سرکار مائی باپ نے ہمارے اذہان کو مفسد خیالات سے محفوظ رکھنے کے لئے گزشتہ کئی مہینوں سے ان دنوں ایکس کہلاتے ٹویٹر پر پابندی لگارکھی ہے۔ میں کئی برسوں سے یہ پلیٹ فارم استعمال کرنے کی علت میں مبتلا ہوں۔ ڈالروں کی ادائیگی سے اپنے اکائونٹ کو مستند بھی بنوالیا تھا۔ سرکار نے ٹویٹر کو لیکن مستقلاََ بند بھی نہیں کیا۔ کبھی کبھار اس تک رسائی ممکن بنادی جاتی ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو میں بچوں کی طرح مچل جاتا ہوں۔ دھڑا دھڑ دورِ حاضر کے انقلابیوں سے برابھلاسننے کے لئے سوالات اٹھاتا رہتا ہوں۔
گزرے ہفتے یا اتوار کی شب مگر دل ودماغ فکر مند ہونا شروع ہوگئے۔ ملکی سیاست کے دیرینہ شاہد کو شدت سے احساس ہونے لگا کہ عمران خان صاحب کی اہلیہ محترمہ بشریٰ بی بی کی جانب سے خیبرپختونخواہ سے اسلام آباد کی طرف یلغار کی طرح رخ کرتے قافلے کی قیادت سنبھال لینا ایک اہم واقع ہے۔ ان کے مذکورہ قافلے میں ہوتے ہوئے علی امین گنڈاپور کے لئے ممکن نہیں رہا کہ وہ اپنے ہمراہ آئے قافلے کو غچہ دے کر اسلام آباد تنہا پہنچ جائیں اور وہاں سے گزرے ماہ کے پہلے دن کی طرح "غائب" ہوجائیں۔ بشریٰ بی بی نے خیبرپختونخواہ سے آئے قافلے کی قیادت سنبھال لی ہے تو اسے اب ہر صورت اسلام آباد آنا ہوگا۔
یہ سوچتے ہوئے ذہن میں سوال یہ اٹھاکہ بشریٰ بی بی کی قیادت میں پشاور سے چلاکاررواں اسلام آباد داخل ہوگیا تو پھر کیا ہوگا۔ نہایت عاجزی سے اعتراف کرتا ہوں کہ کئی گھنٹوں تک سوچنے کے باوجود میں کوئی معقول منظر نا مہ سوچنے میں ناکام رہا۔ میری خوش قسمتی کہ ٹویٹر اس وقت کام کررہا تھا۔ نہایت اخلاص سے میں نے ذہن پر مسلط ہوئے سوال کو اپنے ٹویٹر اکائونٹ پر پوسٹ کردیا۔ انگریزی کی ایک اصطلاح ہے End Game شطرنج کے کھیل سے مستعار لی گئی ہے۔ مطلب اس کا یہ جاننا ہوتا ہے کہ دو فریقین کے مابین مقابلے کی صورت کوئی ایک فریق کونسا مہرہ کہاں پہنچاکر بالآخر کیا حاصل کرنا چاہ رہا ہے۔
بشریٰ بی بی کوعمران خان ہمیشہ ایک"گھریلو خاتون" ٹھہرانے کو مصر رہے۔ وہ نامحرموں سے اجتناب برتتی پردہ دار خاتون کی شناخت اپنائے ہوئے تھیں۔ عمران خان کی اجازت ومشاورت کے بغیر ان کا پشاور سے اسلام آباد کی جانب روانہ ہوئے قافلے کی قیادت سنبھالنا ممکن ہی نہیں تھا۔ سوال لہٰذا یہ اٹھانا لازمی تھا کہ ایک "گھریلو خاتون" کو ایک سیاسی معرکے کے درمیان اتارکر درحقیقت عمران خان کس نوع کی "اینڈ گیم (End Game)"کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ میں اپنے تئیں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں ناکام رہا تو ٹویٹر پر چھائے انقلابی دانشوروں سے رجوع کو مجبور ہوا۔
عاجزی اور اخلاص سے پوچھے میرے سوال کے جوابات آئے تو میں نے اپنا سرپکڑ لیا۔ مجھے بتایا گیا کہ بشریٰ بی بی ہررکاوٹ توڑ کر ایک بڑے ہجوم کے ساتھ اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچ گئیں تو حکومت کے لئے عمران خان کو اڈیالہ جیل میں مقید رکھنا ناممکن ہوجائے گا۔ منطقی انداز سے سوچیں تو یہ ایک معقول جواب تھا۔ عمران خان کی اسلام آباد پر یلغار کی بدولت رہائی کے بعد تاہم جو منظر نامے بتائے گئے انہوں نے مجھے بے تحاشہ ایسے اقدامات یا ددلائے جو امام خمینی کے 1979ء میں تہران لوٹنے کے بعد کئی برسوں تک ایران میں "انقلابی نوجوانوں" کی جانب سے دنیا کو دہلانے کی حد تک سامنے آتے رہے۔
انگریزی کی ایک اور ترکیب ہے: Wish List. سادہ لفظوں میں اسے کسی شخص کی جانب سے مرتب ہوئی خواہشات کی فہرست کہا جاسکتا ہے۔ اپنی آسانی کے لئے اسے ہم "فہرست خواہشات" پکارلیتے ہیں۔ سوشل میڈیاپر چھائے اپنے نوجوان انقلابیوں کی "فہرست خواہشات" پر توجہ دی تو میرا دل کانپ گیا۔ یہ سوچنے کو مجبور ہوا کہ ہماری ریاست کے دائمی ادارے بھی عاشقان عمران کی اس فہرست خواہشات سے بخوبی آگاہ ہوں گے۔ اسے ذہن میں رکھتے ہوئے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے تو بیٹھے نہیں ر ہیں گے۔
اس پہلو پر غور کرتے ہوئے پیر کی صبح اٹھتے ہی جو کالم لکھا اس میں بشریٰ بی بی کی جانب سے "کارروان انقلاب" کی قیادت سنبھالنے کے بعد ممکنہ نتائج ٹٹولنے کی کوشش کی۔ جو سوالات ذہن میں آئے برجستہ لکھتا چلا گیا۔ بالآخر یہ کہتے ہوئے کالم ختم کردیا کہ ریاست کے طاقتور حلقوں کو پشاور سے اسلام آباد آئے قافلے سے نبردآزما ہونے کے لئے اب "کچھ نیا" کرنا ہوگا۔ پیر کی سہ پہر پانچ بجے کے قریب اپنے متحرک صحافی دوستوں کی مدد سے یہ طے کرلیا کہ اب کی بار پشاور سے آئے قافلے کو اسلام آباد آنے سے روکنا پولیس اور رینجرز کے لئے ممکن نہیں رہا۔
رات 8 بجے تک دوستوں کے ساتھ یہ طے کرنے کی مشق جاری رکھی کہ اسلام آباد داخل ہونے کے بعد پشاور سے چلا قافلہ ڈی چوک پہنچ پائے گا یا نہیں؟ مذکورہ سوال کا جواب ڈھونڈتے ہوئے تین باخبر اور متحرک ساتھیوں کی مدد سے دریافت یہ ہوا کہ اعلیٰ ترین ریاستی اور حکومتی سطح پر یہ فیصلہ کرلیا گیا ہے کہ پشاور سے بشریٰ بی بی کی قیادت میں آئے قافلے کو "ہر صورت" اسلام آباد کے سری نگر ہائی وے سے شہر میں داخلے کے بعد G-11کے سیکٹر تک محدود کردیا جائے گا۔
پی ڈی ایم کے ابتدائی ایام میں 2021ء کے برس مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں اسلام آباد آئے قافلے کوبھی اسی مقام تک محدود کردیا گیا تھا۔ جن دوستوں سے بات ہوئی وہ ہر اعتبار سے میرے لئے قابل اعتماد تھے۔ ان کی بات سنی تو یہ کہتے ہوئے دوستوں کو حیران کردیا کہ پولیس اور رینجرز کے علاوہ اب فوج بھی اسلام آباد میں داخل ہوئے قافلے پر قابو پانے کے لئے متحرک کردی جائے گی۔ یہ کہنے کے بعد گھر آگیا اور نیند کی گولی لے کر گہری نیند سوگیا۔
صبح اٹھ کر سرہانے رکھے ٹی وی کا ریموٹ دبایا تو چیختی چنگھاڑتی "بریکنگ نیوز" بتارہی تھی کہ اسلام آباد میں آئین کی شق 245 لاگو کردی گئی ہے۔ یقین مانیں اپنا خدشہ درست ثابت ہونے پر فخر محسوس نہیں کررہا۔ نہایت فکرمندی سے بلکہ سوچ رہا ہوں کہ کاش معاملات یہاں تک نہ پہنچتے۔