اتوار کی دوپہر اسلام آباد کے سیکٹر I-8/3کی مرکزی مسجد کے سامنے والے میدان میں خواجہ اعجاز سرور کی نمازِ جنازہ پڑھتے ہوئے مجھے 1996ء کی 5نومبر کی شام مسلسل یاد آتی رہی۔ آگے بڑھنے سے قبل بیان کرنا ضروری ہے کہ خواجہ اعجاز سرور صاحب سیکرٹری اطلاعات کے عہدے سے کم از کم ایک دہائی قبل ریٹائر ہوئے تھے۔ 1990ء کے ہنگامی عشرے کے دوران جب محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتیں مختلف صدور کے ہاتھوں برطرف ہوجانے کے باوجود اقتدار میں باریاں لیتی رہیں تو وہ محکمہ اطلاعات میں کلیدی عہدوں پر فائز رہے۔ انتہائی تحمل مزاج افسر تھے۔ حکم چلانے کے بجائے ماتحتوں سے مشاورت کے ذریعے فیصلہ سازی کے عادی تھے۔
میری نسل کے صحافیوں کو محکمہ اطلاعات کے اعلیٰ ترین عہدے داروں کا خیال آتے ہی قدرت اللہ شہاب اور ان سے کہیں زیادہ الطاف گوہر یاد آجایا کرتے تھے۔ وطن عزیز میں جمہوری نظام اور آزادی اظہار کو تباہ کرنے میں مذکورہ افسران نے سازشی اور کلیدی کردار ادا کیا۔ "ذہن سازی" کا فتور ان ہی کی وجہ سے بتدریج ہماری ریاست کے طاقتور ترین اداروں کو بھی لاحق ہوگیا۔ اپنی وفات سے قبل قدرت اللہ شہاب نے ایک ضخیم آپ بیتی لکھ کر ماضی کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کی۔ الطاف گوہر ملازمت سے نکل کر ایک انگریزی اخبار کے مدیر ہوئے مگر چند ہی روز بھٹو حکومت کی مزاحمت کر پائے۔ لندن جاکر آغا حسن عابدی کے ملازم ہوگئے۔
ان کی وفات سے قبل بیورو کریٹ غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی دوسری حکومت برطرف کی تو گوہر صاحب اسلام آباد کے ایک انگریزی اخبار کے مدیر کی حیثیت میں ان کے خلاف تنقیدی مضامین اپنے نام سے لکھنا شروع ہوگئے۔ اب کی بار خوش نصیب رہے کیونکہ نسیم حسن شاہ کی سپریم کورٹ نے نواز حکومت کو بحال کردیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ بالآخر ان دنوں کے آرمی چیف عبدالوحید کاکڑ مذکورہ بحالی کے باوجود مداخلت کو مجبور ہوئے۔ نسیم حسن شاہ کا فیصلہ غلام اسحاق خان اور نواز شریف کو ان کے عہدوں سے استعفیٰ دینے سے نہ روک سکا۔ اس کے بعد نئے انتخاب ہوئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو دوبارہ وزیر اعظم کے منصب پر پہنچ گئیں۔
کامل ابتری اور مسلسل سازشوں کے اس زمانے میں خواجہ اعجاز سرور سے میری پہلی ملاقات غالباََنواز شریف کی پہلی حکومت کے دوران ہوئی تھی۔ مجھ سے ملے تو نہایت خلوص سے میری انگریزی میں لکھے پارلیمانی کالموں کی تعریف کی۔ اس کے بعد مگر فکر مندانہ سرگوشی میں یہ اطلاع دی کہ میں لکھتے ہوئے "کسی کا لحاظ نہیں رکھتا"۔ صحافت میں زندہ رہنے کے لئے کافی صبر اور تھوڑی احتیاط لازمی ہے۔ جوانی کے خمار میں ان کی بات سمجھ نہ پایا۔ اپنی طرم خانی پر ڈٹا رہا۔ ان کے پرخلوص رویے نے مگر مجھے بہت متاثر کیا۔ چند ماہ گزرے۔
ہماری ملاقاتوں میں اضافہ ہوا تو وہ ان کے دوران ایماندارانہ تجسس سے یہ جاننے کی کوشش کرنا شروع ہوگئے کہ مجھے "کابینہ کے اندر ہوئی گفتگو" کی خبر کیسے مل جاتی ہے۔ میں ہنس دیتا اور اصرار کرتا کہ وہ کسی روز میرے ہاں تشریف لائیں۔ انہیں اندازہ ہوجائے گا کہ میں خبروں کا تعاقب نہیں کرتا۔ گھر بیٹھے ہی لکھنے کو کافی مواد مل جاتا ہے۔ میرے اصرار پر بالآخر ایک دن میرے ہاں آگئے۔ ان کے لئے یہ بہت حیرت کی بات تھی کہ اپنے مہمانوں کے لئے میں ان دنوں اپنے ہاتھ سے کھانا تیار کیا کرتاتھا۔ اتفاق سے انہیں میری گوشت کے ساتھ بنائی چنے کی دال سفید چاولوں کے ساتھ بہت پسند آئی اور وہ مہینے میں کم از کم ایک بار میرے ہاں آنے لگے۔
اتفاق یہ بھی تھا کہ جب بھی خواجہ صاحب میرے ہاں تشریف لاتے تو میں سنسنی خیز خبر سے ان کا "استقبال" کرتا۔ یہ خبر سیاستدانوں کی عمومی بددیانتیوں کے بجائے وفاداریاں بدلنے اور محلازتی سازشوں کے بارے میں ہوتی۔ نیک دل خواجہ اعجاز سرور آنکھیں پھاڑ کر محو حیرت ہوئے مجھے سنتے۔ میری بتائی بات مکمل ہوجانے کے بعد مگر اعتماد سے یہ اعلان کرتے کہ فلاں شخص نواز شریف یا محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ایسی بے وفائی یا سازش کرہی نہیں سکتا۔ اپنے دعویٰ کا وزن بڑھانے کے لئے وہ چند واقعات نہایت تفصیل سے سناتے جو اپنے تئیں یہ ثابت کرتے کہ فلاں شخص کے ساتھ کس بُرے وقت میں نواز شریف یا محترمہ بے نظیر بھٹو نے کتنا "بڑا احسان" کیا تھا۔ ان کی نیک دلی مجھے ہیجانی کیفیات میں مبتلا کردیتی۔ غالباََ اسی باعث سرکاری نوکری سے ریٹائر ہوجانے کے بعد انہوں نے کبھی کبھار فقط میرا اور میری فیملی کا حال احوال پوچھنے کو ہی ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔ ریٹائرڈ زندگی تک محدود ہوئے محلاتی سازشوں سے بے نیاز ہوگئے تھے۔
ان کے کیرئیر کے حوالے سے سنانے کو میرے پاس کئی اہم واقعات ہیں۔ کالم کے آغاز میں لیکن 1996ء کے نومبر کی شام کا ذکر ہوا ہے۔ 5نومبر کی رات صدر فاروق لغاری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو برطرف کیا تھا۔ میں اس برطرفی کے لئے کافی دنوں سے تیار تھا اور کچھ ایسے لوگوں کے نام بھی معلوم تھے جو حکومت کی برطرفی کے بعد ملک معراج خالد کے تحت بنائی "عبوری حکومت" میں اہم عہدوں پر فائز ہونے والے تھے۔ عجب اتفاق یہ بھی ہوا کہ 5نومبر کی سہ پہر میں نے ایک متوقع وزیر کے ساتھ کافی پی تھی اور اسے خبردار کرتا رہا کہ وہ عہدہ لینے سے گریز کرے کیونکہ لغاری صاحب ہمارے آئین کی وجہ سے نئے انتخاب 90دنوں کے دوران کروانے کو مجبور ہوجائیں گے۔ موصوف مگر "حالات سنوارنے کے لئے لمبی اننگز کھیلنے کے لئے" ذہنی طورپر تیار ہوچکے تھے۔
بہرحال مذکورہ صاحب سے ملاقات کے بعد گھر پہنچا تو خواجہ صاحب کا فون آیا۔ اطلاع دی کہ ان کی شام فارغ ہے۔ اگر ممکن ہے تو وہ میرے ہاں دال گوشت کھانا چاہیں گے۔ میں نے سادہ لوحی میں یہ فرض کرلیا کہ خواجہ صاحب ٹیلی فون سننے والوں کو دغا دینے کے لئے ایسی بات کررہے ہیں۔ غالباََ ان کے پاس حکومت کی برطرفی کے حوالے ہی سے کوئی چوندی چوندی خبر ہے جو وہ براہِ کرم مجھے فراہم کردیں گے۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔ وہ تشریف لائے تو میں نے حیرانی سے استفسار کیا "قیامت کی گھڑی سے چند لمحے قبل وہ میرے غریب خانے کے لئے وقت کیسے نکال پائے ہیں۔
میری جانب سے "قیامت کی گھڑی" کا استعمال انہیں حیران کن لگا۔ میں نے شاید زندگی میں پہلی بار ان سے لبرٹی لیتے ہوئے پنجابی میں کہا کہ خواجہ صاحب آپ کو سادگی کا ڈرامہ لگانے کی ضرورت نہیں۔ اب تک اسلام آباد کے ہر اہم شخص تک یہ اطلاع پہنچ چکی ہے کہ فاروق لغاری بے نظیر حکومت کو برطرف کرنے والے ہیں۔ خواجہ صاحب اصرار کرتے رہے کہ انہوں نے سارا دن ایوان صدر میں گزارا ہے۔ وہاں ہر شے معمول کے مطابق تھی۔ "نجانے آپ کو یہ خبر کس بے وقوف نے بتادی ہے؟"۔ خواجہ صاحب کی برجستہ سادگی اور خلوص سے میں کھل کھلاکر ہنس پڑا۔
آدھے گھنٹے تک انہیں تفصیل سے بتاتا رہا کہ 5نومبر 1996ء کے روز کس کس شخص سے گفتگو کے بعد میں اس رات ہی محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف ہونے کا منتظر تھا۔ خواجہ صاحب نے اپنے تئیں مجھے غلط ٹھہرانے کے لئے دو تین افراد کو فون کئے۔ ان سے محتاط لہجے میں فقط یہ دریافت کرتے رہے کہ "سب خیر ہے ناں؟"۔ ہر جگہ سے انہیں "خیر" ہی کی خبر ملی۔ اس کے بعد وہ کھانا تناول فرماکر اپنے ہاں چلے گئے۔
5 نومبر 1996ء کی رات بالآخر وہی ہوا جس کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ وہ سب ہوگیا تو رات دو بجے کے قریب خواجہ: صاحب نے مجھے فون کیا کہ انہیں ایوان صدر بلالیا گیا ہے۔ مذکورہ واقعہ کو وہ اپنے ہر ملنے والے سے بارہا دہراتے رہے۔ مقصد فقط یہ ثابت کرنا ہوتا کہ میں ان کی دانست میں کتنا "باخبر" صحافی ہوں۔ خواجہ صاحب کی نمازِ جنازہ پڑھتے ہوئے دل کو ملال یہ لاحق رہا کہ دنیا ان جیسے نیک دل افراد سے بہت تیزی کے ساتھ خالی ہورہی ہے۔