونڈیں۔

    1975ء سے اپنی زندگی کا ہر لمحہ خبر، کی تلاش میں صرف کرنے کے باوجود میں بھی عمر کے آخری حصے میں آپ کوتفصیل سے یہ بتانے کے قابل نہیں رہا کہ کوئٹہ میں جمعہ کے روز سے کیا ہورہا ہے۔ سوال اگرچہ یہ بھی اٹھتا ہے کہ کوئی اس کے بارے میں جاننا بھی چاہ رہا ہے یا نہیں؟ جان کی امان پاتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ نہیں۔ سوشل میڈیا پر فقط یہ بحث جاری ہے کہ ماہ رنگ بلوچ ہے یا لانگو اور لانگو کون ہوتے ہیں۔

    About Nusrat Javed

    Nusrat Javed

    Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.