منگل کی رات سونے سے قبل یہ سوچا تھا کہ بدھ کی صبح اٹھ کر جو کالم لکھنا ہے اس کے ذریعے ایک بار پھر "سائفر کہانی" کی تفصیلات دہرانا ہوں گی۔ اس ضمن میں چند کلیدی نکات پر توجہ دئے بغیر یہ سمجھا ہی نہیں جاسکتا کہ بانی تحریک انصاف کو سائفر کی وجہ سے سزا کیوں سنائی گی ہے۔ جو سزا سنائی گئی اس کے انداز کے بارے میں عاشقانِ عمران کو بے تحاشہ اعتراضات ہیں۔ تحریک انصاف کے وکلاء بھی اس انداز کو "عاجلانہ" ٹھہراتے ہوئے ہائی کورٹ سے ریلیف کی تسلی دے رہے ہیں۔ مجھے تاہم یہ خدشہ لاحق ہے کہ قائد تحریک انصاف کی مشکلات کا سفر حقیقی معنوں میں"ابھی تو شروع" ہوا ہے۔
بہرحال بدھ کی صبح اٹھتے ہی خبر یہ ملی کہ تحریک انصاف کو توشہ خانہ مقدمے میں بھی سزا سنادی گئی ہے۔ امیر ملکوں کے سربراہان سے ملے قیمتی تحائف کے ضمن میں ہمارے کئی سابق وزرائے اعظموں پراحتساب بیورو نے مقدمات بنائے ہیں۔ بانی تحریک انصاف کے خلاف بنائے مقدمے میں نئی بات یہ ہوئی کہ ان کی اہلیہ کو بھی شریکِ جرم ٹھہراکر سزا سنادی گئی ہے۔ یہ واقعہ پاکستان کی تاریخ میں"ان ہونی" کے برابر ہے۔ سیاست اگرچہ وطن عزیز میں ہمیشہ بے رحم کھیل کی صورت جاری رہی ہے۔ حکومت میں بیٹھے لوگ اپنے مخالفین کو جائز وناجائز مقدمات میں الجھاکر سیاسی اکھاڑے سے باہر رکھنے کے جنون میں مبتلا رہے۔ "شریک" یا حریف کو دیوار سے لگاتے ہوئے مگر اس کی خواتین پر مقدمات بنانے سے گریز کیا جاتا تھا۔ یہ روایت بھی لیکن "غیرت کے نام پر قتل" کے عادی شمار ہوتے معاشرے میں رواں صدی کے آغاز سے بتدریج ختم ہونا شروع ہوگئی۔
پانامہ دستاویزات کی بنیاد پر نواز شریف کے خلاف بنایا کیس اس کی حتمی مثال تھی۔ ان کی دْختر کوبھی اس میں شریک ملزم بنادیا گیا۔ مریم نواز شریف صاحبہ اس کی وجہ سے تحقیقاتی ایجنسیوں پر مشتمل جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہوتی رہیں۔ بالآخر انہیں 2018ء کے انتخابات کے بہت قریب 6جولائی 2018ء کے روز بدعنوانی کے الزامات کے تحت احتساب عدالت نے سزا سنادی۔ سزا سنائے جانے کے وقت وہ پاکستان میں موجود نہیں تھیں۔ وہ اور ان کے والد محترم کلثوم نواز صاحبہ کے علاج کے لئے لندن میں قیام پذیر تھے۔ جب سزا سنادی گئی تو باپ اور بیٹی انہیں بستر مرگ کے سپرد کرکے 13جولائی کے روز وطن لوٹ آئے۔ ان دونوں کو لاہور ایئرپورٹ سے گرفتار کرنے کے بعد اڈیالہ منتقل کردیا گیا۔ ان دونوں کی انتخابی مہم سے عدم موجودگی کے دوران 25جولائی 2018ء کے عام انتخاب ہوئے اور اگست کا آغاز ہوتے ہی عمران خان وزارت عظمیٰ کے منصب پر براجمان ہوگئے۔
مریم نواز صاحبہ کے علاوہ آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور صاحبہ کو بھی عمران حکومت کے دوران احتساب والوں نے ذلت آمیز انداز میں گرفتار کیا تھا۔ مریم نواز اور فریال تالپور کے ساتھ احتساب کے نام پر جو رویہ برتا گیا وہ ہماری نام نہاد "مشرقی" روایات اور سیاسی رواداری کے وعدوں کی کامل نفی تھا۔ مجھ جیسے سادہ لوح ان دنوں فریاد کرتے رہے کہ "اتنا بے سمت نہ چل، " ہماری فریاد مگر "لفافوں کی چیخ وپکار" ٹھہراکر نظرانداز کردی گئی اور بدھ کی صبح مکافاتِ عمل کی حقیقی مثال دیکھنے کو ملی۔
بانی تحریک انصاف اپنی اہلیہ کو ایک دین دار خاتون کی حیثیت میں قابل احترام قرا دینے کو مصررہتے ہیں۔ وہ انتہا پسندی کی حد تک "پردہ دار" بھی ہیں۔ ایسی خاتون کا احتساب عدالتوں کے ہاتھ سزا یافتہ ہونا یقینی طورپر قائد تحریک انصاف کو شدید دْکھ پہنچائے گا۔ دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ جیل کی سختیوں کا بشریٰ بی بی کس انداز میں سامنا کرتی ہیں۔ امید باندھی جاسکتی ہے کہ وہ ثابت قدم رہیں گی۔ ذاتی طورپر اگرچہ میں نہایت دْکھ سے یہ سوچ رہا ہوں کہ کاش ہمارے سیاستدان ایک دوسرے سے شدید نفرت کے باوجود اس امر پر یکسو رہتے کہ تخت یا تختہ والی جنگوں میں ایک دوسرے کی خواتین کو رگیدانہیں جائے گا۔ یہ سلسلہ مگر جب چل نکلا تو اس کے خاتمے کی امید نظر نہیں آرہی۔
سائفر کیس کے مقابلے میں تحریک انصاف کے بانی کو بدھ کی صبح سنائی سزا اس حوالے سے بھی اہم ہے کیونکہ اس کی بنیاد "کرپشن" بتائی گئی ہے اور "کرپشن" کا خاتمہ ہی کرکٹ کی وجہ سے کرشماتی تصور ہوئے کھلاڑی کی سیاست میں آمد کی واحد وجہ بتائی گئی تھی۔ اس نکتے کو مگر تحریک انصاف کے بانی اور ان کے وکلاء نے عملی انداز میں سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ بہتر یہی تھا کہ قدآور وکلاء کی ایک بھاری بھر کم ٹیم نہایت لگن سے توشہ خانہ کے حوالے سے سابق وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کے خلاف لگائے الزامات کا بھرپور انداز میں دفاع کرتی نظر آتی۔ بدقسمتی سے ایسا ہوا نہیں۔ توشہ خانہ کیس میں وکلائے صفائی تبدیل ہوتے رہے۔ ٹرائل کورٹ میں حق دفاع کو بھرپور انداز میں استعمال کرنے کے بجائے وہ اکثر ہائی کورٹ سے اپنے موکل کے خلاف چلائے مقدمے کی بابت "تکنیکی" سوالات اٹھاتے رہے۔ ٹھوس دلائل کے ساتھ نہ صرف عدالت بلکہ جیل میں پیشی کے بعد میڈیا کے روبرو غیر ملکوں سے ملے تحائف کے حوالے سے لگائے الزامات کو بے بنیاد ٹھہرانے کی جارحانہ کوششیں معدوم نظر آئیں۔
محض ایک رپورٹر ہوتے ہوئے مجھے منگل کی شام اندازہ ہوگیا تھا کہ سائفر کے مقابلے میں سزا سنائے جانے کے بعد اب توشہ خانہ کیس میں بھی بانی تحریک انصاف کو سزا سنائی جاسکتی ہے۔ شام 6بجے کے قریب مجھے یہ خبر ملی کہ اڈیالہ جیل کے باہر زنانہ پولیس کی نمایاں تعداد جمع ہوچکی ہے۔ یہ اس بات کا واضح عندیہ تھا کہ بشریٰ بی بی کو سزا سنائی جاسکتی ہے۔ احتساب بیورو کے جج بشیر صاحب کی تاہم دوران سماعت طبیعت خراب ہوگئی۔ ان کے بلڈپریشر کو قابو میں لانے کے لئے موصوف کو جیل میں قائم ہسپتال لے جانا پڑا۔ اس کی وجہ سے توشہ خانہ کیس کی سماعت بدھ کی صبح نو بجے تک ملتوی کردی گئی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ بدھ کی صبح جب مذکورہ مقدمے کی سماعت کا آغاز ہوا تو تحریک انصاف کے وکلاء عدالت میں موجود نہیں تھے۔ بشریٰ بی بی بھی تشریف نہ لائیں۔ عدالت نے تقریباََ ایک گھنٹہ تحریک انصاف کے وکلاء کا انتظار کیا ا ور بالآخر متوقع سزا سنادی گئی۔ تحریک انصاف کی سیاست کے بارے میں ہزاروں تحفظات کے باوجود میں بدھ کے روز سنائی سزا کی وجہ سے اداس وپریشان ہوگیا ہوں۔ وطن عزیز کا کنوئیں کے بیل کی طرح دائروں میں سفر مجھے پریشان کررہا ہے۔ کاش ہم دائروں میں گھومنے کے بجائے آگے بڑھنے کی راہ تلاش کرسکتے۔