دو ٹکے کا رپورٹر ہوتے ہوئے سیاسی منظر نامے کے مشاہدے کے بعد جو خیال ذہن میں آئے اسے وقت سے بہت پہلے بیان کردینے کا عادی ہوں۔ یہ سمجھ ہی نہیں پایا کہ ان دنوں مارکیٹنگ کا زمانہ ہے۔ سیاست کی طرح صحافت میں بھی اپنی دکان چمکانے کے لئے "ٹائمنگ" کو ذہن میں رکھنا ہوتا ہے۔ ویسے بھی "صحافت" اب الیکٹرانک ہوچکی ہے۔ اس کی رونق "شوبز" والی مہارت کا تقاضہ کرتی ہے اور عمر کے آخری حصے میں داخل ہوجانے کے بعد میں نئے کرتب سیکھنے کے قابل نہیں رہا۔ سب کچھ لٹا کے ہوش میں آنے کا اب کوئی فائدہ نہیں۔
اپنی ڈگر پر قائم رہتے ہوئے یہ دعویٰ کرنے کی حماقت کے ارتکاب کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ وزیر اعظم عمران خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد اگر کامیاب ہوگئی۔ ان کی فراغت کے بعد شہباز شریف صاحب وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے تو چند ہی ماہ بعد نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کی صفوں میں ویسی ہی مایوسی پھیلنا شروع ہوجائے گی جو 1988ء میں محترمہ بے نظیربھٹو کے اقتدار میں آنے کے چند ماہ بعد پیپلز پارٹی کا مقدر ہوئی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو کی 1967ء میں بنائی پیپلز پارٹی حقیقی معنوں میں ہماری تاریخ کی پہلی عوامی اور ملک گیر جماعت تھی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد 1971ء میں برسراقتدار آئی تو بقیہ پاکستان سنبھالنے اور اسے توانا اور خوش حال بنانے کے لئے مذکورہ جماعت کو سنگین ترین چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اس ضمن میں بیشتر اہداف حیران کن حد تک حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ جمہوری نظام کو البتہ مضبوط تر بنانے میں ناکام ہوئی۔ ناقدین کے خلاف اس کا رویہ مستقل جارحانہ رہا۔ اس رویے کی بدولت جو فضا بنی وہ بالآخر جولائی 1977ء کے مارشل لاء کا جواز ہوئی۔
مذکورہ مارشل لاء کے خلاف پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے قابل تحسین مزاحمت روارکھی۔ سینکڑوں نوجوان کارکنوں کی زندگیاں عقوبت خانوں اور جلاوطنی کی نذر ہوئیں۔ ان کی کثیر تعداد کو برسرعام کوڑے بھی لگائے گئے۔ اپریل 1979ء میں ذوالفقار علی بھٹو کو بھی بالآخر پھانسی لگادی گئی۔ اس کے باوجود پیپلز پا رٹی کے جیالے"بھٹو ہم شرمندہ ہیں -تیرے قاتل زندہ ہیں " کا ورد کرتے ہوئے جان گسل جدوجہد میں مصروف رہے۔
فلم بنانے کی ٹیکنیک والا "فاسٹ کٹ" لگاتے ہوئے جست لگاکر اب ہم 1988ء میں داخل ہوجاتے ہیں۔ جنرل ضیاء اس برس کے اگست میں فضائی حادثے کا شکار ہوئے۔ ان کی رحلت کے بعد غلام اسحاق خان صاحب منصب صدارت پر فائز ہوئے۔ نئے انتخاب کے انعقاد کا اہتمام ہوا۔ مذکورہ انتخاب کے انعقاد سے قبل تاہم پیپلز پارٹی کے "انتقام" سے بچنے کے لئے آئی جے آئی نامی اتحاد ریاستی اداروں کی بھرپور سرپرستی میں راتوں رات کھڑا کردیا گیا۔
اس اتحاد کی بدولت پیپلز پارٹی اور اس کے مخالفین کے مابین بے تحاشہ انتخابی نشستوں پر ون آن ون مقابلے ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے مخالف ووٹ مختلف جماعتوں میں تقسیم نہ ہوئے۔ بالآخر جو نتیجہ برآمد ہوا اس نے پیپلز پارٹی کو قومی اسمبلی میں بھاری اورقطعی اکثریت سے محروم رکھا۔ آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے میں بھی وہ اپنی حکومت بنانے کے قابل نہ رہی۔ فقط سندھ ہی میں اسے بھاری بھر کم اکثریت نصیب ہوئی۔ وہاں مگر اسے "آنے والی تھاں " رکھنے کو ایم کیو ایم بھی نہایت توانائی سے نمودار ہوچکی تھے۔
1988ء میں لاگو آئین میں جنرل ضیاء کی متعارف کردہ آٹھویں ترمیم کی بدولت صدر کو یہ اختیار حاصل تھا کہ انتخابی عمل مکمل ہوجانے کے بعد وہ قومی اسمبلی کے اس رکن کو وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لئے نامزد کرے جو اس کی دانست میں مذکورہ ایوان میں "اکثریت" دکھا سکتا تھا۔ غلام اسحاق خان نے اس اختیار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹو کو نامزد کرنے میں لیت ولال سے کام لیا۔
اپنی "نامزدگی" یقینی بنانے کے لئے محترمہ بے نظیر بھٹو کو وطن عزیز میں اقتدار کے حتمی مالکوں سے مذاکرات کرنا پڑے۔ جو مذاکرات ہوئے ان کے نتیجے میں محترمہ سے یہ وعدہ لیا گیا کہ وہ غلام اسحاق خان کو عبوری صدر رہنے کے بجائے باقاعدہ منتخب ہوا صدر بنائیں گی۔ وزارت خارجہ کے نگران صاحبزادہ یعقوب علی خان ہوں گے۔ 1988ء کے انتخاب سے قبل عبوری حکومت کے وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم نے آئی ایم ایف سے پاکستانی معیشت کو سہارا دینے کے نام پر ایک معاہدہ بھی کررکھا تھا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو سے تقاضہ ہوا کہ مذکورہ معاہدے پر کامل عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے افسر شاہی کے ایک تگڑے نمائندے وی-اے -جعفری کو وزارت خزانہ کا مدارالمہام بنایا جائے۔ قصہ مختصر محترمہ بے نظیر بھٹو کو حقیقی اقتدار کے محض چند ٹکڑوں پر اکتفا کرنا پڑا۔ بیساکھیوں پر کھڑے اس اقتدار کی وجہ سے وہ "انقلابی" اصلاحات متعارف کروانے کے قابل ہی نہ رہیں۔ چند ہی ماہ بعد لہٰذا ان کی وزارت عظمیٰ اسلام آباد کو راولپنڈی کے فیض آباد چوک تک محدود نظر آنا شروع ہوگئی۔
ستمبر1989ء میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی پیش کردی گئی۔ اسے ناکام بنانے کے باوجود وہ اگست 1990ء میں کرپشن کے الزامات کے تحت برطرف کردی گئیں۔ ان کے حامی "یا اللہ یارسولؐ-بے نظیر بے قصور" کا نعرہ ہی لگاتے رہ گئے۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے اسے دہرانے سے کیا حاصل۔ مجھے تو ویسے بھی حال پر توجہ دینا ہے۔
یہ اب "اندر کی خبر" ہرگز نہیں رہی کہ اگر عمران خان صاحب تحریک عدم اعتماد کے کامیاب ہوجانے کی صورت وزارت عظمیٰ سے محروم ہوگئے تو شہباز شریف صاحب ان کی جگہ سنبھالیں گے۔ ان کا منصب سنبھالتے ہی سوال یہ اٹھے گا کہ فوری انتخاب کی جانب بڑھا جائے یا موجودہ قومی اسمبلی اپنی آئینی مدت کے اختتام تک قائم رہے۔ قومی اسمبلی کو برقرار رکھنے کے لئے شہباز شریف صاحب کو "مخلوط حکومت"بنانا ہوگی۔ وہ اسے "قومی حکومت" کا نام دے رہے ہیں۔
اس نام کا جانور مگر اقتدار کے بے رحم کھیل میں کہیں نظر نہیں آتا۔ وزارت عظمیٰ کے منصب پر برقرار رہنے کے لئے شہباز صاحب کو پیپلز پارٹی کے علاوہ دیگر "اتحادیوں " کو بھی تگڑی وزارتوں سے نوازنا پڑے گا۔ پنجاب کی حکومت بھی شاید چودھری پرویز الٰہی کو دان کرنا پڑے۔ وہ یہ سمجھوتے کرنے میں کامیاب ہوگئے تب بھی یہ سوال اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے 2019ء میں جو معاہدہ کررکھا ہے اس پر عملدرآمد برقرار رکھنا ہے یا نہیں۔ مذکورہ معاہدہ برقرار رکھتے ہوئے مہنگائی کی لہر کو لگام ڈالنا ناممکن ہے۔ اس معاہدے پر نظرثانی ہر صورت درکار ہے۔
مطلوبہ نظرثانی کے لئے آئی ایم ایف کی فیصلہ سازی کے عمل میں ویٹو والے اختیارات کے حامل امریکہ کو رام کرنا پڑے گا۔ بائیڈن انتظامیہ مگر رحمدلی دکھانے کو تیار ہونے سے قبل کچھ تقاضے بھی کرے گی۔ ان تقاضوں کی تفصیل بیان کرنا اس کالم کو طویل تر بنادے گا۔ مکدی گل یہ ہے کہ امریکہ کو رام کرنے کے لئے ہمیں ایسی لچک دکھانا پڑے گی جو ہمارے بے تحاشہ "محبان وطن" کو آگ بگولہ بنادے گی۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب آپ اور مجھے مل کر سوچنا ہوگا۔