Saturday, 15 March 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Nusrat Javed
    4. Mehakmon Se Abhi Tak Mehroom Naye Wafaqi Wuzra Aur Haqeeqi Sahafat

    Mehakmon Se Abhi Tak Mehroom Naye Wafaqi Wuzra Aur Haqeeqi Sahafat

    ربّ کریم سے فریاد ہے کہ جب یہ کالم چھپے تو معاملہ حل ہوچکا ہو۔ منگل کی صبح تک اگرچہ حل نہیں ہوا تھا۔ مسئلہ یہ ہے کہ آج سے چند روز قبل وفاقی کابینہ میں توسیع ہوئی تھی۔ نئے وزیروں نے حلف بھی اٹھالیا۔ محکمے لیکن انہیں ابھی تک الاٹ نہیں ہوئے۔ وزراء کی حلف برداری کے چند روز گزرجانے کے باوجود ان کے لئے محکموں کی تلاش حیران کن واقعہ ہے۔ اچھے وقتوں میں جب "صحافت" زندہ تھی۔ لوگ "سیاست" کو بھی ذرا سنجیدگی سے لیا کرتے تھے تو وزراء کو محکموں کی فراہمی میں دیر اخبارات کے لئے کہانیاں فراہم کرتی۔ کالم نگار اپنے انداز میں حکومت کی نالائقی پر برسنا شروع ہوجاتے۔ مزاحیہ کالم لکھنے والوں کی دکان بھی چمک اٹھتی۔

    میڈیا میں اس امر کے بارے میں اب کی بار مذکورہ معاملے کی بابت جو خاموشی طاری ہے وہ محض "رپورٹنگ" نامی شعبے کی موت کا اعلان ہی نہیں کرتی، یہ حقیقت بھی عیاں کرتی ہے کہ صحافیوں کے لئے "ممنوعہ علاقوں" میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے۔ پنجابی کا ایک محاورہ مشورہ دیتا ہے کہ دشمن کو ماردینے سے ڈرائے رکھنا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ موجودہ حکومتی بندوبست نے اسی مشورے پر عمل کرتے ہوئے پارلیمان سے ایک قانون پر انگوٹھے لگوالئے ہیں۔ پیکا اس قانون کا نام ہے۔ نظر بظاہر اس قانون کا اطلاق محض "سوشل میڈیا" پر ہونا ہے۔ مذکورہ قانون کو پاس ہوئے مگر کئی ہفتے گزرچکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر واہی تباہی اپنی جگہ برقرار ہے۔

    پاکستان سے فرار ہوکر امریکہ مقیم ہوا ایک بے سرا "صوفی" بھی اسی میڈیا کے ذریعے میرے ساتھ الجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ لاہور کی گلیوں میں جوان ہونے کی وجہ سے لیکن مجھے "حساب" برابر کرنا آتا ہے۔ ہماری اشرافیہ کے معزز ترین افراد مگر اس دونمبر صوفی کی سطح پر گر نہیں سکتے جو زلمے خلیل زاد کے ساتھ اپنی تصویر لگاکر خوش رہتا ہے۔ اس کے علاوہ نام نہاد مصنوعی ذہانت کے استعمال سے ایسی کئی وڈیو پوسٹ ہوئی ہیں جو ہر اعتبار سے غیر اخلاقی ہی نہیں ہمارے ٹھوس اقتصادی مفاد کے لئے خطرے کی حامل بھی ہوسکتی ہیں۔

    حکومت نے پیکا قانون منظور کروانے کے بعد ایسا تنظیمی ڈھانچہ کھڑا ہی نہیں کیا جو سوشل میڈیا پر پھیلائی واہی تباہی روکنے کے کام آسکے۔ ویسے بھی موجودہ حکومتی بندوبست پر اصل حملہ امریکہ میں مقیم تحریک انصاف کے حامی "انقلابیوں" کی جانب سے ہورہا ہے۔ وہاں موجود "انقلابیوں" کو حکومت ہاتھ نہیں لگاسکتی۔ "آزادی اظہار" کا سب سے بڑا چمپئن -ایلان مسک- کبھی ٹویٹر کہلاتے Xکا مالک ہے اور وہ ٹرمپ حکومت کا سب سے تگڑا شخص بن چکا ہے۔ بے شمار امریکی محکموں سے چن چن کر "فالتو" آدمی نکال رہا ہے۔

    بذاتِ خود یہ نسل پرست جنوبی افریقہ کے سفید فام گھر میں پیدا ہوا تھا۔ ماں کینیڈا کی شہری تھی۔ اس کی وجہ سے یہ بھی کینیڈا کا پاسپورٹ لے کر امریکہ آگیا۔ دفاعی ٹھیکوں سے اس نے بے تحاشہ دولت کمائی ہے۔ اب "امریکی مفادات" کا نگہبان ہے۔ اپنی حلف برداری کی تقریب میں ٹرمپ نے اسے امریکی پارلیمان کے منتخب شدہ اراکین کے مقابلے میں کہیں زیادہ لفٹ کروائی۔ اس کی پذیرائی سے گھبرا کر فیس بک کے مالک نے بھی اپنے پلیٹ فارم سے "ایڈیٹر" ہٹا دیا ہے۔ فیس بک کا ہر صارف اب جو چاہے اپنے دل کی بات مہذب ہوئے بغیر لکھ سکتا ہے۔ ایسے عالم میں پاکستان تحریک انصاف کے حامی "انقلابیوں" کو اربوں روپے لگاکر بھی بلاک کرنے کے قابل نہیں رہا۔ وی پی این روکنا ممکن نہیں۔ "انقلابیوں" کی لہٰذا رونق لگی ہوئی ہے۔

    برائلر انقلابیوں کے مقابلے میں مجھ جیسے "فرسودہ" صحافی مگر خود کو مفلوج محسوس کررہے ہیں۔ مجھے کم از کم تین ایسے افراد کی "آنیوں جانیوں" کا ذاتی طورپر علم ہے جو انہوں نے وفاقی کابینہ میں شمولیت کی خاطر اپنائیں۔ ان میں سے ایک صاحب نے یہ دعویٰ بھی ٹیلی فون پر اپنے دوستوں سے کیا کہ وزیر اعظم شہباز شریف موصوف کو مبینہ طورپر ازبکستان سے ٹیلی فون کے ذریعے "تسلیاں" دیتے رہے۔ میں اگر یہ سب واقعات متعلقہ افراد کے نام سمیت لکھ دوں۔ وہ کالم میں چھپ جائیں۔ کالم چھپ کر سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوجائے تو یہ تینوں افراد مجھے "فیک نیوز" پھیلانے کا مرتکب ٹھہراسکتے ہیں۔

    میں اپنے دفاع میں فقط ا ن تاریخوں کا ذکر کرسکتا ہوں جب ان تینوں نے وزیر اعظم کے دفتر سے رابطے کی کوشش کی۔ ان لوگوں کا ذکر بھی ہوسکتا ہے جن کی موجودگی میں ٹیلی فون کے ذریعے ملاقاتوں کی درخواست کی جارہی تھی۔ جن لوگوں کی موجودگی میں یہ واقعات ہوئے وہ میری حمایت میں لیکن گواہی دینے کو آمادہ کیوں ہوں گے؟ نتیجاََمیں "جھوٹا" اور فیک نیوز کا پرچارک قرار دے کر طویل قید کاٹنے جیل بھیج دیا جاؤں گا۔ دن دیہاڑے قتل کرنے والے شخص کو بھی اپیل کے دو حق ملتے ہیں۔ ہائی کورٹ اس کی جان خلاصی کو تیار نہ ہو تو سپریم کورٹ سے رحم کی گنجائش نکالی جاسکی ہے۔ پیکا ایکٹ کے تحت سزا یافتہ مجرم کو مگر اپیل کا فقط ایک پلیٹ فارم میسر ہے اور وہ ہے سپریم کورٹ۔

    پیکا کے خوف سے لہٰذا بہت کچھ جانتے ہوئے بھی میں آپ کو مطلع کرنے سے قاصر ہوں کہ وفاقی کابینہ میں نئی شمولیتوں کے بعد وزراء کو محکمے الاٹ کرنے میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ وزرائے مملکت سے "ترقی" پا کر جو خواتین وحضرات "پورے وزیر" بنے ہیں ان کے مطلوبہ محکمے کونسے ہیں اور انہیں مطلوبہ محکمے ملنے میں کیا دشواری ہے۔ پٹرولیم کی وزارت کیوں بہت تگڑی وزارت ہے۔ اس کے وزیر کے کیا اختیارات ہیں اور ان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ کس نوعیت کے مافیاز کی سرپرستی کرسکتے ہیں۔ ان سب معاملات پر لیکن پیکا کے قانون سے مفلوج ہوئے اذہان کھل کر لکھنے کی قوت سے محروم ہوچکے ہیں۔

    موجودہ حکومتی بندوبست کے ترجمان مگریہ کہنے سے باز نہیں آرہے کہ "حقیقی صحافیوں" کو پیکا سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ پیکا تو "حقیقی صحافت" کو بلکہ فروغ دے گا۔ "حقیقی صحافت" اس شعبے کو سا ری زندگی دینے کے باوجود سمجھنے کو بے چین ہوں۔ فی الحال سمجھ آئی ہے تو اتنی کہ اس کا مقصد حکومتی کارکردگی کو بڑھ چڑھ کر بیان کرتے ہوئے لوگوں کو امید دلانا ہے کہ ہم چھلانگیں لگاتے ہوئے ترقی وخوشحالی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کا سیلاب امڈنے کو بے چین ہے۔ ہم سمجھ نہیں پائیں گے کہ اسے کیسے سنبھالیں۔

    پاک-افغان سرحد پر واقع طورخم کا بارڈر مگر دس دن سے بند ہے۔ ٹرکوں کی لمبی قطاریں ہیں اور اب اتوار کی رات سے وقتا فوقتاََ افغان سرحد سے ہوائی فائرنگ کی تڑتڑاہٹ سڑک پر خجل خوار ہوتے ٹرک ڈرا ئیوروں کے دل کی دھڑکن تیز کردیتی ہے۔ اسے بھلاکر "حکومتی کارکردگی" کا ذکر ہی مگر"حقیقی صحافت" ہے۔ عمر کے آخری حصے میں خود کو اس کے قابل بنانے کی کوشش کررہا ہوں۔

    About Nusrat Javed

    Nusrat Javed

    Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.