ایک مشہور لطیفہ میں بیان ہوا دیہاتی مصر رہتا ہے کہ شہر میں سجایا میلہ در حقیقت اس کا " رومال چرانے"کی سازش تھی۔ مذکورہ لطیفہ کے برعکس وطن عزیز میں ان دنوں وزیر اعظم عمران خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے عنوان سے حقیقی معنوں میں لا متناہی "آنیاں جانیاں " برپا ہیں۔ نظر بظاہر اس ضمن میں عمران خان صاحب کی حمایت یا مخالفت میں اراکین قومی اسمبلی کو ترازو کے کسی ایک پلڑے میں جمع کرنے کی اذیت ناک کوشش ہورہی ہے۔
مذکورہ کوشش مگر اب عثمان بزدار صاحب سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا "رومال چرانے" پر توجہ دیتی بھی مرکوز نظر آرہی ہے۔ اپوزیشن رہ نماؤں کے خلوت میں ہوئے دعویٰ پر اعتبار کریں تو تحریک انصاف کے ٹکٹ پر جولائی 2018ء میں قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے اراکین میں سے کم ازکم 12 افراد اب تک نواز شریف سے منسوب مسلم لیگ کو اپنی حمایت کا یقین دلاچکے ہیں۔ پیپلز پارٹی سے اس ضمن میں 6افراد سے رابطہ میں ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کی جمعیت کو بھی دو اراکین نے اپنی حمایت کا یقین دلادیا ہے۔ دعویٰ یہ بھی ہورہا ہے کہ عمران خان صاحب کی مخالفت کاان اراکین کی جانب سے جو وعدہ ہوا ہے اس سے مفرممکن ہی نہیں۔ قصہ مختصر اپوزیشن جماعتیں تحریک انصاف کے 20بندے کاملاََ"توڑ" چکی ہیں۔ یہ تعداد جمع کرلینے کے باوجود سیاسی کھیل میں کامیابی کو یقینی بنانے کے حتمی ماہر تصور ہوتے چالباز بضد ہیں کہ حکومتی جماعت کے منحرف اراکین کی حمایت پر کامل انحصار کھیل میں "جان" نہیں ڈالے گا۔
اصل مزہ تو اس صورت آئے گا اگر مسلم لیگ (ق) کے کرتا دھرتا چودھری برادران اپوزیشن رہ نمائوں کے ہمراہ ٹی وی کیمروں کے روبرو آئیں۔ برملا اعلان کردیں کہ وہ اب عمران حکومت کے "اتحادی" نہیں رہے۔ مطلوبہ اعلان ہوگیا تو عمران خان صاحب ازخود وزارت عظمیٰ کے منصب سے مستعفی ہونے کااعلان بھی کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد ہوا قومی اسمبلی کا اجلاس موجودہ وزیر اعظم کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد پر گنتی کے بجائے "نئے" وزیر اعظم کے انتخاب کے لئے طلب کرنا پڑے گا۔
عمران خان صاحب کی ضدی طبیعت کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھے یہ دعویٰ تسلیم کرنے میں کافی دِقت پیش آرہی ہے کہ "اتحادی" جماعتوں کی جانب سے میسر حمایت کھودینے کے بعد وہ ازخود وزارت عظمیٰ کے منصب سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیں گے۔ وہ بلکہ "آخری گیند" تک مقابلے کو آمادہ نظر آرہے ہیں۔ اسی باعث ان کے جنونی مصاحب اسلام آباد میں "دس لاکھ" افراد جمع کرنے کے منصوبے بنارہے ہیں۔
امید باندھی جارہی ہے کہ پارلیمان کے سامنے جمع ہوئی عمران صاحب کے حامیوں کی "فقیدالمثال" تعداد کے ہوتے ہوئے تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے اراکین اسمبلی ان کی مخالفت میں ووٹ ڈالنے کے لئے ایوان کا رُخ کرنے سے قبل سوبار سوچیں گے۔ اپوزیشن غصہ سے بپھرے ہجوم کے خوف سے تحریک عدم اعتماد کی حمایت میں 172اراکین دکھانہیں پائے گی۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ راوی اس کی بابت خاموش ہیں۔
عمران خان صاحب کے خلاف گیم لگانے والے تاہم پرامید ہیں کہ اگر گجرات کے چودھریوں نے کھل کر ان کی حمایت کا اعلان کردیا تو تحریک انصاف کو اپنا وزیر اعظم "بچانے" کے علاوہ عثمان بزدار صاحب کو بھی تحفظ فراہم کرنے کی فکر لاحق ہوجائے گی۔ نوبت یہاں تک بھی پہنچ سکتی ہے کہ وزیر اعظم صاحب کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد پر گنتی کے لئے قومی اسمبلی کے بجائے پنجاب اسمبلی کا اجلاس طلب کرنا پڑے اور عثمان بزدار صاحب وزارت اعلیٰ کے منصب سے فارغ ہوجائیں۔
پیپلز پارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت اور چودھریوں سے بیک وقت اور براہِ راست رسائی کے حامل میرے چند پراعتماد ذرائع پیر کی صبح تک یہ محسوس کررہے تھے کہ آصف علی زرداری کے مسلسل رابطوں نے بالآخر لندن میں مقیم نواز شریف کو قائل کردیا ہے کہ عمران خان سے "جان" چھڑانے کے لئے چودھریوں کو "آن بورڈ" لینا ہوگا۔ اپنی حمایت کے عوض مسلم لیگ (ق) یقینا چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ منتخب کروانا چاہے گی۔ وہ ایک قابل منتظم شمار ہوتے ہیں۔ انہیں وزارت اعلیٰ کا منصب مل گیا تو آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں تحریک انصاف کے سرکردہ حمایتیوں کو پلس اور انتظامیہ کی مدد سے بآسانی لگام ڈال لیں گے۔
اس لگام کی بدولت فرض کیا عمران خان صاحب اپنے منصب پر مزید کچھ ماہ تک برقرار بھی رہے تو ان کا اقتدار اسلام آباد کو راولپنڈی سے ملانے والے "فیض آباد" چوک تک محدود ہوجائے گا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی پہلی حکومت کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ ہوا تھا۔ عمران خان صاحب سے ہر صورت "جان چھڑانے" کے لئے میری دانست میں بنیادی لچک دکھانے کو نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ ہی کو مجبور کیا جارہا ہے۔
"ووٹ کو عزت دو" والے نعرے کو بھلاکر وہ محلاتی سازش کے ذریعے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کو آمادہ ہوئی۔ وہ تحریک اگر کامیاب ہوگئی تب بھی فوری طورپر "صاف شفاف" انتخاب کی صورت نظر نہیں آرہی۔ معیشت سنبھالنے اور انتخابی اصلاحات کے بہانے شہبازشریف صاحب کو بلکہ بطور وزیر اعظم اپنی "صلاحیتیں " زیادہ سے زیادہ دیر تک آزمانے کو مجبور کیا جائے گا۔
عثمان بزدار کی جگہ چودھری پرویز الٰہی بھی پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوجانے کے بعد اپنے عہدے اور اسمبلی کی آئینی مدت مکمل کرنے کو ترجیح دیں گے۔ ممکنہ طورپر چہرے بدل جانے کے بعد نظام البتہ ویسے ہی رہے گا جس کے ہوتے ہوئے میرے اور آپ جیسے محدود آمدنیوں کے حامل عام پاکستانیوں کی اکثریت کے لئے خیر کی امید رکھنا خام خیالی کے سوا کچھ بھی نہیں۔