پیکا قانون جب متعارف کروایا جارہا تھا تو مجھ جیسے بزدل بہت فکر مند رہے۔ یہ قانون تیار اور اسے عجلت میں پارلیمان سے منظور کروانے کے بعد لاگو کرنے والے مگر تسلیاں دیتے رہے۔ تواتر سے یہ بیان کرتے رہے کہ مذکورہ قانون سے "اصل صحافیوں "کوگھبرانا نہیں چاہیے۔ اپنی زندگیاں پیشہ وارانہ صحافت کی نذر کرنے والوں کو تو بلکہ خوش ہوجانا چاہیے کہ ایسا قانون لاگو ہونے جارہا ہے جو موبائل فون کی مدد سے "جھوٹی کہانیاں" گھڑتے ہوئے شرفاء کی پگڑیاں اچھالنے والوں کی حوصلہ شکنی کرے گا۔
جھوٹی خبروں سے سوشل میڈیا پر مشہور ہوئے "صحافی" اس کی وجہ سے بے نقاب ہوجائیں گے۔ کم تنخواہوں کے محتاج میرے پیشے سے تعلق رکھنے والوں کو یہ بھی یاد دلایا گیا کہ "جھوٹ" کی بنیاد پر تشکیل دئے "بیانیہ" کے فروغ سے چند افراد ہر مہینے "لاکھوں ڈالر" کمارہے ہیں۔ ان کی خوش حالی "صحافت" کو فقط بدنام ہی نہیں کررہی بلکہ صحافیوں کی نوجوان نسل کو اس امر پر اُکسارہی ہے کہ وہ بلیک اینڈ وائٹ فلموں میں دکھائے صحافیوں کی طرح غربت کے ہاتھوں سوطرح کے امراض کے شکار ہونے کے بجائے "جھوٹے بیانیوں" کی فروخت سے "سیٹھوں کی نوکری کے محتاج" ہونے کے بجائے ازخود ڈالر کمانا شروع ہوجائیں۔
جو خیالات سرکار مائی باپ کی جانب سے پیکا کی حمایت میں سننے کو ملے تقریباََ ویسے ہی "دلائل" اس دن سے سننے کو مل رہے ہیں جب اس بے وقوف نے رزق کمانے کے بے شمار دیگر ذرائع میسر ہونے کے باوجود 1975ء کے برس سے فقط پیشہ وارانہ صحافت سے وابستہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ عمر کے آخری حصے میں داخل ہوکر دیانتداری سے احساس ہورہا ہے کہ میرا فیصلہ غلط تھا۔ میں تو خیر دو ٹکے کا رپورٹر رہتے ہوئے بڈھا ہوگیا مگر عالمی ادب کے بھی کئی بڑے نام ہیں جنہوں نے جوانی میں فقط صحافت سے وابستہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔
انگریزی زبان کو منفردانداز میں استعمال کرنے کی مہارت سے مالا مال ارنسٹ ہیمنگوے بھی جنگ عظیم کے دوران ایمبولینس کا ڈرائیور بن کر یورپ گیا تو وہاں سے ایک امریکی اخبار کے لئے رپورٹنگ کا فیصلہ کیا۔ اس کی بھیجی خبر چھپ جاتی تو چھپے ہوئے الفاظ کے حساب سے ادائیگی ہوتی۔ چند برس گزرجانے کے بعد وہ مگر اس نتیجے پر پہنچا کہ "خبر" کے ذریعے پورا سچ بیان نہیں ہوسکتا۔ بیان کر بھی دو تو جو معاوضہ ملتا ہے وہ سفید پوشی کا بھرم رکھنے کو کافی نہیں۔ وطن سے دور "تار (ٹیلی گرام)" کے ذریعے خبر بھیجنے کی عادت نے مگر اسے کم ترین الفاظ میں اپنا مدعا بیان کرنے کا ہنر سکھادیا۔ صحافت چھوڑ کر ادب میں آیا اور بلے بلے ہوگئی۔
ہیمنگوے ایک ایسے ملک (امریکہ) کا شہری تھا جہاں صحافت سے وابستہ رہ کر بھی نام ہی نہیں خوش حالی بھی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں میں لیکن یہ ممکن نہیں۔ جمہوریت ہم جیسے ملکوں کو کبھی کبھار نصیب ہوتی ہے۔ آزادی اظہار" کا تصور بھی ہمارے لئے اجنبی ہے۔ سلطانوں، بادشاہوں اور غیر ملکی سامراج کے غلام رہے ہم لوگ نسلوں سے سرکار مائی باپ کی جی حضوری کے عادی ہیں۔ اسی باعث اردو اور فارسی زبانیں استعاروں کی کامل محتاج ہیں۔ بلھے شاہ کو سچ بیان کرنا شعلہ بھڑکانے کے مترادف محسوس ہوتا تھا۔ اسی باعث عمر تمام ہذیانی کیفیات میں مبتلا رہے۔
صحافی سے "بلھے شاہ" ہونے کی توقع رکھنا بے سود ہے۔ بنیادی طورپر یہ ایک دھندا ہے۔ قواعد وضوابط کا احترام اس پر لازم ہے۔ ہمارے سیاستدان مگر جب اپوزیشن میں ہوں تو قواعد وضوابط میں جکڑی صحافت کو "آزاد" کرنے کی بڑھک لگاتے ہیں۔ اقتدار ملتے ہی مگر ا نہیں ہمارا لکھا اور بولا ہر لفظ "تخریبی" محسوس ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اسی باعث میری نسل کے لوگ بچ بچا کر چلنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود اکثر بے روزگاری کے طویل برس سے دو چار رہے۔ رواں صدی کا آغاز ہوتے ہی مگر موبائل فون کے ساتھ آگیا انٹرنیٹ۔ اس نے موبائل فون کے ہر مالک کو "صحافی" بنادیا۔ انگریزی زبان میں اسے Journalism Citizen پکارا گیا۔
اپنے ہاں یہ چلن متعارف ہوا تو میرا جھکی ذہن لوگوں کو یاد دلاتا رہا کہ موبائل فون کے ذریعے جس "صحافت" کا ذکر ہورہا ہے وہ "شہری" کی محتاج ہے۔ شہری کے فرائض کے علاوہ چند "حقوق" بھی ہوتے ہیں۔ اپنے ہاں مگر "شہری" نہیں "رعایا" بستی ہے۔ اپنی بے بسی تسلیم کرنے کے باوجود بارہا اس کالم میں مختلف ممالک میں نسلی اور مذہبی منافرت پر مبنی ان فسادات کا ذکر بھی کرتا رہا جو نام نہاد "شہری صحافت" نے سوشل میڈیا کی مختلف ایپس پر جھوٹی اور من گھڑت خبروں کے ذریعے بھڑکائے۔
"شہری صحافت" کے ذریعے اپنے مخالفین کی پگڑیاں اچھالنے کا رواج وطن عزیز میں اسی جماعت نے متعارف کروایا تھا جو ان دنوں خود ریاست کی نگاہ میں "تخریب کار" بن چکی ہے۔ اس کی "تخریب کاری" کی حوصلہ افزائی مگر ہماری ریاست ہی کے چند طاقتور اداروں نے فرمائی تھی۔ "پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ" لڑنے کے لئے سوشل میڈیا کے محاذ پر جو "سپاہ" ریاستی سرپرستی میں مسلط کروائی گئی اب بوتل سے نکلے جن کی طرح بے قابو ہوچکی ہے۔ ان میں سے اکثر بیرون ملک جاچکے ہیں۔ پاکستان میں ان دنوں خود کو حق وصداقت کی علامت کے طورپر منوانے کے لئے لازمی ہے کہ ان کے تشکیل کردہ بیاینے کو فروغ دیا جائے۔
پیکا ایکٹ کی منظوری اور لاگو ہونے کے بعد یہ ممکن نہیں رہا۔ "فیک نیوز" کی سرکوبی کے لئے مگر ریاست بلڈوزرکی صورت چل نکلی ہے تو "اچھے اور "بُرے" طالبان کی طرح "غلط اور "درست" صحافی کی تخصیص ممکن نہیں رہی۔ ساری عمر اس دھندے کی نذر کردینے کے باوجود کچھ لکھنے اور بولنے سے قبل سوبار سوچتا ہوں۔ خوف سے مفلوج ہوئے اذہان اہم ترین موضوعات پر بروقت سوال اٹھا نہیں سکتے۔ بعداز خرابی بسیارآپ فقط ماضی کی غلطیوں کو کوسنے کے قابل رہ جاتے ہیں۔ ماضی کو یاد رکھنا ضروری ہے اور اس کے دوران ہوئی غلطیوں کو کوسنا بھی اشد ضروری۔ بلھے شاہ کے ایک فرمان کے مطابق البتہ "آئی صورتوں (یعنی لمحہ موجود میں)" تھوڑا سچ بولنا بھی ضروری ہے۔ پیکا قانون کے مسودے میں اس امر کی گنجائش باقی نہیں رہی۔
غالب خوش نصیب تھے۔ افراتفری کے دور میں بوڑھے اور نحیف ہوچکے تھے۔ شگفتہ مزاجی مگر دوستوں کو خط لکھتے ہوئے برقرار رکھی اور اپنے خطوط کی بدولت اپنے دور کی تلخ حقیقتیں بھی بیان کردیں۔ پیکا قوانین کے مطابق مگر شگفتہ مزاجی معتبر قرار پائے افراد اور اداروں کی "توہین" ٹھہرائی جاسکتی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ نام نہاد "حالاتِ حاضرہ" پر تبصرہ کرنے کے بجائے میں اس کالم میں افسانے لکھنا شروع کردوں۔