انگریزی کا ایک محاورہ متنبہ کرتا ہے کہ جہنم کے راستے بظاہر نیک نیتی، سے کیے فیصلوں کی بدولت ہی گریز کے قابل نہیں رہتے۔ ہماری اشرافیہ کے چند عناصر اور ان کی خواہشوں کو تجزیہ، کی صورت بیان کرنے والے صحافی، بھی اکثر نیک نیتی، ہی سے وطن عزیز کو مصیبتوں کی جانب دھکیلتے رہے ہیں اور اس ضمن میں اپنی تاریخ سے حوالوں کا ذکر شروع کروں تو کالم نہیں کتاب لکھنا پڑے گی۔ بہتر یہی ہے کہ حال ہی میں ہوئی واردات، پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔
مزید پڑھنے سے قبل خدارا یاد رکھیے گا کہ عمران خان اور ان کی تحریک انصاف گزشتہ کئی مہینوں سے ہمیں یاد دلائے چلی جارہی تھی کہ ہمارا تحریری آئین کسی بھی اسمبلی کی تحلیل کے بعد نوے روز کے اندر، اس کی تشکیل نو کے لیے انتخاب کا تقاضا کرتا ہے۔ تحریری آئین کے اسی تقاضے کو ذہن میں رکھتے ہوئے عمران خا ن نے چودھری پرویز الٰہی کو مجبور کیا کہ وہ پنجاب اسمبلی سے اعتماد کے حصول کے فوری بعد اسے تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھجوادیں۔ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ کو بھی ایسا ہی فیصلہ لینے کو مجبور کیا۔
دونوں وزرائے اعلیٰ کی جانب سے حکم کی تعمیل کے باوجود نوے روز کے اندر، پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخا ب نہ ہوپائے۔ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن نے ہمارے تحریری آئین ہی سے ایسی شقیں اور احکامات دریافت کرلیے جنھوں نے ہمارے دو اہم صوبوں میں نئے انتخاب کا انعقاد ناممکن بنادیا۔ مطلوبہ انتخابات کو روکنے کے لیے سپریم کورٹ کے چند عزت مآب جج بھی وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کے سہولت کار، ٹھہرائے گئے۔ تاریخ کا جبر یہ بھی ہے کہ ان دنوں وہ ہی جج سپریم کورٹ کی فیصلہ سازی میں کلیدی کردار ادا کررہے ہیں۔
واقعہ یہ بھی ہوا کہ عزت مآب چیف جسٹس صاحب کی قیادت میں مذکورہ ججوں نے اٹارنی جنرل کو چند ہفتے قبل مجبور کیا کہ وہ صدرِ پاکستان اور چیف الیکشن کمشنر کے مابین مشاورت کی راہ نکالیں اور ان دونوں کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب کی تاریخ دینے پر رضامند کریں۔
سپریم کورٹ کے حکم اور اٹارنی جنرل کی کاوشوں کی بدولت بالآخر 8 فروری 2024ء کی تاریخ آئندہ انتخابات کے لئے طے کردی گئی۔ اس تاریخ کا اعلان اصولی طورپر تحریک انصاف کی تاریخی کامیابی تھی کیونکہ وہ اپریل 2022ء سے نئے انتخاب کی کوئی بھی صورت بے چینی سے ڈھونڈ رہی تھی۔
تحریک انصاف ہی کے ایک اہم وکیل اور عہدے دار نے تاہم گزشتہ ہفتے کا آغاز ہوتے ہی لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا۔ شکایت یہ لگائی کہ الیکشن کمیشن نئے انتخابات کا انعقاد ایسے ریٹرننگ افسروں کے ذریعے کروانا چاہ رہا ہے جو عدلیہ نہیں انتظامیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کو عدالتوں سے ضمانتیں مل جانے کے بعد بھی امن عامہ برقرار رکھنے، کے لیے بنائے قوانین کے تحت نظربند کردیتے ہیں۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کو عوامی رابطے کے لیے جلسے جلوسوں کی اجازت بھی نہیں دے رہے۔
لاہور ہائیکورٹ سے جو فریاد ہوئی وہ تحریک انصاف کی انتخابی مہم یقینی بنانے کی راہ نہیں بناتی تھی۔ اس کا تمام تر فوکس ریٹرننگ افسروں کی تعیناتی پر مرکوز رہا اور یوں لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بنچ کو جواز مل گیا کہ وہ ایک لارجر بنچ کی تشکیل کے ذریعے اپنے روبرو آئے مسئلے کا تفصیل سے جائزہ لے۔ تفصیلی جائزے، کی تمنا نے الیکشن کمیشن کو انتخاب کا شیڈول دینے سے روک دیا۔
لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے والے تحریک انصاف کے رہ نما یہ حقیقت فراموش کرچکے تھے کہ اٹارنی جنرل کی کاوشوں کی بدولت 8 فروری 2024ء کی تاریخ حاصل کرنے کے بعد عزت مآب چیف جسٹس نے اسے پتھر پر لکھی تاریخ، ٹھہرایا تھا۔ اس کے علاوہ حکم یہ بھی دیا کہ مذکورہ تاریخ طے ہوجانے کے بعد آئندہ انتخاب کے انعقاد کی بابت شکوک وشبہات پھیلانے سے گریز کیا جائے۔ سپریم کورٹ ہی کے ایک اور عزت مآب جج جناب اطہر من اللہ نے ایک اور مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس کے ذریعے یہ عندیہ بھی دیا کہ 8 فروری 2024ء کے دن انتخاب نہ ہونے کی افواہیں پھیلانے والے توہین عدالت کے مرتکب بھی ٹھہرائے جاسکتے ہیں۔
ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے عزم کی جس شدت سے عام انتخابات کے لیے 8 فروری 2024ء کی تاریخ طے کی تھی اس کے ہوتے ہوئے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ لاہور ہائیکورٹ کے روبرو پیش ہوئی عذرداری کے ذریعے تاخیر کی راہ نکالی جائے۔ تاخیر مگر کشید، لی گئی تو جمعہ کی شام سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کی درخواست پر فی الفور متحرک ہوا۔ فوری سماعت کے ذریعے اس امر کو یقینی بنایا گیا کہ الیکشن کمیشن 8 فروری 2024ء کے دن انتخاب کا انعقاد یقینی بنانے کے لیے جمعہ کے دن کی صبح میں تبدیل ہونے سے قبل ہی شیڈول کا اعلان کرے۔ الیکشن کمیشن کے پاس گریز کی کوئی راہ ہی نہ رہی۔
تحریک انصاف کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے والے صاحبان کا شمار اس جماعت کے نادان دوستوں میں ہونا چاہیے۔ انھوں نے عوام میں یہ تاثر پھیلایا ہے کہ ان کی جماعت کو آئندہ انتخابات میں اپنی جیت کا یقین نہیں تھا۔ لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہونے سے قبل جبکہ ریگولر اور سوشل میڈیا کے ذریعے تاثر یہ پھیلایا جارہا تھا کہ آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف سادہ اکثریت نہیں بلکہ دو تہائی اکثریت بھی حاصل کرسکتی ہے۔ اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اگر وہ کھمبا، بھی کھڑا کردے تو ہماری ا ٓبادی کے 60 فیصد نوجوانوں کی اکثریت اس کی حمایت میں ازخود، ووٹ ڈالنے کو مچل رہی ہے۔
ذاتی طورپر میں اس دعویٰ سے متفق نہیں۔ تحریک انصاف کا ووٹ بینک بھرپور توانائی سے اپنی جگہ موجود ہے۔ انتخابی حرکیات کے سنجیدہ طالبعلم مگر اس حقیقت کوتحریک انصاف کے لیے واک اوور، قرار نہیں دے سکتے۔ عمران خان کے خلاف قائم ہوئے مقدمات اور ان کا مسلسل جیل میں ہونا تحریک انصاف کو انتخابی حوالے سے کمزور تر بنارہا ہے۔ جیل میں قید ہوئے سیاسی رہ نما کے ساتھ عوام کا کماحقہ حصہ یقینا ہمدردی محسوس کرتا ہے۔ ہم دردی، مگر انتخابی عمل کا متبادل فراہم نہیں کرتی۔
پیپلز پارٹی 1979ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد کئی برسوں تک عوامی ہمدردی سے مالا مال رہی تھی۔ اقتدار اسے مگر 1988ء ہی میں نصیب ہوا۔ وہ بھی جنرل ضیاء ا لحق کی فضائی حادثے میں رحلت کے بعد۔ جنرل ضیاء کے ساتھ ہوا حادثہ بھی تاہم اس جماعت کو 1988ء میں ہوئے انتخابات کی بدولت پنجاب میں حکومت نہ دلواسکا۔ اس برس سے آج تک پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنے تئیں سادہ اکثریت کے بل بوتے پر صوبائی حکومت نہیں بناپائی ہے۔ پاکستان کی تاریخ اور یہاں کی سیاسی حقیقتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے تحریک انصاف کی کامل توجہ اس امر پر مرکوز رہنی چاہیے تھی کہ 8 فروری 2024ء کے دن قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہر صورت منعقد ہوں۔
وہ ان میں بھرپور انداز میں حصہ لینے پر ہر صورت ڈٹی نظر آئے اور عوام تک یہ تاثر پہنچائے کہ نگران حکومتیں اور مقتدر کہلاتی قوتیں انھیں یقینی نظر آتی جیت، سے محروم رکھنے کے لیے ہر جائز وناجائز حربہ استعمال ا ختیار کررہی ہیں۔ ایسا مگر ہونہیں رہا۔ تحریک انصاف کی صفوں میں موجود نادان دوستوں، کے ہوتے ہوئے شاید اس جماعت کے دشمنوں کو اب مزید حلیف، ڈھونڈنے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔