بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کو اپنے ملک کا "اٹوٹ انگ" ٹھہراتے فیصلے کے بعد وطن عزیز میں مذمتی بیانات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سیاستدانوں کی بڑھک بازی معمول تصور کرتے ہوئے نظرانداز کی جاسکتی تھی۔ پریشان کن حیرت مگر مجھے اس وقت ہوئی جب پاکستان کی وزارت خارجہ سے عمر بھر وابستہ رہے چند ریٹائرڈ افسر اپنے تبصروں میں ہمیں یقین دلاتے رہے کہ "عالمی ضمیر" بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرے گا۔ مذکورہ فیصلہ اقوام متحدہ کی مسئلہ کشمیر پر تقریباََ متفقہ انداز میں منظورہوئی قراردادوں کے قطعاََ برخلاف ہے۔ اسے برقرار رکھنا ناممکن ہوگا۔
ہمارے حکمران اور پالیسی ساز حلقوں کی نمائندگی کرتے افراد کی طفل تسلیوں سے کہیں زیادہ دل گیر اگرچہ میں سوالات کی اس بوچھاڑ سے ہوا جس کا سامنا نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی کو بھارتی سپریم کورٹ کے دئے فیصلے پر ردعمل دینے کے بعد کرنا پڑا۔ تقریباََ ہر صحافی ان سے گفتگو کرتے ہوئے اس وہم میں گرفتار سنائی دیا کہ اقوام متحدہ اور اوآئی سی جیسے ادارے بھارت جیسے دیدہ دلیر ممالک کولگام ڈال سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں بھی "عالمی ضمیر" نامی شے کی موجودگی کایقین تھا جسے جھنجھوڑا جائے تو کشمیری عوام کے دْکھوں کا مداوا ہوسکتا ہے۔ بھاری بھر کم الفاظ پر مبنی مگر زندگی کے تلخ حقائق سے غافل رکھنے والے سوالات کی تکرار نے مجھے حیران وپریشان کرنے کے بعد غصہ دلانا شروع کردیا اور بالآخر ریموٹ کا بٹن دباکر مجھے خون کے بڑھتے دبائوپر قابو پانا پڑا۔
بے تحاشہ وجوہات کی بدولت کشمیر سے میرا بہت جذباتی لگائو ہے۔ 1980ء کی دہائی سے پاک -بھارت تعلقات پر نگاہ رکھنے کی وجہ سے بطور صحافی مجھے طویل دنوں کے قیام کے لئے بھارت بھی جانا ہوتا تھا۔ بڑی کاوشوں کے بعد وادی کشمیر میں چند دن گزارنے کے مواقع بھی میسر ہوگئے۔ تحریک آزادی کشمیر میں متحرک تمام اہم رہ نمائوں سے طویل ملاقاتیں بھی رہی ہیں۔ تقریباََ دو دہائیوں تک مسلسل اور متحرک رہے رابطوں کی بنیاد پر میں کامل اعتماد سے یہ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ رواں صدی کا آغاز ہوتے ہی بھارتی حکومت مسئلہ کشمیر کے بارے میں"کچھ لواور کچھ دو" کا رویہ اختیار کرنے کومجبور ہوچکی تھی۔
ہماری ریاست کے چند اہم ترین سفارت کار اور پالیسی ساز مگر اس کا بروقت اور بھرپور ادراک نہ کرپائے اور بالآخر کچھ انتہا پسندوں کی اپنائی پالیسیوں کی وجہ سے "اکھنڈ بھارت "کی نظریاتی نمائندہ یعنی بی جے پی ہندوتوا کے پرچارک نریندر مودی کی قیادت میں مسئلہ کشمیر کواپنی ترجیح کے مطابق "حل" کرنے کو ڈٹ گئی۔ مودی حکومت کی اس ضمن میں اپنائی حکمت عملی کا ادراک کرنے میں بھی ہم قطعاََناکام رہے۔ اس کا توڑ ڈھونڈنا تو دور کی بات ہے۔ اس کے علاوہ حقیقت یہ بھی ہے کہ کشمیرجسے ہم اپنی "شہ رگ" ٹھہراتے رہے ہیں افغانستان پرہماری بھرپور توجہ کی وجہ سے ثانوی حیثیت اختیار کرچکاتھا۔
اخباری کالم تفصیلات کے متحمل نہیں ہوتے۔ اس کالم کے دیرینہ قارئین کو تاہم یاددلانے کو مجبور ہوں کہ جولائی 2019ء کے آخری ہفتوں میں تواتر سے دہائی مچانا شروع ہوگیا تھا کہ مودی سرکار نہایت خاموشی اور مکاری سے اپنی افواج کی غیر معمولی تعداد مسلسل پروازوں کے ذریعے مقبوضہ کشمیر منتقل کررہی ہے۔ نریندرمودی کا قریب ترین کارندہ امیت شا رات گئے اپوزیشن جماعتوں سے ملاقاتیں بھی کررہا ہے۔ غیر معمولی نقل وحرکت اور امیت شا کے اپوزیشن جماعتوں سے متواتر رابطے عندیہ دے رہے ہیں کہ مودی سرکاری بھارتی آئین کا آرٹیکل 370ختم کرنے کا ارادہ باندھ چکی ہے۔ مذکورہ شق جموں وکشمیر کی "خصوصی حیثیت اور داخلی خودمختاری" کا بھرم رکھے ہوئے تھی۔ اپنے قیام کے اولیں دن سے بھارتیہ جنتا پارٹی کا عزم تھا کہ وہ مذکورہ شق کو اقتدار کے حصول کے بعد ختم کردے گی۔ مودی کو 2019ء میں دوسری باربھارت کا وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد اس وعدے کونبھانے کا موقعہ فراہم ہوگیا۔
جن دنوں میں آرٹیکل 370کے خاتمے کے خدشات اس کالم میں تواتر سے بیان کررہا تھا عمران خان ان دنوں ہمارے وزیر اعظم تھے۔ وہ اگست 2018ء میں برسراقتدار آئے اور ان کے وزارت عظمیٰ میں چند ہفتے گزارنے کے بعد حکومت نے مجھے ٹی وی سکرینوں کے لئے "ممنوع" ٹھہرادیا۔ حب الوطنی کے اپنے تئیں اجارہ دار ہوئے بے شمار "ذہن سازوں" نے میرے بیان کردہ خدشات کو بے پرکی اڑانے کے مترادف ٹھہرادیا۔
بطوروزیراعظم پاکستان عمران خان جولائی 2019ء میں امریکی صدر ٹرمپ سے ملنے واشنگٹن گئے تھے۔ ٹرمپ کی تمام تر توجہ ان دنوں افغانستان سے اپنے ملک کی افواج کو باہر نکالنے پر مرکوز تھی اور اس کے حصول کے لئے اسے پاکستان کی مدد درکار تھی۔ ہمارے عقل کل بنے پالیسی ساز مگر اس کی "مجبوری" کا کماحقہ اندازہ نہ لگاپائے۔ نظر بظاہر امریکی صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم عمران خان کو بہت چائو سے اپنے ملک مدعو کیا۔ 22جولائی 2019ء بروز پیر ہمارے وزیر اعظم کو امریکی صدر نے وائٹ ہائوس میں خوش آمدید کہا۔
عمران خان وہاں پہنچنے کے بعد ٹرمپ کے ہمراہ افتتاحی کلمات کی ادائیگی کے لئے کیمروں کے روبرو بیٹھے تو انتہائی کائیاں مگر باتونی نظر آتے امریکی صدر نے ازخود یہ انکشاف کیا کہ "دو ہفتے قبل" اس کی بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات ہوئی تھی۔ مذکورہ ملاقات کے دوران بھارتی وزیر اعظم نے امریکی صدر سے درخواست کی کہ وہ پاکستان اور بھارت کے مابین برسوں سے موجود کشمیر کے قضیے کے حل کیلئے "ثالثی" کا کردار ادا کرے۔ یہ "تاریخی انکشاف" کرنے کے بعد ٹرمپ نے مکارانہ معصومیت سے عمران خان کوآگاہ کیا کہ اگر وہ چاہیں تو ٹرمپ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے "ثالثی" کا کردار ادا کرنے کو تیارہے۔
جس واقعہ کا میں ذکر کررہا ہوں اس کی کلپ آپ بآسانی انٹرنیٹ پر ڈھونڈسکتے ہیں۔ خدارا اسے ڈھونڈ کر غور سے دیکھیں۔ ٹرمپ نے جب "ثالثی" کا ذکر چھیڑا تو عمران خان خوشی سے ہکا بکارہ گئے۔ یہ سمجھ ہی نہ پائے کہ شاعری والے "ساقی" نے واقعتا "کچھ ملادیا ہے"۔ فوراََ نہایت خلوص سے گویا ہوئے کہ اگر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر حل کروادیا تو برصغیر ہندوپاک کے "اربوں افراد" انہیں ڈھیروں دعائوں سے نوازیں گے۔
مکار اور کائیاں ٹرمپ کی جانب سے "ثالثی" کی پیش کش کو عمران خان کے حامیوں نے اس حد تک سنجیدگی سے لیا کہ ان کے وطن لوٹنے پر "عوامی استقبال" کا اہتمام ہوا۔ اپنے پرستاروں کی شادمانی دیکھ کر عمران خان برجستہ یہ کہنے کو مجبور ہوگئے کہ انہیں محسوس ہورہا ہے کہ وہ "ایک بار پھر کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت کر" وطن لوٹے ہیں۔
میرا خبطی ذہن مگر22جولائی 2019ء کے دن ہی سے خدشات میں مبتلا ہونا شروع ہوچکا تھا۔ بھارتی حکومت نے جان بوجھ کر ٹرمپ کی جانب سے "ثالثی" والے دعویٰ کی بھرپور انداز میں تردید نہ کی۔ فقط ایک مختصر بیان سے اسے ٹالنے کی کوشش کی۔ "ثالثی" کے دعویٰ کو یوں نظرانداز کرناانتہائی مشکوک تھا۔ ہمارے پالیسی سازوں کے کان اس وقت کھڑے ہوجانے چاہیے تھے۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔ عمران خان سمیت ہماری اکثریت اس مغالطے میں مبتلارہی کہ امریکی صدر ٹرمپ عمران خان کی کرشماتی شخصیت کی بدولت پاکستان کی محبت میں گرفتار ہوگیا ہے اور ہمارے دل جیتنے کے لئے بھارتی حکومت پر مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لئے اپنا اثرورسوخ استعمال کرے گا۔ ہم یہ جان ہی نہ پائے کہ افغانستان کے تناظر میں ہم سے "اپنا کام" نکلوانے کے بعد وہ ہمیں کھلونے دے کر بہلانے کی کوشش کررہا تھا۔
ہماری خود کو تسلی دیتی غفلت کی وجہ سے بالآخر 5اگست 2019ء ہوگیا۔ اس کے بعد کئی مہینوں تک وادی کشمیر دنیا کی وسیع تر جیل میں بدل گئی جسے دورِ حاضر میں"بنیادی "شمار ہوتی موبائل فون اور انٹرنیٹ والی سہولتوں سے قطعاََ محروم رکھا گیا۔ جس واقعہ کا واویلا پیر 11دسمبر2023ء کے روز بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد مچایا جارہا تھا وہ درحقیقت 5اگست 2019ء کے دن ہوچکا ہے۔ اس وقت روس یوکرین پر حملہ آور نہیں ہوا تھا۔ نہ ہی غزہ کی پٹی اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کی مسلسل زد میں تھی۔ نام نہاد "عالمی ضمیر" ان دوواقعات کو بھی نہیں روک پایا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے پر توجہ کیوں دے گا جوایسے واقعہ کے بارے میں ہے جو آج سے چار سال قبل 5اگست 2019ء کے دن ہوچکا ہے۔